کربلا ۔ پس منظر
تاریخ میں دین کے نام پر بہت سی لڑائیاں لڑی گئی ہیں، ان سب کا تعلق ایک یا دوسرے طریق عبادت یا نظریہ الوہیت کے اختلاف سے ہوتا تھا۔ اپنے اپنے آباء کے دین کا فروغ یا دفاع اور اپنی اپنی سرزمین پر قبضہ ہی ان کا محرک ہوتا تھا۔ پھر ان میں اکثر اچانک یا وقت کے ایک پیمانے کے اندر چھڑتیں، لڑی جاتیں اور ختم ہو جاتیں، ان میں کوئی لڑائی ایسی لڑائی نہیں جو تمام انسانیت کے لئے کسی بنیادی، اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی قدر کے کے دفاع میں لری گئی ہو۔ ان میں کوئی معرکہ ایسا نہیں جس کے دوران ایک فریق نے جنگ سے پہلے اپنے دشمن کو اس مقصد پر وعظ و تقریر سے نوازا ہو، جس مقصد کے دفاع اور بقاء کے لئے خطیبِ فوج میدان میں اتری ہو۔ ان جوع الارض کے نام خونریز معرکوں میں کوئی ایسا نہیں جس کا پہلا وار کئی صدیاں پہلے، فائنل راؤنڈ کے جرنیل کے آباؤ اجداد نے، ایک شک و شبہ سے بالا اور ایک معتبر آسمانی صحیفے میں درج، اعلٰی تہذیبی اور عمرانی مقصد کے لئے کیا ہو اور پھر اسی نسل کے فرزند جری نے ہزاروں صدیاں بعد معرکے کی تکمیل کی ہو، ۔۔۔ اور ہاں ۔۔ کربلا وہ تنہا معرکہ ہے کہ جس میں رن میں کام آنے والے سپہ سالار اور سپاہی زندہ جاوید ہو گئے ہوں اور فاتح آمروں اور بادشاہوں کی عبرتناک شکست کی یاد دہانی کرہ ارض کے ہر کونے میں ہر سال، ایام مقرہ پر، سرعام، ابن آدم کو یاد دلائی جائے۔ ہاں! ایسا لافانی اور درحقیقت قرآنی معرکہ کربلا ہے، صرف کربلا ۔۔۔۔ ہر آمر کے لئے موت کا پیغام۔
اقبال نے کربلا کے فاتح سپہ سالار، جناب امام حسین رضی اللہ عنہ کے حضور یہ تاریخی ہدیہ پیش کیا۔
موج خون اوچمن ایجاد کرد
یعنی، امام عالی مقام نے اپنے خون سے ایسا چمن ایجاد کیا جس میں قیامت تک آمریت کو کاٹ کے پھینک دیا گیا۔
معرکہ کربلا کب شروع ہوا اور کب تکمیل کو پہنچا؟ آج کا طالب علم جس کی تعلیم آستانہ فرہنگ پہ ہوئی یا جس نے اس معرکہ سے سرسری تعارف ایام عاشورہ کے دوران وعظ و تقریر سے حاصل کیا، اس کا جواب یہ ہو گا کہ کربلا کی لڑائی کا زمانہ یکم محرم الحرام سے دس محرم الحرام ہے۔ یقیناََ امام حسین اور یزید کی فوج میں ظاہری ٹکر انہی دنوں میں ہوئی۔ لیکن اس مجادلہ عظیم کی ابتداء اصل میں ٢٢٦٠ قبل مسیح میں کوہ خاران کی وادی میں ہوئی، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند اور نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام سے مل کر کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے یہ دعا مانگی۔
‘اے میرے رب، میری اولاد سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے، کتاب اور دانائی سکھائے، ان کے دلوں کو پاک صاف کرے، بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے‘۔ سورہ البقرہ
اس عظیم موقع پر جناب ابراہیم علیہ السلام، الوالانبیاء کو خواب میں یہ حکم ملا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں ذبح کر کے، اللہ کی درگاہ میں قربانی پیش کریں۔ قرآن نے یہ قصہ یوں بیان کیا ہے۔
‘لڑکا حضرت اسماعیل، جب اس عمر کو پہنچا کہ باپ کے ساتھ دوڑ سکے تو باپ نے کہا، فرزند من! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، دیکھو اس میں تمھارا کیا خیال ہے، بیٹے نے کہا کہ اے میرے باپ جو حکم ملا ہے اسے کر گزریئے، آپ مجھے انشاءاللہ صابر پائیں گے‘۔ سورہ الصافات
اللہ نے اپنے نبی کی آزمائش کر لی، ان کی قربانی کے عزم کو پسند فرمایا، لیکن چونکہ حضرت اسماعیل کی نسل کو جاری رکھنا اور اس نسل میں خاتم النبین جناب مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دینِ ابراہیم کی تکمیل منشائے ایزدی میں صبح ازل سے طے پا چکی تھی اس لئے جب جناب ابراہیم علیہ السلام، جناب اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری پھیرنے لگے تھے اور آپ نے احتیاطاََ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی تو اللہ نے اس چھری کے آگے حضرت اسماعیل کی جگہ جنت کا ایک دنبہ لٹا دیا، وہ ذبح ہو گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا گیا۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اس تمام واقعہ کے دوران ابلیس نے اس قربانی کو روکنا چاہا، اللہ نے اپنے کلام میں ابن آدم کو اور خصوصاََ ملت ابراہیمی اور پیروان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قربانی کا فلسفہ مزید تشریح کے ساتھ بیان کیا ہے فرمایا ‘ہم نے اس قربانی کو آنے والی نسلوں میں ایک بڑی قربانی کے عوض ملتوی کر دیا‘۔ قرآن کی زبان یہ ہے ‘فدینہ بذبح عظیم‘ لوگوں نے یہی سمجھا اور قرآن کے سطحی علماء نے اس کا یہی مطلب کیا کہ چونکہ عیدالضحٰی پر رسالت مآب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سنت نبوی کی صورت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس قربانی کے بدلے جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ قرآن نے اس مسنون ذبح الحیوان کو ہی ذبح عظیم کہا، لیکن سلسلہ یوں نہیں، قرآن کے عالم اور فکر فی القرآن کے ماہر، قرب مصطفٰی کے مسلم فیضیاب ڈاکٹر محمد اقبال کے یہ شعر سنیئے
١۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور سپہ سالار کربلا امام عالی مقام حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا۔
معنی ذبح عظیم آمد پسر
سبحان اللہ، باپ کو قرآن کے تمام معنی بسم اللہ کی ‘ب‘ میں سمٹے نظر آئے۔ (قول علی)
٢۔ حضرت اسماعیل کی ملتوی شدہ قربانی، میدان کربلا میں شہادت حسین پر پوری ہوئی۔ اقبال کا شعر
نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل
یہ ہے معرکہ کربلا کا ابدی، ازلی اور روحانی پس منظر، یہ ایک جنگ ہے حرم اور ابلیس کے درمیان یہ معرکہ ٢٢٦٠ ق م میں شروع ہوا۔ اس کی ابدیت کے خطوط رقم کرنے کے لئے، نینوا کے صحرا میں حسین ابن علی نے حرم اور ابلیس، ابراہیم اور نمرود کی پہلی جھڑپ کے قریباََ سات سو سال ٦٨٠ بعد مسیح آخری اور محکم صف آرائی کی۔ بظاہر نینوا کا معرکہ اولاد ابراہیم نے نینوا کے مقام پر جیتا اور نمرود وقت کو شکست دی، عظیم جنگوں میں کئی معرکے ہوتے ہیں، معرکہ نینوا میں نمرود یزید ہارا لیکن جنگ کربلا ابھی جاری ہے فلسطین میں، کشمیر میں، عراق میں، افغانستان میں اور اصلاََ تمام آمریت تلے سسکتی، اسلامی سرزمینوں میں۔ اقبال نے دور حاضر میں جاری اس ابدی جنگ کے روز و شب برپا معرکے کے متعلق ہمیں خبر دیتے ہوئے یہ کہا۔
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔