کاواں دے بچے کدی ہنس نہ بنڑدے
ایک اچھا بھلا شخص کام پر جانے کے لئے جب محلے سے نکل کر بازار میں آیا تو اس سے ملنے والے ایک شخص نے اس کے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے سنجیدگی سے کہا یار! تمھارے بائیں کان کو کیا ہوا؟ وہ مجھے نظر نہیں آ رہا، پوچھنے والا شخص مسکرا کر آگے بڑھ گیا بات آئی گئی ہو گئی مگر دوسرے دن بھی یہی کچھ ہوا کل والے شخص نے گلی سے گزرتے ہوئے اسے اس کے بائیں کان کے غائب ہونے کی اطلاع دی۔ اس دن گھر واپس آ کر وہ کئی بار اپنے چہرے کو دیکھنے شیشے کے سامنے گیا اور اپنے بائیں کان کو ٹٹول کر اس کی موجودگی کی تسلی کرتا رہا اور مسکراتا رہا۔ تیسرے دن پھر وہی ماجرا ہوا، اُس شخص نے اسے قسم دیتے ہوئے کہا یار! میرا اور تمھارا آپس کا کوئی مذاق نہیں ہے لیکن قسم سے مجھے تمھارا کان دکھائی نہیں دے رہا، اس دن وہ کام پر جانے کی بجائے گھبرایا ہوا واپس گھر کی طرف لوٹ گیا اور جب کان غائب ہونے کی تکرار دو ماہ تک مسلسل اس کے کانوں میں پڑتی رہی تو وہ ایک دن کانوں کے ماہر معالج کے پاس شکایت لیکر جا بیٹھا کہ اس کا بایاں کان غائب ہو گیا ہے۔ معالج نے اسے تسلی دی اور ایک سکون کی دوائی کھانے کے لئے تجویز کی۔ اس کی بیوی، بچوں، رشتے داروں اور تمام دوست احباب نے اسے ضمانت دی کہ اس کے دونوں کان اپنی جگہ سلامت ہیں لیکن اسے اعتبار نہ آیا اور وہ تمام سمجھانے والوں کی نگاہوں پر مشکوک ہوتا گیا اسے یقین ہو گیا کہ اس کا ایک کان موجود ہی نہیں ہے اور یہ سب یا تو اسے الو بنا رہے ہیں یا پھر ان کی بصارت میں کوئی نقص ہے۔ یہ ایک کھلی حیقیت ہے کہ پروپیگنڈا دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار ہے پروپیگنڈا بتدریج اثر انداز ہوتا ہے اور جب اس کا زہر کانوں کے ذریعے دماغ پر چڑھ جائے تو پھر ایسا نشہ بن کر ظاہر ہوتا ہے جسے کوئی بھی ترشی نہیں اتار سکتی۔ نازی جرمنی کا وزیر اطلاعات و نشریات گوئبلز کہا کرتا تھا کہ جھوٹ کا پروپیگنڈا اس تواتر اور مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھو کہ وہ خودبخود سچ بن جائے اور دنیا حقیقی سچ کو سراب آلود جھوٹ کے مقابلے میں مسترد کر دے۔
ہمارا حال بھی اس شخص جیسا ہی ہے بھارتی اور مغربی میڈیا نے ہر دہشت گردی کے ساتھ ہی ایسی ایسی کہانیاں گھڑ کر سنائیں کہ ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ ہم ایک دہشت گرد قوم ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی ہو اس کی صفائیاں ہم دینے لگتے ہیں۔ ابھی حالیہ ممبئی کے واقعہ کو ہی لیجیئے ہم اس واقع کی مذمت کے ساتھ ہی یہ درخواست بھی کرتے رہے کہ برائے مہربانی اس واقعہ میں پاکستان کو ملوث مت کیجیئے یہ ہماری کاروائی نہیں ہے، ادھر ہماری صفائی دینے کی دیر تھی ادھر بھارتی میڈیا ہم پر چڑھ دوڑا، ایسی ایسی کہانیاں بنائیں کہ دنیا کو یقین ہو چلا ہے کہ واقعی اس واقعہ کی پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کو ہماری سالمیت ایک نظر نہیں بھاتی اور وہ پھن پھیلائے ہمیشہ ہمیں ڈسنے کو تیار رہتا ہے۔ بھارت سے دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کو چانکیہ کے پیروکاروں کا اصلی روپ دیکھ لینا چاہیے۔ نجانے سانپ کا دوست بن کر ہم کیا لینا چاہتے ہیں؟
دوستی کرنا اچھی بات ہے لیکن پاکستان کی سالمیت کی قیمت پر ہم بھارت کی دوستی پر تھوکتے ہیں۔
سانپ کا آئین دوستی صرف زہر ہے اور زہر ہمارے لئے موت ہے۔
ہندو اپنی سرشت نہ چھوڑے۔ سانپ اپنی جبلت نہ بدلے گا۔
موتی چوگ چگائیے ہو
کوڑے کھوہ کدے میٹھے نہ ہوندے توڑے
لکھ منڑ کھنڈ دا پائیے ہو
4 comments:
لیکن ان پاکستانی "ناگوں" کو ن سمجھا ئے جو یہ کہتے ہے کہ ہمیں انڈیا سے کوئی خظرہ نہیں ہے ۔خطرہ صرف اور صرف طا لبا ن سے ہے
12/01/2008 10:55:00 PMیہ سارے حکمران ایک بریف کیس اٹھا کر بھاگنے والے ہیں، انکو کیا، ملک رہے یا نا رہے۔ عوام منجن بیچے یا لیموں کا چھلکا لے کر مندروں کی گھنٹیاں مانجھ رہی ہو۔ ایک تو ہمارا میڈیا بھی حکمرانوں کی طرح حرام خور ہے۔ اسکا مقصد صرف اور صرف حکومت سے پیسے بٹورنا ہے اور کچھ نہیں۔ رہی عوام تو وہ رہی جاہل اسکے بارے میں بات کرنا اس سے بڑی جہالت
12/04/2008 01:29:00 AM[...] کاواں دے بچے کدی ہنس نہ بنڑدے [...]
12/14/2008 05:30:00 PMپا کستیا ن اور بہا ر ت کا سا لانا بجت اتنا بہی نھی،جتنا کی امریکہ کے صرف بیو ٹی انڈسٹری کا بجٹ حی
12/19/2008 02:03:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔