دِل کی نگاہ
آرٹیکل کا آغاز منوبھائی کی صحت یابی کی دُعا سے کریں
دلِ کی آنکھ کھل جائے اندازِزندگی بدل جائے
دِل کی آنکھ بند رہ جائے زندگی حسن سے محروم ہو جائے
دِل کی آنکھ بند رہ جائے زندگی حسن سے محروم ہو جائے
ہماری زندگی گرہوں میں بندھی ہے، دِل کی آنکھ کھل جائے تو ہر گرہ بتدریج کُھلنے لگتی ہے، چہار سو حسن کے ایسے پھول کِھلتے ہیں کہ زندگی کا گلشن حسین دکھائی دینے لگتا ہے۔ دُکھ کا آلاپ سُکھ کا مِلاپ بن پڑتا ہے۔
دُنیا میں وُہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو ایسی ہستیوں کا ساتھ مِلا جو دِل کی آنکھ رکھتی تھیں اور وُہ بانصیب رہے جن کو دِل کی آنکھ کا نظارہ ملا۔
دِل کی آنکھ کیا ہے؟ میں خود نہیں جانتا یہ نگاہ کیا ہے۔ حسن کی نگاہ میں حسن کی پہچان۔ جوہری کی نظر میں اصل جوہر کی شناخت۔ وارداتِ قلب لب پہ آ نہیں سکتی۔ یونہی کیفیت ِ شادابی بیاں نہیں ہوسکتی۔ بقول خواجہ میر درد
ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پاسکے۔
میرا ہی دِل وُہ ہے کہ جہاں تو سما سکے۔
میرا ہی دِل وُہ ہے کہ جہاں تو سما سکے۔
خیال سے حسنِ لذت رُخصت کچھ یوں ہوئی، نہ وقتی چسکا رہا، نہ مزہ رہا۔ مزاج کی بد مزگی یوں بدلی، ہر شے حسن ترتیب میں آن پڑی۔ تمنا دِل کی چاہت میں بدلی۔ ہوس پہ ہوش نے کچھ یوں غلبہ پایا کہ حسن ترتیب ہی حسن خیال بن پڑی۔
زندگی کے معیار بدلے مگر حسن کے آثار قائم رہے۔ یہ دِل بھی عجب شےءہے ، جب اس پہ پردہ پڑے تو انساں کو لٹائے۔ سیاہی بدلے تو عجب رنگ دکھلائے۔ لوگوں کے حال کیفیت دِل ہی جانے۔
یہ شعور کی وُہ الہامی و وجدانی نگاہ ہے، جو چہروں کی شناخت، آواز کی پہچان دِل کی گواہی سے کرواتی ہے۔ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ ضمیر کی گواہی ضمیر مردہ ہوجائے تو معاشرے آتش زدہ ہوپڑتے ہیں۔
بھیڑ میں انجان چہرہ کی پہچان، لفظوں سے خاندانی تربیت کی پرکھ، آواز سے نیت کو جاننا، انداز تحریر سے ذہنی کیفیت و قرب محسوس کرنا، انتخاب رنگ سے مزاج سمجھنا، ذائقہ میں خلوص دیکھنا ایسے فرد کو نصیب ہوا ہوگا۔ جن کی مشقت عمر بھر باطن کی نفاست میں رہی۔بے شک کچھ کلیے موجود ہیں۔ جن سے ایسے راز کھلنے میں مدد ملی۔ مگر اِنکے تاثیری پھل عیاش اذہان کے لیے شیریں نہیں۔ خدا سے سچی توبہ اکثر بند در ایسے دریچوں میں کھولتی ہے۔ جہاں نئی راہیں کُھلتی ہیں۔ ایسے دروازے اللہ ہی کے فضل سے کُھلتے ہیں۔ فارمولوں سے نہیں۔
دھوکہ باز فرد دُنیا بھر سے فراڈ کرتا ہے مگر کچھ معصوم افراد سے دغا نہیں کرتا۔ ایسوں سے لوگ حالِ دل کیوں بیان کرتے ہیں، غم کا مداواہ کرتے ہیں۔ الجھنوں کے سلجھاﺅ، رکاوٹوں کے حل گفتگوﺅں سے پاتے ہیں۔ اپنوں پہ بے اعتباری اور اِک انجان پہ اتنا بھروسہ جتنا خود پہ اعتماد بھی کم ہو۔ یہ سب کیوں؟ خلوصِ دِل ہی دِل کے تار ہلائے۔ کشش ہی سب کو یاد دلائے۔ جب مشکل میں سب حل بھو ل گئے۔
’برکت کا سکّہ‘ ہی کچھ بتلائے۔ جب خیال بن آئے تب تم کو ہماری یاد تڑپائے۔ ایسوں کی یاد میں پھر دُعا خوانی ہوئی۔ ایسے تڑپے کہ مزار پہ حاضری ہوئی۔ بابرکت رہے ایسے سفر۔ جب دِل پر اُنکے کھلتا گیا اِک نیا دَر۔
جب دِل کی آنکھ یوں کُھل جائے تو حسن کا نظریہ بدل جائے۔ پہاڑ و سرسبز میدان کیا، صحرا و سمندر بھی اور حسین لگتے ہیں۔ حسنِ فطرت میں پتوں کی لہلہاہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، ہواﺅں کی سرسراہٹ، پتھروں کی گڑگڑاہٹ، بادلوں کی غڑغڑاہٹ، خیال کی تڑپاہٹ کو حسن کی جلا بخشتے ہیں۔
رفتہ رفتہ زندگی سے بہار کا موسم ہر موسم میں چاشنی بکھیرتا ہے۔ خوشی کے علاوہ غمی بھی حسین لگنے لگتی ہے۔ یوں انسان وُہ حقیقی مقام پالیتا ہوگا۔ جہاں وُہ ہر حال راضی بھی ہے، خوش و مطمئن بھی۔
زندگی کے اصل حسن کا نظارہ، حسین منظر کی بجائے نظار کی نظر میں ہے۔
مثبت سوچ، خوبصورت نظر عطاءکرتی ہے، درسِ خطاءراہیں کھولتی ہے۔ بد خیال، بد ذہن ہمیشہ نگاہ سے محروم ہوئے۔
صوفی وُہ ہوا جس میں نہ تعصب رہا، نہ میل
دِل کی نگاہ اُس نے پائی، جس نے کھایا نہ میل
دِل کی نگاہ اُس نے پائی، جس نے کھایا نہ میل
(فرخ نور)
رات تین بجے سے میری طبعیت اچانک بے چین ہوچلی ہے، میرے ذہن میں تین یا چاربرس کا نونہالی زمانہ فوٹیج کی طرح تیزی سے چل رہا ہے اورمنگل کے روز کی ایک اخباری خبر پر آکر اٹکتا ہے اور فلم دوبارہ شروع ہوجاتی ہے۔ اب ساڑھے تین بجے دِل کی آواز پر میرا قلم کاغذ کی تحریر بنا رہا ہے۔بروز منگل سے میرے ماموں کے گہرے اور دیرینہ دوست ”منوبھائی“ برین ہمیبریج کے باعث شدید بیمار ہے۔بس اب اچانک اُنکی حالت کا جان کر میرا دل ٹھہر نہ پایا اور منگل کے روز آرٹیکل بھیجنے کی بجائے ، فوری طور پربروز ہفتہ بوقت سحری آرٹیکل اس نیت سے بھیج رہا ہوں کہ ہم سب ”منو بھائی“کی صحت یابی کے لیے بارگاہ الہٰی میں دُعا فرمائیں۔ دس برس پہلے انہی سے میں نے جانا تھاکہ پھول کھلنے سے چہرہ کیسے کھلتا ہے اورمٹی کی خوشبو ایران و برصغیرمیں ہیں۔
مشکل الفاظ کے معنٰی:
آلاپ: اُونچی آواز میں گانا، شورمچانا
ایسوں: اس طرح کے، ایسے افراد
اذہان: ذہن کی جمع
بتدریج: آہستہ آہستہ
بکھیڑا: اُلجھاؤ، فساد
جوانب: جانب کی جمع
چاشنی: کھٹ مٹھا، مزیدارذائقہ
چہار سو: ہر جوانب، چاروں طرف
در: دروازہ
دریچوں: واحد اسکی دریچہ مراد کھڑکی
ضمیر: دِل
کلیے: فارمولا کی جمع، کلیات
مداواہ: دوا، علاج
نظار: ناظر کی جمع
نظارگی: منظر ، نظارہ
1 comments:
ابھی صرف تحریر پڑھی ہے، تبصرہ گھر پہنچ کر کرں گا ابھی دفتر سے چھٹی کا وقت ہے۔
9/25/2010 04:34:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔