ریت کی ذرے
خدا خدا کر کے ایک گھر نصیب ہوا تھا۔ جس کے بارے میں سوچا تھا کہ اس کے در و دیوار کو خوبصورت تصاویر سے آراستہ کریں گے۔ ہر شے کو چمکا دمکا کر رکھیں گے۔ گھر کے تمام مکین پیار، محبت، صلح و آشتی سے دوسرے کی محبت دل میں بسائے امن سے ایک چھت تلےرہیں گے۔ اس گھر کے بارے میں سب نے ہی سوچا۔ سب نے ہی اس کے اچھا، خوبصورت اور مضبوط بنانے کا سوچا۔ ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ اس گھر کی دیواریں آہنی ہوں تاکہ باہر سے کوئی چور گھات نہ لگا سکے۔ سب یہی چاہتے تھے کہ اس گھر کے مکین اپنے رہن سہن اور سماجی، معاشرتی، مذہبی اور تمدنی معاملات میں آزاد ہوں۔
ایک باپ کا شفقت بھرا سایہ سب کے سر پہ قائم تھا۔ وہ باپ جس نے اس گھر کے بنانے میں اپنی زندگی کی ساری طاقتیں صرف کر دیں اور خود کمزور سے کمزور ہوتا گیا مگر محنت، حوصلہ، عزم، تنظیم، یقین محکم کی ایک مثال بنتا گیا۔
خیر گھر بن گیا ایک چھت سارے بچوں کو مل گئی مگر بنانیوالا اپنی کمزور صحت کی وجہ سے جلد ہی ہم سے رخصت ہو گیا ۔۔۔۔ اور پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ گھر میں رہنے والوں کے درمیان پھوٹ پڑ گئی ۔۔۔ سارے خواب ادھورے رہ گئے۔ ادھر تم ادھر ہم کہہ کر
گھر میں دیوار کھینچ دی گئی۔ پھر ہم پاکستانی یعنی ہمارے گھر میں مار پیٹ، دنگا فساد، مکر و فریب اور لوٹ مار کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کی سزا آج ہم بارش اور سیلاب کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ اتنے بڑے خدائی عذاب کے باوجود ہم پیار و محبت، اتحاد و اتفاق سے عاری ان ریت کی ذروں کی طرح ہیں جن کی تیز ہوا کسی بھی لمحے اٹھا کے کہیں سے کہیں پھینک دیتی ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔