ہمیں کون سے پاکستان کی ضرورت ہے؟
ہمیں کون سے پاکستان کی ضرورت ہے؟ایک نعرہ زن پاکستان جو محض خوابوں اور سرابوں میں گم ہو کر تمام غیر مسلم ممالک کو اپنی تلوار کے ساتھ فتح کرے؟
ایک جہادی پاکستان جو تمام دنیا میں اسلام طاقت کے زور سے پھیلا دے اور فتوحات کے بعد جہان بھر کو مذہبی فرقوں میں بانٹ دے؟
یا ہمیں ایک ایسی معتدل اسلامی ریاست کی ضرورت ہے جہاں زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال ہو، غربت اور جہالت کا نام و نشان مٹا دیا گیا ہو اور عوام اس ریاست میں محفوظ، مامون اور مطمین ہوں؟
اگر دنیا میں اللہ کی اجازت سے روحوں کی عدالت لگتی تو پاکستان تخلیق کرنے والے انسانوں کی ارواح آج ہمارے اعمال کے خلاف فیصلہ کرتیں اور ہمیں نااہل، بددیانت اور خائن قرار دیا جاتا۔
ہم پاکستانیوں نے جمہوریت اور آمریت کی تشریح اپنے اپنے انداز میں کر رکھی ہے، ہم زندگی کو بیمار آنکھوں سے دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں، جب ایک بیمار معاشرہ مسلسل جبرآلود فضا میں زندہ رہے تو پھر اس کی ہر صبح شام بن کر قسمت کے آنگن میں اترتی ہے اور لوگ زندہ رہنے کے سلیقے سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں۔
مشرقی پاکستانی کی علحیدگی پر سینکڑوں آراء ہیں اور ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں، کسی افلاطون نے اسے سیاسی شکست لکھا تو کوئی اسے فوجی شکست سمجھتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ پاکستان کے دونوں حصوں میں رہنے والے عوام کی سوچ اور شعوری بلوغت میں زمین و آسمان کا فرق تھا، مشرقی پاکستان کے عوام ریاست سے وہ جائز حق مانگتے تھے جو عوام کو مہیا کرنا ریاستوں کا فرض ہوتا ہے جبکہ مغربی پاکستان کے عوام محدود سوچ کی وجہ سے ریاست سے حق کے طلبگار نہیں تھے کیونکہ یہ خطہ حقوق کی پہچان ہی نہیں رکھتا تھا۔ مغربی پاکستان میں پنجاب اور سندھ اپنی جھولی پھیلائے کھڑے تھے اور ریاست کو اجازت تھی کہ جو بھی وہ دینا چاہے اس پھیلے دامن میں ڈال دے، جبکہ سرحد اور بلوچستان ایک قبائلی نظام کے اندر جکڑے ہوئے تھے، ان کی سوچ اور ان کے مطالبات اس وقت بھی مخصوص تھے اور آج بھی مخصوص ہیں۔ ریاست کے لئے مغربی حصے کے عوام بہت آسان تھے جبکہ مشرقی حصے کو سنبھالنا ریاست کے لئے اس لئے مشکل تھا کہ پاکستان میں جاگیردارانہ سوچ رکھنے والی حکومتیں آ جا رہی تھیں، جاگیردار حکومت کے لئے عوام کے حقوق غضب کرنا تو بہت آسان سا کام ہے لیکن جائز حقوق کا عوام کی طرف سے مطالبہ جابر حکومتوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کا ٹکراؤ براہ راست ریاست اور حکومت کے ساتھ تھا، حکومت ان کو کہتی تھی تم حقوق کی بات چھوڑ دو اور وہی خیرات لے لو جو مغربی پاکستان کے باشندے قبول کرنے کو تیار ہیں جبکہ بنگالی عوام حکومت کی یہ غلط بات سننے پر راضی ہی نہ تھے لہذا اس تصادم کا نتیجہ ایک فطری فیصلہ تھا یعنی عوام اپنی ریاست سے ٹکرائے اور ملک دو لخت ہو گیا۔ یہ شکست فی الحقیقت ریاست کی شکست تھی اور عوام کی فتح تھی۔ ہم نے اسلامی تاریخ کی ایک بڑی ہزیمت کا تلخ جام پی تو لیا لیکن آج تک ہم نے نہ کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی اپنے آپ کو سنبھالا، آج بھی پاکستان کی ریاست اپنے عوام سے لڑ رہی ہے اور عوام کو ہر وقت یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ حقوق کی بات چھوڑ دو جو کچھ تمھیں حکومت کی طرف سے مل رہا ہے بطور خیرات لے لو اور قناعت پسند بن جاؤ۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ ریاست کا وجود آج بھی اتنا ہی خطرے میں ہے جتنا کہ اس ریاست کا وجود ١٩٧١ء میں شکست و ریخت سے دوچار تھا، عوام کے ساتھ مسلسل ریاست کو متصادم رکھا جا رہا ہے جو کچھ عوام سنانا چاہتے ہیں نہ تو کوئی حکمران اسے سننے کو تیار ہے اور نہ ہی کوئی عوام کو سمجھنا چاہتا ہے۔
بات یہاں آمریت یا جمہوریت کی نہیں بلکہ عوام کی ہے کیونکہ ایک خوفناک سازش کے تحت پھر عوام کی نفی کی جا رہی ہے ریاست کو مضبوط کرنے کے لئے عوام کی کمزور کیا جا رہا ہے حالانکہ جس ملک کے عوام کمزور ہوں وہ ملک روس کی طرح اندر سے ٹوٹتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا کہ ١٦ دسمبر ١٩٧١ء کو پاکستان اندر سے ٹوٹا اسے بھارت نے فتح نہیں کیا اور نہ ہی یہ ریاست فوجی اور سیاسی شکست سے دو چار ہوئی بلکہ عوام نے خود اسے توڑا اور ایک باشعور طبقہ جبر کی حدود سے نکل گیا۔
عوام ہر دور میں ایک مضبوط طاقت کے طور پر ریاست کا اہم جزو ہوتے ہیں اگر کوئی ملک اپنے عوام کو فتح کرنے کے لئے آمادہ جنگ ہو جائے تو اس ملک کا ہر شہر بغداد، غرناطہ اور ڈھاکہ بن سکتا ہے۔
ہلاکو ہو، فرڈینیڈ ہو، اندرا گاندھی ہو، بش ہو یا مشرف اور زرداری یہ سب فضول پیدا نہیں ہوتے فطرت یہ نشتر بے مقصد نہیں بھیجا کرتی بلکہ یہ جابرانہ نظاموں کو توڑنے کے لئے ممالک روند ڈالتے ہیں اور بزدل عوام کو قتل کر دیتے ہیں۔
ظالم تو وہی ہوتا ہے جو ظلم کو برداشت کرتا ہے، عوام وہی فتح کئے جاتے ہیں جو اپنے ظالم حاکم برداشت کرتے رہتے ہیں اور اپنے حقوق کو بھیک سمجھ کر وصول کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام اپنے آپ کو بدلیں اور اپنے حقوق کو پہچانیں۔
ہم گداگروں کا ٹولا نہیں ہیں، ہم باغیرت پاکستانی ہیں۔ حکمرانوں کو سننا ہو گا کہ اس ملک میں خیرات کی ضرورت نہیں ہے، یہاں زکواۃ بانٹ کر لوگوں کی غیرت مت چھینو، یہاں عوام کو وہ حقوق مہیا کرو جو تم پر فرض ہیں ورنہ یاد کھو تم یہاں بھی روسیاہ رہو گے اور اللہ کے ہاں بھی تم فرعون و قارون کی قطار میں کھڑے ہوئے شرمسار اور خوار بن جاؤ گے۔
اس بارے میں
دسمبر ۔ آنسو، تلخیاں اور رسوائیاں
المیہ مشرقی پاکستان اور زبان کا مسئلہ ۔ ایک جائزہ
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔