بیس سالوں میں مجھے کیا ملا؟
ایک پردیسی کی دکھ بھری کہانی جو اپنے اچھے مستقبل کی خاطر ملک چھوڑتا ہے، خود تو دوزخ جیسی زندگی گزارتا ہے لیکن پیچھے روپے کی ریل پیل اپنا اثر دکھاتی ہے اور پھر رشتوں ناطوں کی ایک عجیب مثلث بن جاتی ہے۔ پردیسی صرف ایک دولت کمانے والی مشین بن کر رہ جاتا ہے۔
20 سال پہلے جب ميں سعودى آيا تھا تو ايک ريال کا 12 روپے تھا سوچتا کہ دو لاکھ جمع ہو جائیں تو واپس چلا جاؤنگا اب بيس سال ہو گئے اور Position وہى ہے کہ چند لاکھ جمع ہو جائیں اور واپس چلا جاؤں۔
ان بيس سالوں ميں مجھے کيا ملا؟
بچوں سے دوری، محبت ميں کمی، بچے وہاں ميں یہاں
وہ ميرى محبت سے محروم ميں مجبور
پہلے پانچ ہزار روپے ميں گزارہ ہوتا تھا اور اب 25 ہزار بھى کم پڑتے ہیں
نيا گھر بنايا بچوں کو پڑھايا ليکن مجھے کيا ملا؟
وہاں کوئى جانتا نہیں، یہاں کوئى مانتا نہیں
بچے خوبصورت مکان ميں رہتے ہيں ميں يہاں ايک Bed کا مہمان کمر کا درد بڑھتا جا رہا ہے اور ڈاکٹر Panadol پر Panadol ديۓ جا رہے ہیں۔ جوانى ديکھى نہیں اور بڑھاپا دکھ گيا۔ کوئى انکل کہتا ہے تو غصہ آتا ہے اور آئينہ ديکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس نے صحيح ہى کہا ہے۔
آج چاچى مر گئی، ابو کو بخار ہوگيا، بچے آوارہ گردى کرنے لگے، پٹرول مہنگا ہو گيا، بجلى کا بل زيادہ ہوگيا، ٫سوئی گيس کا بل ڈبل ہو گيا۔
کويى بتائے مجھے کہ مجھے کيا ملا ان بيس سالوں ميں۔
ميں کسى بچے کوگود ميں اٹھا کر محبت نہیں کر سکا۔ انگلى پکڑ کر سکول نہیں چھوڑ سکا۔
ميرے سارے دوست بچھڑ گۓ، رشتے داروں کی نظر ميرے سامان پر ہوتی ہے۔ سب کی ڈيمانڈ ہوتی ہے کہ چاچا، ماما، پاپا مجھے يہ چاہیے، وہ چاہیے، پر مجھے کيا چاہیے کسی کو پتہ نہیں۔
بچے يہاں تک کہنے لگے کہ ابو جب آپ آتے ہيں تو ہمارا سارا روٹين چينج ہو جاتا ہے۔ بيوى تو ملکہ ہے ميرے جانے پر اسے لگتا ہے کہ اب يہ حکم چلائينگے۔
ايرپورٹ سے گھر تک کیا سلوک ہوتا ہے وہ سالوں سال دل ميں کسک بن کر رہتا ہے کہ اگلے سال بھی يہی سلوک ہوگا۔
کوئی بتائے مجھے کہ ان بيس سالوں ميں مجھے کيا ملا؟
بيوی کہتی ہے کہ ايک دو سال اور رہو ابھی بچوں کی شادی کروانی ہے اور بھی بہت سارے کام ہیں۔
بيٹياں کہتی ہيں ابو جہاں بيس سال ميں کچھ نہیں بنا تو وہاں دو چار سال میں کیا ہو گا اب تو آجاؤ ميں سوچتا ہوں کہ کروں تو کیا کروں؟
3 comments:
کرنا کیا ہے اب، بس لگے رہو منا بھائی کی طرح۔ ہمیںسو فیصد امید ہے اب اگر یہ صاحب پاکستان واپس بھی آ گئے تو اپنے گھر میں بھی فٹ نہیں ہو پائیں گے۔ جو مزہ بیوی بچوں کیساتھ جوانی بتانے میں ہے وہ اکیلے نہیں مگر ہمیں معاشی مجبوریاں وہ کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آدمی بے بس ہو جاتا ہے۔
8/19/2009 04:19:00 AM.-= میرا پاکستان´s last blog ..چھاپے =-.
آپ کی کہانی اکثر پردیسیوں کی کہانی ہے، اور بہت درد ناک بھی، آپ نے اپنے بچوں کو وقت نہیں دیا، اب کچھ بھی کر لیں ان کے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتے، ان سب کو آپ کے بغیر جینے کی عادت پڑ چکی ہے، ان کی زندگی میں آپ کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ ہوں یا نہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر پیسہ نہ ہو تو انہیں فرق پڑے گا۔
8/19/2009 05:47:00 PMمانا کہ یہ سب آپ نے بیوی بچوں کے لیے کیا لیکن اولاد کی صحیح پرورش ماں باپ دونوں کی موجودگی کا تقاضا کرتی ہے، آپ نے بچوں کو اپنی شفقت سے محروم رکھا، کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے، آپ نے اپنامکان پا لیا، لیکن آپ کی زندگی میں وہ کمی آ گئی جو شاید کبھی پوری نہ ہو، یہ سب آپ کی ایک غلط فیصلے کی بدولت ہوا، اگر آپ محدود سی رقم کے بعد صبر شکر کر لیتے اور پاکستان چلے جاتے تو شایہ کچھ دن، مہینے سال تکلیف کے دیکھتے، مگر جب انسان محنت کرتا ہے تو اللہ پھل بھی دیتا ہے، آپ نے ضرور کامیاب ہو جانا تھا۔ اور بیوی بچوں کا ساتھ بھی پا لینا تھا۔
اللہ تعالی نے مرد کو عورت کے لیے اور عورت کو مرد کے لیے پیدا کیا، دونوں ایک دوسرے کے لیے راحت کا سامان ہیں۔ آپ کے پردیس میں رہنے سے آپ کی بیوی کے حقوق بھی غصب ہوے اور آپ کے بھی، بہر حال آپ ابھی بھی واپس چلے جائیں تو اچھا ہے، چاہے رقم کم ہے چاہے زیادہ
.-= یاسر عمران مرزا´s last blog ..پرائیویٹ اداروں میں ہائیر ایجوکیشن – ہفتہ بلاگستان ۲ =-.
سارے باہر والوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے
8/20/2009 05:31:00 AMاور مزدعور طبقے کا تو حال ہی نا پوچھو
دو چار ہی ہوتے ہوں گے جو ان حالات سے بچ جاتے ہوں گے
ان کو جانے سے پہلے سمجھاؤ تو بہت ساری باتیں ہوتی ہیں ان کے پاس
”او جی کسی ایک کو تو کچھ کرناہی پڑے گا، اپنا آپ مارنا ہی پڑے گا، میں ہی یہ قربانی دیتا ہوں“
کرو فیر
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔