کیا پہلے ہم شیر ہیں؟
سیدھی سے بات ہے زندہ رہنے کے لئے کھانا ضروری ہے۔ سانس لیتی جو مخلوق سبزی، چارہ شوق سے کھاتی ہے وہ سبزی خور کہلاتی ہے اور جس کی نبض چلنے کا دارومدار محض گوشت پے ہوتا ہے وہ مخلوق گوشت خور کہلاتی ہے۔ بھوک انسان کے قابو میں نہیں، اس کے سامنے جو کچھ بھی آئے وہ ہڑپ کر جاتا ہے اس لئے ہمہ خور کہلاتا ہے۔ جو کچھ نہیں کھاتا وہ کوئی ولی، درویش ہا پھر شوگر کا مریض ہی ہو سکتا ہے۔
ہمہ خوری کے باوجود انسان کی گوشت خوری اور سبزی خوری کا تناسب نکالا جائے تو اس کی شرح ٧٠ اور ٣٠ کی بنتی ہے۔ گوشت انسان کے لئے مرغوب ہو چکا ہے جس کی وجہ سے آلودگی نے بھی اس چسکے کا گھر دیکھ لیا ہے جو انسان کو لگ چکا ہے۔ ابتداء جانوروں کے کچے گوشت سے ہوئی جو آہستہ آہستہ آلودہ ہونا شروع ہو گئی۔ نیوٹریشنسٹ بتاتے ہیں کہ جتنی غذائیت، لذت، وٹامنز اور طاقت کچے یا نیم بریاں گوشت میں ہوتی ہے وہ مکمل پکے ہوئے یا گلے ہوئے گوشت میں نہیں ہو سکتی۔ انسان یہی کچا گوشت عرصہ دراز تک کھاتا رہا، آج بھی مچھیرے بھون کر یا پکا کر مچھلی کھانے کو مچھلی کی توہین سمجھتے ہیں، وسطی افریقہ کے بہت سے قبائل آج بھی کچا گوشت کھاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت کھانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
وقت نے چند قدم مزید لئے۔ گوشت آگ پر براہ راست بھون کر کھایا جانے لگا، اس سے لذت میں اضافہ ہوا لیکن اس کی تاثیر اور وٹامنز مرنے لگے۔ بھنے ہوئے گوشت کے بعد ہنڈیا میں ڈال کر گوشت کو گھی میں بگھار دیا جانے لگا، اس سے بھی چسکے میں تو اضافہ ہوا لیکن وٹامنز اور غذائیت اسی قدر کم ہو گئے۔ بگھارے ہوئے گوشت میں بعدازاں تیز مرچوں، پیاز لہسن اور ادرک کا اضافہ کر کے اس کی طاقت مزید کم کر دی گئی۔ کھانوں نے مزید ترقی کی۔ مرچ، ادرک، پیاز، ٹماٹر کے ساتھ گھی میں بگھارے ہوئے گوشت کی اصل غذائیت کا مزید ستیاناس مارنے کے لئے گرم مصالحوں نے امریکہ جیسا کردار ادا کیا۔ اب ہنڈیا میں جب چوب چینی، دار چینی، چاروں نمک، ہلدی، فلفل سیاہ، زیرہ سفید، کالی مرچ، مرچ کلاں، لونگ، دھنیا اور دیگر مصالحہ جات کا پسا ہوا آمیزہ ڈالا جاتا ہے تو اس کی لذت میں تو اضافہ ہو جاتا ہے لیکن غذائیت، وٹامنز اور طاقت کا وہی حال ہوتا ہے جو عراق میں صدام حسین یا افغانستان میں طالبان کا ہوا۔
کھانے کا مزید بیڑا غرق ان ککوں، باورچیوں، شیفوں اور فارغ بیٹھی گھریلو خواتین نے کیا جنہوں نے پگمنٹس میں ذرا ذرا سی تبدیلی کر کے لاکھوں رنگ بنا دیئے۔ کمپیوٹر کی انسٹنٹ آرٹسٹ، کورل ڈرا یا اڈوب فوٹو شاپ کھول کر دیکھ لیں چاروں پگمنٹس کے باہمی ملاپ اور ان کے تناسب کو بدل بدل کر آُپس میں ملاتے جائیں تو پچیس لاکھ کے قریب رنگ بن جاتے ہیں۔ گوشت کے ساتھ بھی یہی ہوا، کھانے کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں سب سے زیادہ ڈشیں گوشت کی ہی ملتی ہیں، ادرک گوشت، آلو گوشت، بھنڈی گوشت، کریلے گوشت، ٹینڈے گوشت، دو پیازہ گوشت، دال گوشت، بینگن گوشت، چنے گوشت وغیرہ وغیرہ حتٰی کہ گوشت گوشت کی ڈش بھی موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مغل شہشاہ اکبر اعظم اور شہزادہ سلیم کے دور کا باورچی گوشت کی اڑھائی ہزار مختلف ڈشیں پکا سکتا تھا۔
آلودگی کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ بقیہ یہاں
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔