25 March, 2010

انتخابِ رنگ ہی انتخاب خیال ہے

رنگوں کو دیکھنا اِک فنِ کمال ہے



باتوں کو سمجھنا بھی حُسنِ جمال ہے



کائنات قدرت میں رنگوں کا حسین امتزاج،ہر شے کو بامعنی بناتا ہے۔علم کا زاویہ حکمت کھول کردانائی بخشتا ہے۔ خداکی حکمت دیکھئے، اُس نے رنگوںمیں پہچان عطاءفرمائی۔ دُنیاکی ہرشےاَن گنت رنگوں سے بھرپور ہے۔ ہر رنگ میں مزید کئی رنگ ، زندگی کے بکھیڑوں میں رنگ ، حسن ترتیب سے بکھر کر بکھرے خیالات کو مسلسل اِک ترتیب عطا ءکر رہے ہیں۔



اللہ کی قدرت دیکھیے اُس نے رنگ میں ذائقہ کو پنہاں رکھا۔ ظاہرکا باطن اپنی حکمت سے عیا ں رکھا۔ اخلاق کو الفاظ کے سنگ سے نوازا۔ سیرت کو صورت کے ڈھنگ میں رکھا۔ حکمت سے سب کھلا رکھا ۔ مرد کا قول،عورت کا انتخاب ہی حسن سیرت میںچھپارکھا۔



اللہ نے کائنات میں رنگ رنگ کے لوگوں سے رنگینی فرمائی۔ رنگ رنگ کی مخلوقات کو زندگی بخشی۔ فطرتِ انسانی یک رنگی سے بیزار رہی۔ قوم اسرائیل من و سلوٰی سے آزار ہوئی۔ رب نے کائنات میں حسین چہرے تخلیق فرمائے۔ خیالات کورنگین مناظرسے فرح بخش نظارنصیب بنائے ۔ بیش بہاءذائقوں کے پھل، سبزیاںاورمشروبات ،موسم کی مناسبت سے ملائے۔ پہاڑ، میدان، صحرا ،جزائراور سمندر اُنکی حد میں پھیلائے۔ حسن کوحسن کے رنگ ہی میں گرمائے۔



اللہ نے ہر موسم کو رنگ دیے۔ موسم کی مناسبت سے ذائقے بخشے۔ جو مزاج کی فرحت بنے۔انسان کی صحت ٹھہرے۔



خالق نے پرندوں میں پہچان پرواز، آوازاور رنگ میں فرمائی۔آواز کے سُر کی طرح لباس کی رنگینی بھی بخشی۔ماتھے پہ رنگت کے فرق سے جنس کی پہچان رکھی۔انداز پرواز سے حکمت کی گرہ کھلی۔



مزاج اُن خالص رنگوں کی مانند ہے جو اپنی تاثیر اِک مخصوص حلقہ تک رکھتے ہیں۔ ہر فرد کا مزاج جدا ہے، قوم کا مزاج، خاندان کا مزاج، قبیلہ کا مزاج ، نسل کا مزاج رفتہ رفتہ چند قدرے مختلف ہوتے ہوئے بھی مشترک رکھتے ہیں۔ مزاج پہ ماحول، موسم، حالات، لب ولہجہ اثر انداز ہوتے ہوئے ایک رنگ بخشتے ہیں۔



ذرا غور کیجیے خوشی کے مواقع پر سُرخ و شوخ رنگ پہنانے کی رسم کیوں ہے؟ غمی کے سانحہ پرسیاہ و ماتمی رنگ پہننے کی روایت کیوںہے؟سادھو،فقرا ور درویش کو سبز اور گیروا رنگ کیوں پسندہیں؟سن رسیدہ بزرگوںکو سفید رنگ کیوںآنند ہے؟بچے سُرخ رنگ کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟انسان نے وسیع پیمانہ پر رنگ استعمال کیے ہیں۔اُسکے استعمال کی تمام اشیاءمیں پسندیدہ رنگ شامل ہوتے ہیں۔رنگ انسانی طبع پر اثر ڈالتے ہیں۔ رنگ انسانی تہذیب و تمدن کے ساتھ بدلتے ہیں۔



آواز کا لہجہ ایسا رنگ ہے جو شخصیت کے تمدن کا آئینہ دار بنتاہے۔ انسان کے رنگوں کا انتخاب ہی؛ اُس کے اندرونی خیالات اور ارادوں کی پاسداری کا مظہرٹھہرتا ہے۔انسان کے پسندیدہ،ناپسندیدہ رنگ ہی اُسکی ذہنی اور قلبی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ رنگوں کے علوم انسانی افسردگی،فرخندگی ، تفکرات کا گہراپن ،خیالات کا گھُنا پن، کمزور اور طاقتور قوت فیصلہ جیسی شخصیت و خیالات کی ترجمانی رکھتے ہیں ۔



رنگ زندگی کے بیش بہاءپہلوﺅں کے عکاس ہیں۔ زندگی پررنگوں کے تاثرات روشنی کے کردارسے واقفیت کا احساس ہیں۔اسلام میں رنگوں کے استعمال کی سائنسی بنیاد ریاضی اور جیومیٹری کے علوم سے رکھی گئی۔ جن میںجذبات،روح اور مادہ ہر تخلیق کے پس منظر میںسمجھی گئی۔ان میںہوشِ عقل کا ٹھہراﺅ،جوشِ عمل کا بہاﺅ اوراعتدال کابناﺅ۔ان کا بالترتیب سیاہ،سفید اور صندل کے ترنگ سے ہوا سجاﺅ۔سیاہ اور سفید ٹائلز کے فرش صوفیانہ عمل کا پیغام دیتی ہیں۔سفیدرنگ خالص روشنی ہے ،جو پاکیزگی اوراللہ سے مضبوط تعلق رکھتی تھی، سیاہ حکمت کی پوشیدگی ہے،نقش و نگار میں صندل رنگ زمین کی تزئین کاری تھی۔اسلامی تعمیرات میں یہ رنگوں کا پہلا بنیادی گروہ تھا۔ ثانوی درجہ سرخ،زرد،سبز اور نیلا رنگ کو حاصل ہوا۔ان چاررنگوں سے قدرتی خصوصیات گرم،خشک ،سرد اور گیلا کوتعمیربنایا ۔مادی عناصر آگ،پانی ،ہوااور زمین سے بالترتیب تعبیر کیا۔سبزفطرتی رنگ اور اُمید ٹھہرا۔ نیلا رنگ اسلامی فن تعمیر(مساجد، مقابر،مدارس) میں سب سے زیادہ استعمال ہوا۔قدیم لوگوں نے اِسکوآسیب و بلا سے تحفظ کی علامت سمجھا۔یہ آسمان اور سمندر کی عمیق و دقیق وسعت کے ساتھ ساتھ فراق کی ترجمانی ٹھہرا۔نقش و نگار اور بیل بوٹوں میں سبز رنگ کو فوقیت ملی۔ پیلا اور نیلامیں تناسبِ مقدار یکساں رہی۔چونکہ سبزاِن کے یکساں باہمی ملاپ سے وجود میں تھا۔ لہذااِنکا انفراد ی استعمال بھی وزن کو مساوی رکھتا۔سرخ کو نسبتاً کم فوقیت ملی۔ زرد مستقبل،سرخ حال، نیلا ماضی اور سبز فطرتی رنگت ٹھہری۔



فن تعمیر میں رنگوں کا امتزاج اقوام کی معاشرتی نشوونما کا ترجمان بنتا ہے،دیگر اقوام کے اثرات کاادواری غلبہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔آسمانی نیلا رنگ اور نیلے رنگ کی چینہ کاری ایرانی اثرات کا غماز ہے تو صندل،زرد اورگہرا بھورا رنگ ہندوستانی مندروں اور گوردواروں کی پہچان ٹھہرے۔ہلکا سبز رنگ کشمیر کی ثقافت کا حصہ بنا۔ وسط ایشیا میں نیلا اور سفید رنگ کا امتزاج شاہی رنگ ہوا۔سفید اور سرخ کے اشتراک کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے اپنی پہچان بنا لیا، شمالی ایشیائی اقوام کی تعمیرات، ثقافت میںسرخ رنگ خوشی کا آئینہ دار ٹھہرا تو دُنیا کے کسی اور خطہ میں قربانی کا علمبردار بنا۔



یہ قومیاتی رنگ نہ صرف قوموں کے مزاج اور ماضی کے عکاس بنتے ہیں۔ بلکہ تاریخی و جغرافیائی تحقیق کے لیے معاون اوراہم ثبوت ثابت ہوتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی اورمڈغاسگر کی اقوام کے مزاج اُنکے مشترکہ رنگوں، طرز معاشرت سے نہ صرف عیاں ہوتے ہیں بلکہ اِنکی گمنام تاریخ کو آپس میں ملانے کا ایک ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ انکارہن سہن اور تمدن کچھ قدروں میں گہری وابستگی کا ربط رکھتا ہے۔تاریخی حقائق تحقیق کے طلبگار ہے۔



انسانی مزاج کی طرح کچھ رنگ مل کر ایک نیا رنگ بناتے ہیں تو کچھ رنگ مل کر اپنا وجو د کھوتے ہیں۔پیلے اور جامن کا ملاپ سفیدی ہے تو پیلے اور سرخ کا سنگ نارنجی ہے۔انسانوں کے سنگ بھی ان رنگوں کی مانند اپنا اَنگ بدلتے ہیں۔رنگ مزاج تبدیل کرتے ہیں۔رنگ جیسی کیفیت طاری کرتے ہیں ،مزاج ویسے ہی بنتے ہیں۔ہر سیارہ کے مقابل اُس کا رنگ مخصوص کیا گیا۔ ہر بُرج کا رنگ سیارے کے ماتحت رکھا گیا اور اُسی سے شخصیت اور مہینے کے رنگ طے ہوئے۔ہفتہ وارہر یوم کے رنگ مقرر کیے۔جواہرات کا پہننا، اس ہی علم کے ماتحت ٹھہرا۔ اس ہی علم کے تحت شخصیت اور لباس نے اہمیت کو اپنایا۔



مذہب کے رنگ، پرچم کے رنگ معنی خیزرہتے ہیں۔سُرخ رنگ کہیں انقلاب کی روداد ہے تو کہیں شاندار تاریخ بیان کر رہا ہے۔چند افریقی اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک سیاہ رنگ کو افسوسناک ماضی سے تعبیر کرتے ہیں تو کچھ سیاہ کو چھپے خزائن کی دولت بتاتے ہیں۔اگر ایک سلطنت مذہب کے رنگ سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہی ہے تو کوئی ثقافتی رنگ کی علمبردار بنتی ہے۔ کسی بھی جھنڈا میں رنگ کا انتخاب بیش بہاءحکمت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ممالک کا طرز معاشرت اور رنگوں سے لگاﺅ اُنکے تاریخی ربط پر تحقیق کا سوال اُٹھاتا ہے۔



انسان نے رنگوں کے استعمال کو موسم، حالات اور نوعیت کے ساتھ خوب پہچان لیا ہے بلکہ سیکھ لیا ہے مگر رنگوں کی تلاش میں چھپے رازوں کی پہچان سے ابھی مکمل واقف نہیں ہو پایا۔ جہاں خدا نے حکمت و دانائی کو آج بھی چھپا رکھا ہے۔



سُرخ مٹی میں سبزہ کے خود بخود اُگ جانے کے قدرتی فرش میں کچھ پنہاں رکھا، سفید اور سُرخ پانی کی تاثیر میں فرق رنگوںہی سے رکھا ہے۔پانی کے رنگ میںتفریق ذائقہ کا فرق ہے۔



پودوں میں رنگ کے راز بڑے معنی رکھتے ہیں۔ گلاب کے پتوں کی کناری حد پھول کا رنگ بتاتے ہیں، کانٹے خوشبو کا اظہار ہیں۔سدا بہار پھول سمیت بیشتر پھولدار پودوںکی غالب رنگی ٹہنیاں کچھ بتانے پہ مامورہیں،کینا اور دیگر اس نوع کے نباتات کے پتوں کا بیرونی کنارہ پھول کی رنگت کے عکاس ہوتے ہیں۔نیاز بوگ اور تلسی کے پھول کا رنگ، چنبیلی کے پتوں کی تعداد میں فرق کا جہان۔اگر پھول کے رنگ کا فرق بتاتا ہے تو کہیں نسل کی پہچان۔



یہ علم نہیں کے پھل کاٹ کر ذائقہ چکھا جائے، یہ بھی علم نہیں کہ پکا کھانا چکھ کر اُس کا ذائقہ بتا یا جائے۔ نگاہ کو رنگ کی پہچان ہونی چاہیے۔ علم اور فن تو نگاہ میں اندر کی پہچان عطا کرتا ہے۔ مسمی، کینو، مالٹا، سنگترہ، مٹھا، کھٹا میں ذائقہ کا فرق رکھا۔ رنگ سے اُنکی پہچان میں تمیز فرمائی درخت نے اُنکو شناخت عطاءکی۔ ایک ہی باغ کے درختوں سے اُتارے گئے ہر پھل کے ذائقہ کا فرق رنگ میں بھی ظاہر فرمایا۔اللہ نے رَسوںمیں میٹھا، کھٹا، کھارا، کڑوا، چیرپرا اور کسیلا پن رکھا تو تاثیر میںگرم،سرد ،خشک اور تر جیسے اثرات کو بخشا۔ایک گاجر کو تین رنگوں میں تخلیق فر ما ئی اور اُنکے ذائقہ اور افادیت میں ترکیب کی تبدیلی رکھی ۔ جانور کے گوشت میں رنگی تفریق ہی پہچان اورلذت میں تسکین کر رہی ہے، انسانی جلد کی رنگت اُسکے بارے میں نہ جانے کیا کچھ بیان کر رہی ہے۔



پھل کی ایک ہی نوع کے چھلکاکا رنگ ذائقہ کا اختلاف کھولتے ہیں، ساتھ ہی پھلوں کے رنگ انسانی بیماریوں کے علاج میں معاونت بھی رکھتے ہیں۔ سرُخ رنگ دوران خون بڑھاتا ہے تو زرد عصبی نظام اور گردوں کے لیے کارگر ثابت ہوتا ہے ایسے ہی نارنجی پھیپھڑوں اور جسم کو توانائی بخشتاہے تو نیلا رنگ بیماری میں تسکین اور درد کی کمی سمجھا جاتا ہے۔ بنفشی عکس سے جلدی مسائل کا علاج چلتاہے۔



انسانی فضلات کے رنگ انسان کی بیماری کے اصل نقائص آگاہ کرتے ہیں۔



سات رنگ سُرخ ، نارنجی، زرد،سبز،آسمانی، نیلگوں اور بنفشی کی رنگین شعاعوں سے ہر چیز کی زندگی مرتب ہوتی ہے۔ سات ہزارسال قبل عراق کے اطباءانہی رنگین شعاعوں سے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔آج کلر تھراپی،کلرگرافی کوئی نئی دریافت نہیں۔ قلب کے لیے زرد رنگ ہے جو جسم کے بایاں حصہ پر کارگر ہوتا ہے اور روح کے لیے جسم کے دائیں جانب سرخ رنگ،سفید رنگ سر پر شعور کے لیے، سیاہ رنگ ماتھا پرخیالات کا وارد ہونا پر،چھاتی کے وسط پر سبز رنگ شعور سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ جن کی تحریکی ترتیب زرد،سرخ،سفید،سیاہ اور سبز سے بنتی ہے۔



جس طرح انسان کو خواراک میں تمام وٹامنز،معدنیات و دیگر اجزاءکی ضرورت ہوتی ہے،گلینڈز کا بننا جسمانی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اِنکی کمی جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح انسانی جسم کو بنیادی رنگوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جو دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے اور اُنکے استعمال سے جسم میں اُنکی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ کسی رنگ کی کمی بھی انسان کو جسمانی اور شعوری بیماریوں میں لاحق کرتی ہے۔سبزہ ،پانی اور خوبصورت چہروں کو دیکھنے سے نگاہ میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔ان سے ہی انسان کی سوچ اور خیال میں وسعت آتی ہے۔



جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان رنگوں کا گہرا استعمال نفسیاتی بیماریوں میں ہمیشہ معاون کارہوتا ہے۔ سبز رنگ مشاہدہ کوقوت بخشتا ہے تو نیلا رنگ تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھارتا ہے۔ نارنجی توجہ مبذول کرواتا ہے تو سرخ جذبات میں جوش عمل لاتا ہے۔ زرد افسردگی و بے چینی پیدا کرتا ہے تو گلابی نئی راہیں کھولتا ہے،سیاہ پردوں کی سیاہی ہٹاتا ہے تو سفیدسرد مہری وبے جانی د لاتا ہے۔



انسان کا جسم ظاہری آنکھ سے کچھ اور دکھا ئی دیتا ہے۔ خدا نے جلد سے باہر بھی اُسکو اِک خول عطاء کر رکھا ہے۔ اِک سَت رنگا خول نے ہر بدن کو گھیر ا ہے۔ جو دکھا ئی تو نہیں دیتا مگر رنگوں سے اپنی خوراک لیتا ہے۔



موسیقی میں سُر اورآوازمیں ہم آہنگی اِک خوشگواررنگ بخشتے ہیں۔ پُر فضا مقام پر ہوا کی سرسراہٹ ایک پر کشش رنگ مزاج پر چھوڑتی ہے۔



بلب کی روشنی اور ٹیوب لائٹ کی روشنی ہمارے عصبی نظام پر کیا اثرات ڈالتے ہیں۔سورج کی روشنی کا شیشے سے گزر کا آنا اور براہ راست روشنی کو محسوس کرنا مزاج میںکیسی تازگی لاتا ہے۔ چاند کی چاندنی کیسا عجب سماں ذہن پر طاری کرتی ہے۔



دیا،موم بتی، لالٹین، آگ کے رنگوں میں فرق ہے۔ آج انسانی زندگی اِن اندھیروں میں جلتی روشنی کی طرح بےرنگ ہوتی جارہی ہے۔ اُمید کی کِرن سے محروم مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار انسان نفسیاتی مریض پید ا ہورہا ہے۔ انسان خود کو قدرت کے حسن سے محروم کر رہا ہے۔



قدرت انسان کی فطرت میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہے۔ جو اُسکو پائیدار انسان بناتی ہے۔ اصلی رنگوں کو اپنائیے، بناوٹی رنگ بناوٹ پیدا کرتے ہیں۔ایک چہرہ پہ خاص رنگ جچتا ہے تو کسی دوسرے فرد کے چہرہ پر وہی رنگ بجھتا ہے۔ رنگوں کی دوڑ میں انسان اپنا حقیقی رنگ بھول رہا ہے۔



اللہ نے دُنیا کی ہر شے بے رنگی،بے مقصد تخلیق نہیں فرمائی۔اُس نے کائنات میں ہر شے مربوط انداز سے ربط میں رکھی۔ ہر مخلوق کو اُس کے رنگ میں حسن بخشا۔ فطرت کو اِن رنگوں سے ظاہر کیا۔ نگاہ سے دل میں تسکین ملی۔ نگاہ کی توجہ نے رازِ حکمت کھولی۔ رنگ کی پہچان میں اپنی تلاش کیجیے۔ ہر شے کو اُسکے ڈھنگ سے سمجھے۔

(فرخ نور)



:نوٹ



رنگوں کی تاثیر کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہ کیجیے گا۔ ہر علاقہ کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔ رنگ اُسکے مطابق اپنائے گئے ہوتے ہیں۔ ہردوا فائدہ دیتی بھی اور نقصان کہیں اور پہنچا بھی سکتی ہے۔ فطرت کو مشاہدہ میں لانے سے انسان سب سمجھ لیتاہے۔مٹی کی تسکین ہر رنگ کو پہچان دیتی ہے۔

3 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

ہم نے تو اللہ کے فضل سے زندگی کے اتنے رنگ ديکھ لئے ہيں کہ دوسرے رنگ ماند پڑ گئے ہيں

3/26/2010 12:14:00 AM
شاھ بھائی نے لکھا ہے

واہ بہت خوب

3/26/2010 03:41:00 AM
عمر نے لکھا ہے

بہیت خوب لکھا ہے

-- اچمل ساب چب سب دیکھ لیا ہے تو اوپر چاو ادھر کیا کرتا ہے--

3/27/2010 12:44:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب