ہمارا معاشرتی رویہ
ہماری جسمانی صحت ہمارے مزاج کو بناتی ہے، مزاج کوئی مستقل شےءنہیں ، اس میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ہماری ذہنی زندگی کی بنیاد عقائد اور عقل و شعور پر ہے جو رویے تشکیل دیتی ہے۔زندگی کے تجربات اس میں اصلاح کا مﺅجب بنتے رہتے ہیں۔زندگی کی رنگینی جذبات سے ہے۔ کسی سے وابستگی کی صورت میں جو رد عمل ہوتا ہے وُہ جذبہ ہے جوہیجان اور عقل و شعور کا امتزاج ہے۔ہیجان کیا ہے؟ ہیجان تین صورت احوال کا مجموعہ ہے،دشمن کو دیکھنا؛ وقوفی پہلو، دیکھنے پر غصہ آنا؛ ہیجانی کھچاوٹ، اُسے پکڑ کر مارنا؛ طلبی پہلو ہے۔حِس سے جان کر سمجھنا، سمجھ کے مطابق کیفیت کا ظاہر ہونا، کیفیت کے مطابق ردعمل کرنا۔
رویے مزاج کا حصہ نہیں ہوتے، رویہ تو جذبات کے ردّعمل میں عمل پذیر ہوتا ہے۔ہمارے رویے عقائد اور نظریات کی بدولت ہیں۔ اگر عقائد پختہ ہو جائیں تو پھر شخصیت کو اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں۔ جو سلوک ہم انسانوں سے روا رکھتے ہیں اور جو رویہ ہمارا کائنات اور زندگی کے بارے میں ہوتا ہے وُہ عقائدہی کی بدولت ہے۔ انسانوں اور کائنات کے بارے میں ہمارے جو رویے ہیں،وُہ جذبات ہوتے ہیں۔
رویوں کی وجہ سے ہمارے نظریات میں کسی حد تک یک رنگیآجاتی ہے۔لیکن جب یقین اور عمل میں تضاد واقع ہو جائے اور انسان بے اطمینانی محسوس کرنے لگے تو انسان بے میل پن کا شکار ہوتا ہے۔ اس سے مراد فرد کے رویے اور کردار میں بے رنگی پائی جاتی ہے۔ جب یہ بڑھ جائے تو انسان اس کو کم کرنے کے لیے نشہ کرتا ہے۔
یہ ملکیت کا ہی شدتِ احساس ہے جورویوںمیں ’انا‘ کا بیج لاتی ہے۔محبت یا نفرت کا جذبہ پسند اور نا پسند سے ہوتا ہے اور یہ ’میں‘سے ہی ہوتی ہے۔ احساس رویہ کا اظہار ہے۔شخصیت کا احساس ماحول میں اپنی تمیزیا پہچان سے ہوتا ہے۔
عزت اور نام کے سوال پر سب کچھ داﺅ پر لگانا اور بحث سے کام لیکر ہار نہ ماننا’ انا کے اُلجھاﺅ ‘کا اثر ہوتاہے ۔نمائش بھی انا کا ایک اظہار ہی ہے۔کہتے ہیں نامساعد حالات شخصیت کو مسخ کرتے ہیں مگر کبھی کبھی یہ نظریات بدل دیتے ہیں۔ شاید نظریات ہی رویوں میں شدت لاتے ہیں۔
کوئی بچہ رویہ لیکر پیدا نہیں ہوتا، ماحول کے حالات و تجربات کے اثرات رویہ کو جنم دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ رویے جنم کیسے لیتے ہیں۔ (۱)بار بار ایک ہی قسم کا تجربہ کرنا اور اُسکے نتیجہ میں مسلسل ایک جیسا ردّعمل ہو تو ہماری اُس پر ایک رائے ہمیشہ کے لیے قائم ہوجاتی ہے۔(۲)تلخ اور سنگین حادثات کسی فوبیا کی صورت میں ایک انفرادی رویہ بنا دیتے ہیں،عموماً حقیقت ویسی نہیں ہوتی۔(۳)معاشرے اور میل جول والے افرادکے بنائے گئے رویوں کو قبول کر لینا، شاید قوموں کے مابین تعصب یہاں سے ہی جنم لیتا ہے، معاشرے کی تعمیر کا عمل بھی یہیں سے نموپذیر ہوتا ہے۔ رویہ learning processکا نتیجہ بنتا ہے۔
آہستہ آہستہ یہ رویے قومی روےہ بنتے ہیں، تعصب کی تعلیم اِک دِن قومی المیہ بن جاتی ہے۔اقوام کا رویہ انا میں بگڑتا ہے۔اسی طرح کچھ معاشرتی رویے قومی رویے بنتے جا رہے ہیں۔افسوس آج ہمارے معاشرتی رویوں میں انا ہی انا نظر آتی ہے انفرادی سطح سے لیکر اجتماعی سطح تک۔ جبکہ خودداری ہماری اکثریت پیچھے چھوڑرہی ہے۔
دولت نے قارون بنا ڈالا، اختیار نے فرعون اور علم نے برہمن بنا دیا۔مگرحکمت میں لقمان نہ بنا۔
ہر شخص گاڑی چلانا جانتا نہیں، مگر ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر بیشترافراد بیٹھ کر گاڑی بڑی مہارت سے چلاتے ہیں۔بلکہ ڈرائیور کواُسکے انداز سے کام کرنے کی بجائے کنفیوژ کرتے ہیں ۔ مسلسل یوں dictateکر تے رہےنگے ،اب یہاں موڑو، سپیڈ بریکر آگیا ہے دھیان سے،آہستہ کرو، تیز کرو، بریک لگاﺅ۔سچ ہے جس کا کام اُسی کو ساجھے ۔راہ چلتے ایک بے قابو بیل کے لیے کہتے ہیں، یوں قابو کرو، ایسے رسی ڈالو، اگر کوئی کہہ دے ذرا آپ مدد فرما دےں، مجھ سے نہیں ہو رہا تو کہتے ہیں،تمھارا مسئلہ ہے، کیا میں پاگل ہوں؟ مشورہ ایک ماہر کی طرح دینا۔آج ہماری اکثریت اتنی سمجھدار ہوگئی ہے کہ دوسروں کو بے وقوف اور خود کو سمجھ دار، دانا و بینا گردانتے ہیں۔ اخبار پڑھ کر تبصرہ ایسے کرنا ، جیسے تمام دُنیا کی حکمت ان ہی پر ختم ہوتی ہے۔
کچھ لوگ اپنی ناراضگی یا غلط فہمی کا اظہار کرنے کی بجائے منتقم انداز اپناتے ہیں۔ دِل میں بغض رکھتے ہیں۔اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے ، دوسروں پرالزام رٹے رٹائے جملوں سے تھونپتے ہیں۔حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے افسانے گھڑلینے میں مہارت دکھاتے ہیں۔
چندمالکان اپنے ملازمین میں بھی خود کو مالک ثابت کر رہے ہوتے ہیں۔اُسے ایک خوف ہوتا ہے کہ کہیں لوگ اُسکو ملازمین میںکام کرتا دیکھ کر نوکر نہ سمجھ لےں جبکہ حقیقی مالک کا تعلق نمائشی خیال سے ہوتا ہی نہیں۔ہمیں لوگوں کی رائے کی بڑی پروا ہوتی ہے۔ ہم اپنی ناک اُونچی رکھنے کے چکر میںخود کو گنوا بیٹھتے ہیں۔
کچھ افراداپنے بزرگوں کی غربت کا ذکر کرتے ہوئے ندامت محسوس کرتے ہیں جبکہ اُنھیں اللہ کی عطاءکردہ نعمت کا شکر بیان کرنا چاہیے۔انسان اپنی بنیاد کو جھوٹ سے چھپانے کی خطاءسے گریز کرے۔بلکہ اُسکواپنی ذات کی حقیقت پرفخر بھی ہو ۔
بیشترلوگ اپنی بات پیش نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی بات ہی بیان کرتے ہیں جو تنازعات کا بے سبب پیش خیمہ بنتی ہے۔تحقیق کریں تو پتہ چلتا ہے،یہ کس نے کہا ، فلاں نے کہا، فلاںسے پوچھو تم نے کیوں کہا، اُس نے فلاں سے یوں سنا، ایک سنی سنائی بات مختلف افرادکی سماعت سے پہنچتے ہوئے آخریوںبھی بدل جاتی ہے کہ ایک خیر کی بات بھی بربادی پیدا کر رہی ہوتی ہے۔اکثر ایسی باتوں کا نہ کوئی ریفرینس ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی وجود۔ حقیقت گم ہوئی اور من گھڑت افسانہ حقیقت بن گیا۔تحقیق کیے بغیر بات پیش کرنا۔
یونہی مسئلہ کا اصل بنیادی نقطہ بیان کرنے کی بجائے ، داستانیں سنانا، اسی طرح مئسلہ کے اصل حل پر آنے کی بجائے ہر پہلوپر ایک نئی کہانی پیش کر دینا۔ مسئلہ کا حل نکالنے کی بجائے یونہی فضولیات کا ذکر کرنا۔ باتیں یونہی الجھتی ہیں۔ دو لوگوں کی معمولی سی تکرار خاندان کی تکرار بنتی ہے۔ لوگ چسکا لیکر دوسروں کے جھگڑے سنتے ہیں اور اُنکو طول اپنے بول سے دیتے ہیں۔
آپس میں اُلجھے رہنا ہمارا مزاج ہے۔جب امن ہوتا ہے تو ہم آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں،جب ہم پر کوئی باہر سے حملہ آورآ جائے تو ہم اپنے اختلافات بھلا کر اُس کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں، اُس کو مار بھگاتے ہیںاور بعد میں پھر آپس میں دوبارہ لڑنے لگتے ہیں۔ خاندانی تنازعات،دیہات کے مقدمات، دفتری چپقلشیںیونہی برسوں سے چل رہی ہیں۔شاید یوں الجھے رہنا ہماری زندگی کی خوراک ہے۔تمام عمر ایک پارٹی بنے رہنا لوگوں کا مزاج ہے ورنہ زندگی میں مزہ نہیں۔
وقت یا دِن کی پابندی کی تلقین کرتے ہیں، مگر خودعمل نہیں کرتے۔ عموماً گھڑی کو مقررہ وقت سے ۵تا ۵۱ منٹ آگے رکھتے ہیں،نفسیاتی اطمینان کے سواءکچھ نہیں۔دس دِن پہلے سے مکمل ہوجانے والے کام کو عموماً آخری دِن پرہی افرا تفری میں تکمیل کرتے ہیں۔ ہمارا عجب معاملہ ہے قطار ہم سے بنتی نہیں، صبر کی بات کرتے ہیں۔ سڑک پر ٹریفک اسلیے بند رہتی ہے کہ جلدی میں اپنے سواءکچھ نظر نہیں آتا۔صبر کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ہم دوسروں کے لیے نہیں سوچتے۔
ہم اپنے بالوں کو سنوار کر، یا نت نئے لباس کا فیشن اپنے لیے نہیں کرتے،ہم دوسروں کو متاثریا متوجہ رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیںدیکھتے کہ ہماری آسانی کہاں ہے بلکہ وُہ طریقہ اپناتے ہیںجس سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں آسانی ہو۔چاہے ہمیں دقت ہو رہی ہو۔ہوٹل ، کیفے ٹیریا وغیرہ میںدوسروں کا خیال یا تہذیب کو مدنظر رکھنے کی بجائے اُونچی آواز میں بولنا اور ہنسنا بھی ایک رویہ ہے۔شاید دوسروں کواپنی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو، اب تو یہ عادت بن چکی ہے ایک بڑے طبقہ کی، مگر اب یہ ایک رویہ ہے۔ہم باتیں اپنے لیے نہیں دوسروں کو سنانے کے لیے بھی کرتے ہیں۔
ہم مسائل سے نبرد آزما ہونے کی بجائے ، اُن کو مسلسل ٹالتے ہوئے وقت گزارتے ہیں۔ یونہی کچھ افراداپنے بنائے ہوئے اُصول پر ڈٹے رہناکی بجائے لوگوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ اور خطرات کچھ وقفوں کے بعد مسلسل سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔
ہم اپنے اُونچے تعارف پیش کرتے ہیں، قانون اور قاعدوں کو نہیں سمجھتے۔ دھمکی دیتے ہیں کہ فلاں کردیں گے، مگر بات سن کر سمجھنے کی اہلیت گنوا دیتے ہیں۔ جذب کرنے کی سکت نہیں رکھتے کہ کوئی بات سمجھ آسکے تبھی تو ایسے تعلقات والوں کا کوّا سفید ہی ہوتا ہے۔عجب تماشا ہے کہ حق و باطل میں باطل بھی خود کو حق ہی سمجھتا ہے۔نظریات کی درستگی کی ضرورت نہیں۔ بات قانون اور قاعدے کے مطابق اپنی ”میں“سے باہر نکل کر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہم مناظرکی دِلکشی کو ذہن میں نہیں سموتے،لطف نہیں اُٹھاتے۔ بلکہ اُنکو کیمرہ سے مسلسل قید کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ سیرو سیاحت کے لیے سنے سنائے مقامات کا ذکر تو کرتے ہیں، مگر اپنی دریافت آپ نہیں کرتے۔ سکون کی بجائے ہجوم کی تلاش میں ہے۔
کتاب پڑھ کر اُسکو ذہن میں نہیں رکھتے، بلکہ الفاظ کو نوٹس اور کوٹیشنز میں سنبھال لیتے ہیں۔اگر ذہن میں ہو تو صرف ڈائیلوگ میں اظہار تو کرتے ہیں مگر عمل میں نہیں۔
ہمارے تعلقات گتھیوں کی صورت میں گڈ مڈ ہوئے ہوتے ہیں، اور تعلقات کی نوعیت کیسی ہے، ایک بڑی ہی پرانی فلم کا سین کچھ یوں ہے، ”فلم کاہیرو ایک سمگلر ہے، وُہ مخالفین کی فائرنگ سے بچ کر گاڑی میں فرا رہو رہا ہے کہ اسی اثناءمیں ایک خوبرولڑکی اُسکی گاڑی سے ٹکراتی ہے اور مدد طلب کر کے اُسکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاتی ہے۔کچھ دیر کے بعد وُہ اُس نوجوان سے کہتی ہے کہ ابھی تک آپ نے میرا نام نہیں پوچھا ، نوجوان جواباً کہتا ہے ”میں اُن طوائفوں سے اُنکے نام نہیں پوچھتا جو اپنے لباس کی طرح اپنے نام بدلتی ہیں““۔ آج معاشرے میں ہمارے تعلقات اس فلمی ڈائیلاگ پر کچھ یوںصادق آتے ہیں کہ آئے روز ہمارے موبائل نمبر، ای۔میل ایڈریس ،نام اور تعلقات ایسی ہی تیز رفتاری سے بدلتے ہیں۔ تعلقات عموماً ہم نبھاتے کم ہے استعمال زیادہ کرتے ہیں۔دُکھ سکھ کی بجائے مفاد کو دیکھتے ہیں۔
ہمارا معاملہ بھی سُدھائے ہوئے بندر،ریچھ ہی کی طرح ہے۔ گھنٹی بجتی ہے اور ہم تیار ہوتے ہیں اُس گھنٹی کے ردعمل میں عمل کرنے کے لیے ۔رویہ آج بن نہیں رہا، معاشرہ دے رہا ہے۔جسکا جنم ہو اُسکی نشوونما ہوتی ہے۔ آج تو رویہ بھی ڈسپوزیبل بوتل کی طرح ہے، پی اور کوڑا دان میں ڈال دی۔آج رویہ میں عمل اور ردّعمل تو ہے مگر اس سے پہلے سوچنے اور سمجھنے والی بات کمزور ہے۔جو انسان میں تمیز کا عنصر لاتی ہے۔اگر ہم تمیز کرنے میں مہارت حاصل کر لےںتو رویوں میں بہتری مثبت جانب بڑھ سکے گی۔ کیونکہ ہمارے رویے صدیوں سے ایسے نہیں تھے،یہ چند دہائیوں میں شارٹ کٹ نے ہائی جیک کیے۔تحریک پاکستان کے جلسے،مظاہرے اورریلیاں بڑی پراَمن ہوتی تھی ،تو یہ تشدد کا عنصر کون لایا؟ جلوس کی کامیابی کا ہتھیار پتھر مارنامولانا بھاشانی کی دریافت ہے۔اگر یہ تخریبی عمل 1970ءسے چند برس قبل اپنایا گیا تھاتو45 برس بعد یہ عمل ہمیشہ کے لیے چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔بات کہنے کی نہیں کرنے کی ہے کہ رویہ تبدیل ہوتا ہے۔
حکیم لقمان کی حکمت ہمیں فرعون،قارون اور برہمن کی سوچ سے بچاسکتی ہے۔اسلام نے ہر شے کی تہذیب اور سلیقہ کی تعلیم دی ہے۔
2 comments:
ميرے ايک ساتھی افسر نے کسی زمانہ ميں کہا تھا "يہ ميری قوم دماغ اسلئے استعمال نہيں کرتی کہ انہيں خدشہ ہے کہيں دماغ ختم نہ ہو جائے"
3/16/2010 10:03:00 PM.-= افتخار اجمل بھوپال´s last blog ..بيوياں =-.
فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا
3/18/2010 01:06:00 AMمگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔