ایک تھا بچپن
ایک بچپن کا زمانہ تھاخوشیوں کا خزانہ تھا
چاہت چاند کو پانے کی
اور دل تتلی کا دیوانہ تھا
خبر نہ تھی صبح کی
نا شام کا ٹھکانہ تھا
تھک ہار کے آنا سکول سے
پر پتنگ بھی اڑانا تھا
امی کی کہانی تھی
پریوں کے فسانے تھے
بارش میں کاغذ کی ناؤ تھی
ہر موسم سہانہ تھا
ہر کھیل میں ساتھی تھا
ہر رشتہ نبھانا تھا
گمانوں کی زباں نہ ہوتی تھی
نہ ہی زخموں کا پیمانہ تھا
رونے کی وجہ نہ تھی
نہ ہنسنے کا بہانہ تھا
اب نہ رہی وہ زندگی
جیسے بچپن کا وہ زمانہ تھا
2 comments:
کيسا بچپن پايا تھا ميں نے ادھورا ۔ نہ چاند پانے کی چاہت ہوئی ۔ نہ سکول سے تھک کر گھر آئے کيوں کہ پڑھائی کے بعد سيدھے گھر آتے تھے ۔ نہ پتگ اُڑائی کہ گھر والے کہتے تھے اچھی بات نہيں ہے ۔ نہ پريوں کی کہانيا سنائيں کسی نے ۔ بچپن ميں ہی وفادار طوطا ۔ سمجھدار لڑکا قسم کی کہانياں سنائی گئيں
12/23/2010 04:13:00 PMھاے وہ بچپن کا زمانہ۔۔ دن جو پکھیرو ھوتے رکھتا مین جتن سے ڈال تا موتی کے دانے
12/29/2010 11:34:00 AMاچھی نظم کی دن کے بعد ورنہ غزل غزل
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔