نفرت نہیں، محبت
ہم اپنی زندگی میں نہ جانے کتنی نفرتیں پالتے ہیں۔ محبت بکھیرنے کی بجائے ، فاصلے بکھیڑتے ہیں۔ نفرت نے سوچ کو محدود کیا، رائے و تحقیق کو تعصب کی نگاہ بخشی۔ زندگی کی گوناگونی میں متناقص و متناقض بے چینی پیدا کی۔ ژرف نگاری کے نام پر ضرب کاری ہونے لگی۔ پیدائش کا نطفہ بخیلی سے جنم لینے لگا۔ اسلام کے نام پر کرخت مزاجی بھڑکنے لگی۔ہم آئے روزمنفی و تخریبی موضوعات پر تحاریرلکھتے ہیں۔اِن منفی موضوعات کومثبت انداز میں تنقید کی نکتہ چینی کی بجائے ؛ اصلاحی رنگ دے سکتے ہیں۔ ہم نفرت پہ تو بات کرتے ہیں۔ اگر نفرت کی ضد محبت سے بات کرے تو ہمارے اذہان و قلوب میں خوب صورت کیفیات ہی مرتب ہو سکتی ہے۔
آج ہمارا ادیب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اُس کو معاشرہ کی فحش گوئی بیان کرنے کے لیے اب طوائفہ سے معشوقہ کی تلاش ہونے لگی۔ سکینڈل بیان کرتے کرتے معاشرہ کو سکینڈل زدہ بنا دیا۔ کاش! کو ئی ادیب تعمیری سوچ کے ساتھ معاشرہ میں تعمیر بخشے۔ شاعر کی شاعری برہنہ گوئی رہ گئی۔ مقصد و خیال رخصت ہو چکے۔
ہمیں آج تعمیری سوچ کی ضرورت ہے۔ جاہلانہ اذہان دوسروں کی آپسی ملاقاتوں سے بھی بُرا تصور اخذکرتے ہیں۔ شاکی اذہان میں سازش ، بد نگاہوں سے برائی، متلون مزاجی سے وسواس قلوب میں جنم لیتے ہیں۔نہ جانے نفرتیں کہاں کہاں پنپ رہی ہیں۔
لاؤتزے نے تاؤ تے چنگ میں فرمایا تھا۔” جب دُنیا جانتی ہے؛ خوبصورتی جیسے خوبصورتی ہے، بدصورتی اُبھرتی ہے،جب جانتے ہیں، اچھائی اچھائی ہے، برائی بڑھتی ہے“
مینیشس نے کہا تھا،” برائی کی موجودگی اچھائی کی شان ہے۔ برائی کی ضد اچھائی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے بندھی ہے۔برائی کی کایا اچھائی میں پلٹ سکتی ہے۔ برائی کیا ہے؟ ایک وقت میں تو وُہ ہے،مگر بعدکے کسی دور میں وُہ اچھائی ہوسکتی ہے کسی اور کے لیے۔“
مذاہب محبت کی بات کرتے ہیں۔ عبادت گاہیں محبت کی مرکز ہیں مگر آج فرقوں کے نام پر نفرتیں بٹ رہی ہیں۔ گیتا، جپ جی صاحب، سُکھ منی صاحب، ادی گرنتھ صاحب،تاؤتے چنگ محبت ہی کی تعلیم دے رہی ہیں۔ یہ اخلاقی تعلیمات کے لازوال شاہکارہیں۔ہر مذہب میں جھوٹ، شراب، جوائ، زنا، جھوٹی گواہی کی پابندیاں عائد ہیں۔ ان سے انحراف معاشرہ میں نفرت کا جنم ہے۔
ناکام معاشرے اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں، دوسروں کی خوبیوں کی عیب جوئی فرماتے ہیں۔ تنگ نظر اذہان تنگ نظری کی بات کرتے ہیں۔ کچھ لوگ خو د کو راجپوت، سید اور اعوان کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔دوسروں کو اپنی احساس کمتری کے باعث کمی کمین کہتے ہیں۔ بھئی فخر کرنے کے لیے ویسے اعمال بھی ہونے چاہیے۔ راجپوت اپنی خودداری، وطن پرستی اور غیرت کی روایات کی پاسداری کرتے تھے ۔کٹھن حالات میں’ جوہر ‘ کی رسم ادا کرتے تھے۔ جب راجپوت اپنا دفاع ناکام ہوتا دیکھتے تو عورتیں بچوں سمیت آگ میں کود پڑتیں تاکہ بے حرمتی کی ذلت سے بچ سکیں۔یوںمرد اپنے گھر بار کی فکر سے آزاد ہوکرآخر دم تک لڑتے ہوئے ؛ وطن کے تحفظ پر جان قربان کر تے تھے۔ دشمن کی فتح تب ہوتی، جب کوئی راجپوت باقی نہ رہتا۔ رانااودے سنگھ، رانا پرتاب سنگھ نے مغل عہد میںراجپوت خودداری کو قائم رکھا۔سید اور اعوان خود کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی اُولاد ہونے پر ناز کرتے ہیں۔ شان تویہ ہیں؛جب اعمال و کردار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم کے مطابق ہو۔ ورنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام سن کر سر شرمندگی سے جھک جائے۔لوگ خود کو سردار، نواب ، راجگان ،ملک،بیگ، خان، رانا، چوہدری اور قاضی وغیرہ کے ناموں سے متعارف کرواتے ہیں۔ ایسے تاریخی سرکاری عہدوں اور القابات کا قبیلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا ہم میں کوئی ایسی خصوصیت ہے کہ ہمیں آج کی سرکار کوئی رتبہ عنائیت فرمائے۔ جب ہم میں ایسی کوئی خاصیت نہیں تو ہم ترقی پانے والے لوگوں کے کم ذات ہونے پر تبصرہ کیوں کرتے ہیں ؟ دراصل ہم اپنی احساس کمتری کو احساس برتری سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ غالب کا مصرع ہے:
دِل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
محبت بانٹنے سے بڑھتی ہے اور نفرت سمیٹنے سے پھیلتی ہے۔ نفرتیں مت سمیٹوں۔ تعصب کی عینک اُتار کر دیکھو تو سوچ کی وسعت خوب پھیلے گی ۔ ورنہ بند گلی کے بند راہی بنو گے۔
زندگی کا حسن محبت، نعمتِ خداوندی مسکراہٹ ہے۔ بندوں سے تعصب، دِل میں خدا کی محبت کو بھی دور کرتا ہے۔ اللہ سے محبت اللہ کے بندوں سے محبت ہے۔
میرے ذہن میں ایک سوال بچپن سے اُمڈتا ہے۔ اسلام خوش اخلاقی کی عملی تربیت دیتا ہے۔ ہمارے بیشتر مذہبی نمائندگان یا وُہ افراد جو مذہبی جھکاؤ زیادہ رکھتے ہیں۔ دِن بدن اُنکے مزاج میں کرختگی اور برداشت کی کمی کیوں واقع ہوتی جا رہی ہے؟ اپنے گروہ کے سواءکسی اور کو سلام کرنا گوارہ کیوں نہیں کرتے۔ غیر مذہبی افراد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا تو سکتے ہیں۔ مگر مسلمان بھائی کے ساتھ بیٹھنا کیوں گوارہ نہیں؟ یہ وُہ عملی مناظر ہے، جس نے آج کے نوجوان کوپریشان کیاہے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد اور شاہجہانی دور کی عظمت ایک دِن یا عرصہ کی بات نہیں،یہ صدیوں کے تاریخی تسلسل میں نکلنے والی کونپل تھی، جسکی خوشبو میں نفرت کی بدبو گھٹتی گئی اور محبت پھیلی۔ اردو میل ملاپوں میں آسودہ ہوئی۔ علاقائی تعصبات سے آلودہ ہوئی۔پاکستان میں معاشرتی زندگی کا جو تصور تحریک آزادی میں پیش کیا گیا تھا۔ مذہبی آزادی و رواداری تھا۔ آج مسلکی بنیادوں پر نفرتیں سرائیت کر چکی۔ اے اللہ! ہمیں ایسی تحقیق سے محروم فرما، جس میں ہم تاریخ ِ اسلام کی عالیٰ مرتبت بزرگان کے مسلک کی تلاش کریں۔ ہمیںمسلک کی بنیاد پر نفرت سے بچا۔
مجھے کبھی کبھی افسوس ہوتا ہے۔ غیر جانبدارانہ رویہ بھی موت کا سبب بنتا ہے۔ ابن رشد نے یونانی تراجم یونانی رو سے کیے تو ملحد ہوکر خارج الاسلام قرار دیا گیا۔ شہزادہ دارالشّکوہ نے سکینة الاولیاءاور سفینة الاولیاءایام جوانی میں تحریر فرما کر بڑا نام پایا۔ مگر ہندی تراجم ہندوؤانہ روح سے کرکے مرتد قرار دیکر واجب القتل ٹھہرا اور سولی پر چڑھایا گیا۔ شائید ہر دور کا ارسطو زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دیتا ہے۔ اُس زمانے میں افلاطون نے شہر چھوڑا تھا۔ آج لوگ خاموش ہوگئے ہیں۔
یہ نفرتیں ہی ہیں۔ جنھوں نے ہماری زندگی میں تنہائیاں ہی جنم دی ہیں۔ خوشی اور غمی کے جذبات سے عاری معاشرہ پنپ رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہے ہم اپنی نسل کو کیا منتقل کر رہے ہیں!
ہماری عیدین گزرتی ہیں۔ذرا سوچئے! آپ کتنی خوشیاں بکھیرتے ہیں؟ کتنے چہروں پر مسکراہٹ لاتے ہیں؟کسقدر رخنہ زدہ بندھنوں کو اِک لڑی میں پروتے ہیں؟ کیا عید کے روز ماتھا پہ شکن، گفتگو میں گالم گلوچ، دِل میں بغض، حسد، کینہ اور رویوں میں نفرت ہونی چاہیے؟ عید کے روز خلاف مزاج بات پر سخت الفاظ منہ سے نکالنا بھی میرے خیال میں عید کی توہین ہے۔
کیا ہم سال میں صرف عیدین کے دو ایاّم کو اپنے رویہ سے خوبصورت نہیں بنا سکتے ،جہاں صرف محبت ہی محبت آپ سے مِل رہی ہو؟ معاشرہ کا ردّعمل جو بھی ہو، عید کے روز خود کو محبت کو عملی نمونہ بنائے۔
عید کے روز میرے ایس -ایم-ایس پہ پریشان مت ہوا کریں۔ میں آپ سب سے بھی خوشی بانٹ رہا ہوتا ہوں۔ میں عیدین پر اپنے ہزاروں چاہنے اور جاننے والوں کو نیک تمناؤں کا پیغام بھیجتا ہوں اور رہونگا۔ لہذا! آپ نہ تو تذبذب کا شکار ہو اور نہ شک میں پڑیں۔ کیونکہ محبت کو شک کھا جاتا ہے۔
(فرخ نور)
مشکل الفاظ کے معنی
گوناگونی : ورائٹی، مختلف اقسام
متناقص: نقص رکھنے والا، ناقص، نامکمل
متناقض: مخالف، برعکس، اُلٹا، خلاف
4 comments:
بہت خُوب
9/16/2010 08:45:00 AMيہ فرخ نور اگر مرد ہے تو ميری ملاقات کرايئے اس سے ۔
ان کا دماغ بھی ميری طرح خراب ہے ۔
خُوب گذرے گی جو مل بيٹھيں گے ديوانے دو
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
9/16/2010 11:42:00 AMاسلام ایک الہامی مذہب ہےجوکہ اپنےنمائندوں کوخوش اخلاقی اوررواداری کی تربیت دیتاہےلیکن بات وہی ہےکہ ہمارےعلماء جوکہ صرف نام کےعلماء ہیں جن کودین اسلام کی الف ب بھی پتہ نہیں تھی انگریزوں کےپرورداہ لوگ جوکہ مولوی بن کرمولوی کی عزت ہی کوکم کرتےہیں۔ انہوں نےاپنی دال روٹی کی خاطر دال روٹی تونہیں گوشت روٹی کی خاطرلوگوں میں یہ دوریاں ڈال دیں ہیں۔ آئیں ہم سب سےخوش اخلاقی سےملیں ایکدوسرےسےمحبت کریں کیونکہ دلوں کومسخرکرنےوالی چیزمحبت ہی ہے۔
اللہ تعالی سےدعاہےکہ ہمیں دین اسلام کی صحیح سمجھ بوجھ عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
فرخ صاحب/صاحبہ آپ نے اتنی محنت سے اتنی اچھی تحریر لکھی لیکن ذرا تبصرے کی جانب دیکھئے کہ آپ کی تحریر کتنی کامیاب رہی ہے۔ کیا محبت کا یہی تقاضا تھا کہ چند بٹن دباتے ہوئے اتنی آسانی ایک طبقے کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیاجائے۔ اب آپ بتائیں کہ ایک تو ہم ایک قابل عزت و تکریم طبقے کا مذاق اڑائیں اور ان کے رزق پر شک کریں اور دوسرے اللہ تعالیٰ سے صحیح سمجھ بوجھ کا تحفہ بھی مانگیں۔ میرے خیال میں سمجھ بوجھ ہر شخص کو منجانب اللہ عطا کردہ ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اور کچھ اسے دوسروں پر استعمال کرتے ہیں۔
9/17/2010 01:12:00 AMافتخار صاحب،
9/25/2010 01:14:00 PMمیں ایک نوجوان لڑکا ہوں، زندگی کا اصل بناﺅ رکھتا ہوں۔ایسے رویوں سے خود کو دور رکھتا ہوں،جو مجھ میں بگاڑ پیدا کرتے ہوں۔ میں زمانہ پر تنقید ضرور کرتاہوں، مگر نکتہ چینی سے گریز رکھتاہوں۔
جاوید صاحب،
میں رواداری سے بڑھ کر چاہتا ہوں، ہم سب مثبت انداز اور تعمیر ی سوچ کو بڑھائیں۔ یہ لفظوں سے نہیں عمل سے ہوتا ہے۔ عمل ہی ہے جو اپنی تاثیر لفظوں میں رکھتا ہے۔
عطاءصاحب،
میں نے کسی طبقہ کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا۔ میرا موضوع تعمیر ی تھا، اگر کسی نے اس کو منفی لیا، تو وُہ اُسکی سوچ کا عکاس ہوا۔ میں نے رویوں کو آڑے ہاتھوں ضرور لیا۔ مگر وُہ رویے جو بدتہذیبی کا مﺅجب بنے۔رزق کا فیصلہ اللہ کا ہے۔ بندوں کا اللہ کے معاملہ میں تبصرہ مناسب نہیں۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔