01 March, 2010

کیا پہلے ہم شیر ہیں؟ 2

کیا پہلے ہم شیر ہیں؟ ۔ 1
بھوک انسان کے قابو میں نہیں، اس کے سامنے جو کچھ بھی آئے وہ ہڑپ کر جاتا ہے اس لئے ہمہ خور کہلاتا ہے۔ جو کچھ نہیں کھاتا وہ کوئی ولی، درویش ہا پھر شوگر کا مریض ہی ہو سکتا ہے۔ وقت نے چند قدم مزید لئے۔ گوشت آگ پر براہ راست بھون کر کھایا جانے لگا، اس سے لذت میں اضافہ ہوا لیکن اس کی تاثیر اور وٹامنز مرنے لگے۔ کھانوں نے مزید ترقی کی۔ مرچ، ادرک، پیاز، ٹماٹر کے ساتھ گھی میں بگھارے ہوئے گوشت کی اصل غذائیت کا مزید ستیاناس مارنے کے لئے گرم مصالحوں نے امریکہ جیسا کردار ادا کیا۔ اب ہنڈیا میں جب چوب چینی، دار چینی، چاروں نمک، ہلدی، فلفل سیاہ، زیرہ سفید، کالی مرچ، مرچ کلاں، لونگ، دھنیا اور دیگر مصالحہ جات کا پسا ہوا آمیزہ ڈالا جاتا ہے تو اس کی لذت میں تو اضافہ ہو جاتا ہے لیکن غذائیت، وٹامنز اور طاقت کا وہی حال ہوتا ہے جو عراق میں صدام حسین یا افغانستان میں طالبان کا ہوا۔

کیا پہلے ہم شیر ہیں؟ ۔ 2

گوشت کی آلودگی کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ آئے روز کوئی نہ کوئی نئی ڈش تیار ہوتی ہے اور انجام کار یہ ہوا کہ دن بدن امراض معدہ، اور دل کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شوگر کنٹرول سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہے، کولیسٹرول قابو میں نہیں آتا، بلڈ پریشر نے الگ ناک میں دم کر رکھا ہے، مستقل سر درد کی شکایت بڑھ گئی ہے، جگر خون پیدا کرنا بھولتا جا رہا ہے اور ہر چوتھا آدمی جوڑوں کے درد کا رونا روئے جاتا ہے۔ معدے کا السر اور بواسیر اس کے علاوہ ہیں۔ انسان کا یہ انجام صرف اس لئے ہوا ہے کہ یہ لذت اور چسکا بڑھانے کے چکر میں گوشت سے سارے وٹامنز اور غذائیت نچوڑے چلا جا رہا ہے۔ قدرت کی دی ہوئی نعمتوں میں اپنی فنکاری کرنے کا یہ انجام تو ہونا ہی تھا۔ آپ کسی بھی چیز کو آلودہ کر کے دیکھ لیں ان کا انجام برا ہی ہو گا۔ مثال کے طور پر بدلتے ہوئے موسموں کو لیجیئے یہ قدرت کا سب سے حسین اور انمول تحفہ ہے۔ گرمیوں میں ائیر کنڈیشنروں نے گرمی کو آلودہ کر دیا اور سردیوں میں ہیٹروں نے سردی کو آلودہ کر دیا۔ انٹرنلی ائیر کنڈیشنڈ یا انٹرنلی ہیٹیڈ دفاترمیں کام کرنے والے اور کنٹرول ٹمپریچر کی گاڑیوں میں سفر کرنے والے افراد کی قوت مدافعت ایک عام آدمی کے مقابلے میں پچاس فیصد کم ہوتی ہے۔
بات صرف کھانے پینے اور موسموں تک محدود رہتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن ہم نے تو بہت آگے بڑھ کر موسمی تہواروں کو بھی آلودہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ کبھی شب برات پر رات بھر عبادت کی جاتی تھی اور موم بتیاں روشن کی جاتی تھیں لیکن آج آتش بازی کو ہی دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ کبھی عید کو محمود و ایاز کا مٹانے کا تہوار سمجھا جاتا تھا لیکن آج عیدیں محض غریب طبقے کے لئے خود کشی اور خود سوزی کا تہوار بنتی جا رہی ہیں۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تہوار انتہائی عقیدت و محبت کا تہوار ہے لیکن اس میں بھی جھمر اور دیگر لوازمات شامل کر کے اسے آلودہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یوم پیدائش پر ڈھول کی تھاپ پر جھمر مارتے اور ایک دوسرے پر نوٹ نچھاور کرتے ہوئے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ خدارا آنے والی نسلوں کے لئے عقیدت، محبت اور احترام کے ان تہواروں کو تو اپنی اصل شکل میں رہنے دیں، انہیں تو آلودہ نہ کریں۔
کسانوں کے لئے جشن بہاراں کا تہوار تھا لیکن اس کی نسبت بسنت سے جوڑ کر اسے بھی آلودہ کر دیا گیا اور یہ ویلنٹائن ڈے تو کبھی ہمارے تہواروں میں شامل ہی نہ تھا۔
قارئین کرام! خود شکار کر کے کچا گوشت کھانے والے شیر کو صرف پانچ مرتبہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کا “آلودہ“ یعنی روسٹ گوشت کھلا دیں تو وہ بلی بن جاتا ہے اور پھر عمر بھر کسی پر ہاتھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ ایام ویلنٹائن اور بسنت بھی آلودہ تہوار ہیں۔ ہم نے اگر اپنے تہواروں کی حفاظت نہ کی اور یہ آلودہ تہوار پانچ مرتبہ ہی منا لئے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں بلی بننے سے روک نہیں سکے گی۔
لیکن ٹھہریے مجھے یہ بتائیے، کیا پہلے ہم شیر ہیں؟؟
جی نہیں ہم تو صرف امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب