بنگال کی نوابی سے پاکستان کی گورنر جنرلی
برصغیر کی گزشتہ ہزار سالہ تاریخ میں ہمیشہ ایک دہائی اہم رہی، وُہ ہرصدی کی ساٹھویں دہائی تھی۔الپتگین کو سامانی حکمرانوں نے 950ءمیں اقتدار عطاءکیا۔ جس نے ہندوستان کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ سبکتگین اور محمود غزنوی اسی سلسلہ کی کڑی بنے۔غزنوی خاندان نے نوشتگن کو1052ءمیںہندوستان کا باضابطہ سرکاری حاکم مقرر کیا۔1151ءمیں غزنی کی بربادی غوری اقتدار کا اعلان تھا۔ خاندانِ غلاماں کے دور میں بلبن نے 1257ءمیںہلاکو خان کو بدترین شکست دی۔جس نے دِلی میں مسلمان اقتدار کو ایک نیا دوام بخشا۔1351 ءمیں محمد بن تغلق کی وفات کے بعد ہندوستان کی تاریخ میں فیروز شاہ تغلق کا ایک طویل رفاہی دور شروع ہوا۔1451ءمیں لودھی خاندان برسر اقتدار آیا تو پہلی مرتبہ ہندوستان میں پٹھان اقتدار کو دوام نصیب ہوا۔ 1557ءمیں مغلوں کوہندوستان میں مستقل اقتدار حاصل ہوا۔1657ءمیں ہندوستان کی مشہور زمانہ تخت نشینی کی ایسی جنگ چھڑی ۔ جس میں شہزادے بھائی قتل ہوئے،بادشاہ باپ قید ہوا۔دو بہنوں(جہاں آراءاور روشن آراء) کی جنگ نے مغل استحکام کی بنیادیں کمزور کر ڈالی۔1757 ءہماری تاریخ میں وُہ فیصلہ کن موڑ تھا۔ جس نے انگریزوں کو معاشی اور انتظامی استحکام بخشا اور دو صدیوں کے اقتدا ر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ 1857ءہماری نااہلی اور کوتاہیوں کی کوتاہ اندیشی کاانجام تھا۔ 1947ءاس ترتیب سے شائید کچھ ہٹ کر اہم واقعہ ہو گیا۔ مگر-ء1955-58 کا عرصہ ہماری تاریخ کو 1757ءکی کڑی سے ایک بار پھر ملاتا ہے۔
جنگ پلاسی1757ء کوئی بڑا معرکہ نہ تھا۔ مگر اس کی اہمیت ایسی ہے۔ جیسے ہماری تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر کوئی بڑا ہی زہر آلود گھاﺅ لگا ہو۔ جس نے رفتہ رفتہ سرطان(کینسر) کے مرض کی صورت اختیار کر لی اور ہمارے تاریخی تسلسل کو موت کی گہری نیند سلایا۔
اس جنگ سے قبل فرانسیسی اور برطانوی تجارتی کمپنیوں کے مابین ہندوستان کی سیاست میں کشمکش جاری تھی۔ جن میںفرانسیسی ”ڈوپلے“ کے باعث طاقتور حریف تھے۔ مگر جنگ پلاسی نے فرانسیسی اقتدار کے خواب کا ہمیشہ کے لیے نہ صرف خاتمہ کیا۔ بلکہ بنگال کی معیشت برطانوی اقتدار کا سرچشمہ بنی۔ یہ دولت ہندوستان میں کمپنی ملازمین کوچند برسوں میںمالدار کرتی، غدار خریدتی، زیادہ تنخواہ پر ہندوستانی فوج میں بھرتی کرتی، دولت فرنگستان بھی بھیجی جاتی تھی۔
آج ہم پیسے کے پُتر ہونے کو لعن طعن کرتے ہیں۔ زیادہ تنخواہ کے لالچ میں صدیوں پہلے لاکھوں ہندوستانی برطانوی فوج کا حصّہ بنے اور ہندوستان کا قبضہ انگریز کے لیے ممکن ہوا۔ سینکڑوں ہندوستانی ریاستیںچڑھتے سور ج کی پجاری رہی۔ اِن میں سے کچھ وہی کمپنی مہاراج کے مِتر تھے، جنھوں نے 1857ءکی جنگ آزادی میں حصّہ اپنی اپنی محرومیوں اور خودداریوں کے لیے لیا۔ اِس تحریک کو دفن کرنے والوں میں ہندوستانی بھی شامل تھے۔
2000ء میں ایک کتاب"From Plassy to Pakistan"امریکی ریاست میری لینڈ سے چھپی۔ جس کا مصنف میرہمایوں مرزا تھا۔ جو تیس برس تک ورلڈ بینک میں وائس پریذیڈینٹ کے سنیئر ایڈوائیزر رہے اور1988ءمیں ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کا بڑا اہم تعارف یہ تھا کہ یہ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل میرسید سکندر علی مرزا کے برخوردار ہے۔جو پاکستان کے58-1955ءمیںحکمران تھے۔اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں خاندانی پس منظر ہے۔ جو کہ 1757ءسے لیکربیسویں صدی کے آغاز تک ہے۔ جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ سکندر مرزاکا سلسلہ ء نسب1757ءکی جنگ پلاسی کے اہم کردار اوربنگال کے نواب میر جعفر سے ملتا ہے۔دوسرے حصہ میں سکندر مرزا اور ہمایوں مرزا کی یاداشتوں کا تذکرہ ہے۔
آج سے دس برس قبل جب میں نے یہ سنا تھا تو میرے لیے یہ بات من و عن قبول کرنے کے لیے کافی نہ تھی۔ میں نے خود اس صحت کو جانچنے کے لیے تلاش جاری رکھی۔ کئی مقامات پر تاریخ میں گھناﺅنے کھیل دیکھے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی کہ ہم سات نسلوں سے غلام چلے آرہے ہیں۔ سکندر مرزا کی آٹھویں پشت میر جعفر سے ملتی ہے۔ اس کے لیے نجفی خاندان (میر جعفر کا خاندان) کا مستند شجرہ درکار تھا۔
کچھ سوال بھی ذہن میں اُبھرے۔ میر جعفر کا خاندان کہاں سے آیا؟ پس منظر کیا تھا؟ مرزا ، میر اور سید خطابات یکساں کیوں استعمال ہوئے؟ 1757 ءکے بعد یہ خاندان کہاں رہا؟ یہ خاندان نجفی کیوں کہلاتا ہے؟
جب کچھ خاندان اقتدار میں آتے ہیں تو اُنکا کچھ پس منظر بھی تاریخ میں شامل ہو جاتا ہے۔ میر جعفر کے دادا کا نام سید حسین نجفی تھا۔ جو نجف سے آبائی تعلق رکھتے تھے اور روضہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خادم ِ نگران تھے۔ کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر شہنشاہ ہندوستان 1677ءمیں جب حج پر مکہ گیا تو سید حسین نجفی کو ہندوستان لایا۔ اور اِس کے علم سے متاثر ہوا۔ مجھے ابھی تک ایسا کوئی تاریخی حوالہ نہیں مل سکا۔مگرایسا ضرو ر ہے کہ یہ خاندان عہد عالمگیری میں دلی آیا اور شاہی ملازمت اختیار کی۔ پھر مزید یہ لکھا گیا کہ شاہی خاندان کے امور کا منتظم بنایا تھا۔مگر اس خاندان کے حوالے سے کچھ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ بعد میں یہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ عالمگیری دور میں ہوئے۔ اس دعوٰی میںکمزوری محسوس ہوتی ہے۔ سید حسین نجفی مسلکی اعتبار سے شیعہ تھے۔اور رنگ زیب شیعہ مسلک کے لیے سخت ردّعمل رکھتا تھا۔ جب بنگال میں اُسکے بھائی شجاع نے شیعہ مسلک اختیار کیا تو اور نگ زیب کا رویہ شجاع کے اقتدار کے لیے نرم نہ تھا۔
مغل دور میں اکبر بادشاہ کے اتالیق بیرم خان نے ایک شیعہ شیخ گدائی کمبوہ کوصدر الصدور (چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، یہ عہدہ قاضی القضاة سے اُوپر ہوتا تھا، یہ عہدہ 1247ءمیں التمش کے بیٹے سلطان ناصر الدین نے متعارف کروایا تھا۔)مقرر کیا تو اُسکو شدید مزاحمت کا سامنا ہوامزید اقتدار بھی اُسکے ہاتھ سے رخصت ہوا تھا۔مغلیہ خاندانی پس منظراورمزاج ِ عالمگیری کے مطابق یہ دعوٰ ی باطل دکھائی دیتا ہے۔ (نوٹ: عالمگیر کی وفات کے بعد اُسکے بیٹے معظم نے شیعہ علماءکی حمایت کی تھی۔)
میر جعفر کا خاندان اپنا مزید قریبی تعلق مغلوں سے منسلک کرنے کے لیے ایک دعوی مزید رکھتے ہیں۔ سید حسین نجفی کے بیٹے سید احمد نجفی سے شہزادہ دارا الشّکوہ کی ایک بیٹی بیاہی گئی۔ جس سے سید محمد نجفی سرکاری نام میر جعفر علی خان کی پیدائش1691ءمیں ہوئی۔ ایک بے بنیاد دعوی ہے۔اس دعوی کا مقصد خود کو شاہجہاں کا وارث ثابت کرنے کے سواءکچھ نہیں ہوسکتا۔
بیشک مغلوں میں کچھ شادیاں شیعہ مسلک میں سیاسی مصلحت کے تحت ہوتی رہی مگر وُہ ایران کے شاہی خاندان سے منسلک تھی۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں شہزادیوں کا بیاہ جانا بھی ایک اور انداز اختیار کر گیا تھا۔ اسکے لیے پہلے میںاورنگزیب کے تمام بھائیوں کی اُولادوں کا ذکر کروں گا۔ پھر اس نکتہ پر بات باآسانی واضح ہوجائے گی۔
شاہجہاں کے ولی عہد بیٹے دارالشکوہ کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ سلیمان شکوہ،سپہرشکوہ،مہر شکوہ اور ممتاز شکوہ ۔تاریخ میں دارا کی ایک ہی بیٹی کا ذکر ملتا ہے۔ جو حیات بھی رہی۔جہانزیب بیگم عرف جانی بیگم، یہ شہزادی شاہجہاں کی چہیتی پوتی بھی تھی۔دارا کی بڑی بیٹی1634ءمیں نادرہ بیگم(شاہجہاں کے سب سے بڑے بھائی کی بیٹی) کے بطن سے ہوئی مگر کم سنی میں ہی وفات پائی۔ مزیدشہزادی پاک نہاد بیگم ، شہزادی اعمال النساء،شہزادہ مہر شکوہ اورشہزادہ ممتاز شکوہ نے بھی کم عمری میں دُنیا سے کو چھوڑا۔ دارا لشکوہ کے تین بچے زندہ رہے۔سلیمان شکوہ، سپہرشکوہ، جہانزیب بیگم
شاہ شجاع حاکم بنگا ل تھا اور دارا لشکوہ سے چھوٹا تھا۔اس کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔اس کے تینوںبیٹے زین الدین محمد،زین العابدین،بلند اختر اور ”پیاری بیگم(بیوی شاہ شجاع)“ سے دو بیٹیوں کو راجا اراکان کے حکم سے جولائی1663ءمیں بمقام مروہاﺅنگ میں قتل کر دیا گیا۔دلپذیربانو بیگم کا بچپن میں انتقال ہوا۔گل رُخ بانو بیگم1659ءمیں اورنگزیب کے بیٹے شہزادہ سلطان محمد مرزا سے بیاہی گئی مگر اپنے باپ شجاع کے ساتھ مروہاﺅنگ میں قتل ہوئی۔ شہزادی آمنہ بیگم بھی شجاع کی چہیتی بیوی ”پیاری بیگم“ سے تھی اور1660ءمیں اراکان کے بادشاہ نے شجاع کے خاندان میں سب سے پہلے اس کو اپنے حرم میں داخل کیا اور 1666ءمیں بادشاہ اراکان سنداتھواما نے قتل کروا ڈالی۔ لہذا شجاع کی تمام اولاد، بیگمات مروہاﺅنگ میں قتل ہوگئیں۔
اورنگ زیب کی تین بڑی بیٹیاں زیب االنساء، زینت النساءاوربدر النساءغیر شادی شدہ فوت ہوئیں۔( زیب النساءنے 1702میں وفات پائی، دلی میں اس کا مقبرہ تھا،شہر لاہوربمقام سمن آباد میں جو مقبرہ اس کے نام سے منسوب ہے ، وُہ مناسب ثبوت نہیں رکھتا۔) باقی بیٹیوں میں مہر النساء، زبدةالنساءاورحجةالنساءتھیں اور محمد مرزا، محمد سلطان مرزا،محمد معظم،محمداعظم شاہ، محمد اکبر اور کام بخش بیٹے تھے۔محمد مرزا نے1665ءمیں وفات پائی تھی۔اورنگزیب کے سات بچوں کی نسل باقی رہی۔ مہر النساء، زبدةالنساء،سلطان مرزا،محمد معظم،محمداعظم شاہ، محمد اکبر اور کام بخش
مراد گجرات کا حاکم تھا اور سب سے چھوٹا بھائی تھا۔ سلطان یارمحمد اور ایزد بخش دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔بڑی بیٹی بلخ کے پیرزادہ سے بیاہی گئی۔ اس کے علاوہ دوستدار بانو بیگم، شہزادی عائشہ بانو بیگم اور شہزادی ہمراز بانو بیگم تھیں۔
دارالشکوہ کومرتد قرار دیکر60-1659 ءمیں قتل کر دیا گیا، مراد کے ذمہ دیوانِ گجرات کا قتل ٹھہرا جس میںاُس کو 1660ءمیں سزائے موت ہوئی۔شجاع کو1661ءمیں اراکان کے بادشاہ نے قتل کروایا۔
مغل تاریخ میں واحد مثال ہے کہ اورنگزیب نے اپنے مقتول بھائیوں کے زخموں کو بھرا۔ اپنی نگرانی میں اپنے بچوں کی طرح شاہی محل میں پرورش اور تربیت کی۔مزید اپنے بھائیوں کے بچوں میں ہی شادیاں کیں۔
سلیمان شکوہ جانشینی کی جنگ میں اپنے باپ دارا کا دستِ راز تھا۔ لہذا گوالیار کے قلعہ میں بحالت قید مرا۔ سلیمان شکوہ کی دو بیٹیاں تھیں۔چھوٹی بیٹی نواب فاطمہ بانو بیگم کا بیاہ خواجہ بہاﺅ ولد خواجہ پارسا سے 1678ءمیںہوا،1706ءمیں وفات پائی۔ بڑی بیٹی سلیمہ بیگم اور نگ زیب کے بیٹے محمد اکبر سے 1672ءمیںبیاہی گئی۔ جس نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی اور ناکام ہوکر ایران بھاگا جہاں 1702ءمیں اُس نے وفات پائی۔ جس کے متعلق اورنگ زیب نے کہا تھا۔”میں انتظار کروں گا کہ ہم دونوں میںسے پہلے کون مرے گا۔“ ان دونوں سے پیدا ہونے والا لڑکا نیکو سئیر تھا۔ جو 1681-1721 تک قید میں رہا اور بحالت قید مرا۔1719ءمیں اس شہزادہ کو چند ماہ کی بادشاہت نصیب ہوئی مگر پھر قید میں ڈال دیا گیا۔
سلطان سپہر شکوہ کی شادی اورنگزیب کی بیٹی زبدةالنساءسے1673ءمیں ہوئی۔ جس سے شہزادہ عالی تبار 1676ءمیں پیدا ہوا۔سپہر شکوہ نے 1707ءمیں ترپن برس کی عمر میں وفات پائی۔ مزید زبدة النساءنے بھی اسی برس عالمگیر کی وفات سے قبل داعی اجل کو لبیک کہا۔
دارالشکوہ کی اکلوتی بیٹی جہانزیب(جانی) بیگم کی شادی اورنگ زیب کے بڑ ے بیٹے محمد اعظم شاہ سے1669ءمیں ہوئی۔ یہ شہزادی عالمگیر کی وفات کے تین ماہ بعد تک ملکہ ہندوستان بھی رہی۔
مراد کا بیٹاسلطان یار محمد 1646ءمیں وفات پا گیا تھا۔ ایزاد بخش عالمگیر بادشاہ کی بیٹی مہرالنساءسے 1672ءمیںبیاہا گیا اور 1709ءکو دُنیا سے رخصت ہوا۔ ان سے شہزادہ دیدار بخش اور داور بخش پیدا ہوئے۔دیدار بخش کی پوتی شہزادی عفت النساءتھی۔جو پہلے نصر اللہ مرزا سے بیاہی گئی اور اُنکی وفات کے بعد بادشاہ کابل احمد شاہ ابدالی کے عقد میں آئی۔
مراد کی بڑی بیٹی بلخ کے پیرزادہ سے بیاہی گئی، جبکہ دو شہزادیاں خواجہ محمد طاہر نقشبندی کے گھرانے میں بیاہی گئی۔ شہزادی عائشہ بانو بیگم کی 1672ءمیں خواجہ صالح اورشہزادی ہمراز بانو بیگم کی 1678ءمیں خواجہ صالح کے چھوٹے بھائی خواجہ یعقوب سے میںشادی ہوئی۔شہزادی دوستدار بانو بیگم 1672ء میںعالمگیر بادشاہ کے بیٹے سلطان محمد کی تیسری بیوی بنی۔ جبکہ اسی شہزادہ کی دوسری بیوی شجاع کی بیٹی گل رُخ تھی ۔
موضوع سے ہٹ کر اتنی طویل خشک بحث کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مغلوں کا میر جعفر کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔اس خاندان کا تعلق ایرانی شاہی خاندان سے تو دور ایران سے بھی کسی طرح نہیں تھا۔ نہ میر جعفر کا خاندان ایرانی نژاد تھا۔ یہ اپنے نام کے ساتھ نجفی لکھتے تھے جو نجف سے عراق اور وہاں سے ہندوستان آئے تھے۔
مزید یہ دعوی اس اعتبار سے بھی اپنی اہمیت کھوتا ہے کہ بمطابق خاندانِ نجفی کے اُنکی ہندوستان آمد 1677ءکے بعد ہوئی اور جس شادی کا دعوٰی یہ خاندان 1690ءکے عشرہ میں کرتا ہے۔اُس کو تاریخی تسلسل میں منطق کے ساتھ دیکھ لیا جائے۔اورنگ زیب کے بھائی1660ءتک اس دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ جس سے اُسکے تمام بھائیوں کے بچوں کی پیدائش1660-61ءکے بعد نہیں رہی۔ مزید ماسوائے تین شہزادیوں کے تمام شہزادیاں 1678ءتک بیاہی جا چکی تھی۔ مزید میر جعفر کی پیدائش بھی 1691ءہے۔ جو بیشتر شہزادیوں کی زندگی کی آخری دہائی تھی۔
ان نکات پر یہ واضح ہوتا ہے کہ میر جعفر عالمگیر کی کسی بھتیجی کی اُولاد نہیں تھا۔ یہ صرف ایک من گھڑت قصّہ ہے(جیسے شہزادہ سلیم اور انارکلی کا فرضی قصہ سر ٹامس کا پیداکردہ ہے۔) ورنہ شہزادی کا نام واضح ہونا چاہیے۔ یہ تحریر میں نہ آئے ، ایک شہزادی یا دارالشکوہ کی ایک بیٹی۔ اس بات کا صرف ایک ہی مقصد ہے خود کو دارالشکوہ کے وارث ٹھہرانا۔اور بنگال کی نوابی کو اپنا حق ثابت کرنا۔
میر جعفر نے علی وردی خان (نواب بنگال، نانا نواب سراج الدولہ) کی سوتیلی بہن سے شادی کی اور سپہ سالار افواج مقرر ہوا۔1757ءمیں غداری کے عوض میر جعفر کو بنگال، بہار، اوڑیسہ کی نوابی حاصل ہوئی۔اس طرح یہ خاندانِ نجفی کے نام سے بنگال میں دوصدیوں سے زائدنواب رہے۔
میر کا عہدہ عموماً مغل امیروں ہی کے لیے تھا۔مغل دور میں مرزا خطاب بھی رہا۔ اس بناءپر ان کے ناموں میں مرزا، میر، سلطان جیسے القابات کی شمولیت ہوئی۔خاندانی اعتبار سے سادات سے اپنا تعلق بتاتے ہیں۔انگریزوں کی جانب سے خان بہادر کا خطاب بھی اِنکے ناموں کی زینت بنا۔
میر جعفر علی خان1757-60ءتک بنگال کا نواب رہا مگر انگریزوں کے معیار پر مکمل نہ اُتر سکنے کے باعث معزول ہوا۔ اب تین برس کے لیے میر قاسم 1760-63ءتک نواب مقرر ہوا۔ میر قاسم مغل صوبیدار گجرات”سید امتیاز“کا پوتا تھا۔آخر یہ اقتدار سے محروم ہوا ۔میرجعفر دوبارہ انگریزوں کے نظر کرم میں آیا اور وفات تک نواب بنگال، بہار، اوڑیسہ رہا۔میر قاسم نے مغلوں سے مل کر بکسر کے مقام پر آخری مزاحمت کی مگر شکست کھائی اور کسمپرسی کی حالت میں باقی ماندہ زندگی بسرکرتے ہوئے دلی میں انتقال کیا۔1765ءمیں بنگال کے آخری خود مختار نواب میر جعفر کا انتقال ہوا۔
بڑے بیٹے کی وفات کے باعث میر جعفر کے دوسرا درجہ کا بیٹا نجیم الدین علی خان اٹھارہ برس کی عمر میں نواب بنا مگرایک سال بعد 1766ءمیں وفات پائی۔ پھر تیسرا درجہ کا بیٹا نجابت علی خان1766-70ءچار سال نواب رہ کر فوت ہوگیا۔سید اشرف علی خان چوتھا بیٹا تھا، جو نواب بننے کے تین روز بعد خسرہ سے مر گیا۔اب میر جعفر کا پانچواں بیٹاسید مبارک علی خان1770-93ءتک صاحب اقتدار رہا۔ اس کے بارہ بیٹے اور تیرہ بیٹیاں تھیں۔
سید مبارک علی خان کی وفات کے بعد اقتدار اگلی نسل میں متنقل ہوا۔ اُسکا بڑا بیٹا نواب بابر علی خان (بابر جنگ) نواب بنگال، بہار، اوڑیسہ ہوا۔جس نے 28اپریل 1810ءکو وفات پائی۔
اب نواب سید محمد زین العابدین خان عالی جاہ21-1810نواب مقرر ہوا۔16اگست1821ءکو وفات پائی مگر نرینہ اُولا د نہ پائی۔ تین بیٹیا ں تھی۔ جس میں رئیس النساءبیگم کی شادی چچازاد بھائی مبارک علی خان دوم، ہمایوں جاہ ولی عہد بنگال سے ہوئی۔نواب زین العابدین خان عالی جاہ کی وفات کے بعد اُنکے چھوٹے بھائی نواب سید احمد علی خان والا جاہ نئے نواب مقرر ہوئے۔1824ءمیں اِنکی وفات کے بعد رئیس النساءبیگم کے شوہر اور والا جاہ کے اکلوتے صاحبزادے نواب سید مبارک علی خان ، ہمایوں جاہ1838ءتک نواب رہے۔3اکتوبر1838ءکو وفات پائی۔
ہمایوں جاہ کے بعد بنگال ، بہار، اوڑیسہ کے آخری نواب سید منصور علی خان، فیردون جاہ تھے۔ جو 1880ءتک نواب کی حیثیت سے رہے اور 1884ءمیں وفات پائی۔ اِنکے ایک سو ایک بچے بیس بیگمات سے تھے۔ جن میں اُنیس بیٹوں اور بیس بیٹیوں کی اولاد ابھی بھی موجود ہے۔
جولیا لیوس اور سارہ وینیل میں کو بھی انگریز حکومت نے اِنکی عیش پرستانہ زندگی بیگمات کا درجہ دیا۔
1880انگریز حکومت نے نواب بنگال، بہار، اوڑیسہ کا عہدہ ختم کر کے اس خاندان کو ءمیں نسبتاً کم درجہ کی نوابی سے نوازا۔ تب یہ خاندان نواب آف مرشدآبادکہلایا جانے لگا۔ مرشد آباد کے پہلے نواب سید حسن علی مرزا خان بہادر تھے۔جومیجر جنرل سکندر مرزا کے دادا نواب سید سکندر علی مرزا کے سب سے بڑے بھائی تھے۔ انکی وفات 1906ءمیں ہوئی۔ پھریہ نوابی اُنکے بیٹے نواب سید واصف علی مرزاخان بہادر1906-59ءکے حصہ میں آئی۔ اور مزید دس سال1969ءتک کے لیے اس خاندان کا آخری نواب وارث علی مرزا خان بہادر مقرر ہوتا ہے۔ بالآخر حکومت ہندوستان مرشد آباد کے نوابی سلسلہ کو ختم کرتی ہے۔قیام پاکستان کے عرصہ میں مرشد آباد پاکستان میں شامل تھا۔ مگر چند دِن بعد (غالباً دو یوم بعد) کھلنا پاکستان میں شامل ہوا اور مرشد آباد ہندوستان میں ہی رکھا گیا۔
اب سوال ذہن میں یہ اُمڈتا ہے کہ یہ شجرہ کتنا مستند ہے۔ 1757ءتا1880ءتک جو صاحب اقتدار نواب رہے۔ وُہ نام تو تاریخ میں مستند حوالوں سے درج ہے۔ نواب آف مرشد آباد کیا واقعی سکندر مرزا کے دادا جان کے بھائی تھے؟
سید حسن علی مرزا کا خطاب مرشد زادہ علی قادرتھا اورعموماً بڑا صاحب بھی پکارا جاتا تھا۔ اُنکی ماں کا نام مہر لیکھا بیگم تھا۔یہ فیردون جاہ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ جبکہ سید سکندر علی مرزا کا خطاب خورشید قادر تھا اور سلطان صاحب کے نام سے بھی مشہور تھے۔14جنوری1857ءکو ہزاردواری محل مرشد آباد میں پیدا ہوئے۔ جو شمس جہاں بیگم المعروف گدی نشین بیگم کے بطن سے تیرھواں بچہ تھا۔ اور بھائیوں میں چودھواں درجہ تھا۔ان کی وفات 1902ءسے قبل ہوئی۔ سید سکندر علی مرزا کے بیٹے محمد فتح علی مرزا(1948ء -1875ء) کی شادی دلشاد بیگم(1879 ء- 1925ء )سے ہوئی۔ جن کے بطن سے سکندر مرزا15نومبر1899ءکو مرشد آباد میں پیدا ہوا۔ تعلیم وتربیت بمبئی میں حاصل کی۔ابتدائی تعلیم ایلفنسٹن کالج اور پھرسندھرسٹ اکیڈمی انگلستان سے فوجی تربیت حاصل کی اور ہندوستانی فوج میں بھرتی ہوا۔ 1926ءمیں پولیٹیکل سروس میں شمولیت ہوئی۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر اوربعد میں ڈپٹی کمشنر کے عہدہ پر 1931ءمیں رسائی ہوئی۔وزارت دفاع میں جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے کام کیا۔آزاد ی کے بعدپاکستان کے پہلے سیکریٹری دفاع بنے اور سات سال اس عہدہ پر کام جاری رکھا۔ مئی 1954ءکو گورنر بنایا گیا۔اکتوبر1954ءتااگست1955ءمیں وزیر داخلہ، وزیر خارجہ اور پھر وزیر اعظم محمد علی بوگرا کی کابینہ کے ممبر رہے۔ اور بعد ازاں ملک کے اقتدار پر قابض ہوئے۔ملک کا پہلا آئین بنایا اور خود ہی تسلیم نہ کیا۔ملک میں سیاسی بساط کو ذاتی مفادات کے تحت لپیٹا۔ ایوب خان نے جلا وطن کیا اور جلاوطنی میں 12نومبر1969ءکو لندن میں انتقال کیا۔ یحییٰ خان نے میت کو پاکستان میں دفن ہونے کی اجازت نہ دی اور سکندر مرزا کی معیت کو تہران میںدفنایا گیا۔ان کی پہلی بیوی رفعت شیرازی سے ہمایوں مرزا9دسمبر1928ءکو پونا ہندوستان میں پیدا ہوا۔ جس کی پہلی شادی پاکستان میں امریکی سفیر1953ء57ء کی بیٹی Hoarace A. Hilderathe سے ہوئی۔ Josephine Hildreth (Dodie Begum)
میرجعفر<---سید مبارک علی خان<---نواب بابر علی خان<---نواب احمد علی خان،والا جاہ<--- نواب مبارک علی خان دوم،ہمایوں جاہ<---نواب منصور علی خان، فیردون جاہ<---نواب سید اسکندر علی مرزا<--- سیدمحمد فتح علی مرزا<---سید سکندر علی مرزا
یہ آٹھ نسلوں کا دو سو سالہ دور اقتدار تھا۔ وُہ دور جس میں مسلمانان ہند غلام بنے اور ظلم کا شکار رہے۔ بڑی ہی المناک داستان۔ آخر کیا وجہ تھی کہ ہمایوں مرزا نے امریکہ و یورپ میں کتاب چھپوا کر اپنا تعلق میر جعفر سے علی الاعلان سنایا۔ کہیں پرانے آقاﺅں کو یہ یقین دلانا تو نہیں کہ وُہ پرانے خادم اور وفادار رہے۔ اُ ن پر بھروسہ کیا جائے۔ وُہ نسل آج بھی پرانے آقاﺅں کے لیے سو دمند ہے۔ ایک ایسی شخصیت جو ہماری تقریروں اور تحریروں میں عموماً غدارِ ملت کی حیثیت سے استعمال ہوتی ہے۔اقبال نے کہا تھا:
میر جعفر بنگال و میر صادق دَکن
ننگ آدم، ننگ دین، ننگ وطن
اُس کی نسل آزادی کے بعد میں بھی پر مسلط رہی اور ہم لاعلم رہے۔ اس ملک کی کشتی آغاز سے ہی جن طوفانوں کی لپیٹ سے متاثر ہوئی۔ اُن میں ایک نام سکندر مرزا بھی تھا۔
ہم مستقبل میں اپنے بچوں کو کیا جواب دے گے کہ غدارکی اُولاد ہی اس ملک پر حکمرانی کر گئی اور اس ملک کو نئے طوفانوں کی زد میں ڈال گئی۔ میں جانتا ہوں کہ ایسے سوال ہمارے ذہنوں میں آئے گے۔ مگر آج شائید ہم اپنی تاریخ سے جتنی نفرت کرتے ہیں، اُس پر کیچڑ اُچھالتے ہیں، اس کا حلیہ بگاڑتے ہیں، تاریخ کے مضمون کو فضول سمجھتے ہیں۔ ایسی اقوام کو تاریخ بھی بھُلا دیتی ہے۔ تاریخ کا مضمون ہمیں ایک تسلسل سے جوڑے رکھتا ہے۔ چونکہ آج ہم تاریخ سے بہت دور ہے۔ اس لیے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ مستقبل کا مورخ دو سوسال بعد اس کا جواب تحریر کرے گا۔ تلخ حقائق میں سے تلخ ترین سچ کی دریافت!
اس تاریخی تسلسل کے تحت ہمیں کم از کم یہ سوچنا ہوگا کہ ہمارے صاحب اقتدار افراد کے خاندان کہیں غداری کا پس منظر تو نہیں رکھتے۔ مگر اِنکی نسلوں سے نفرت نہیں کرنی چاہیے۔ وفادار کا بیٹا غدار ہوسکتا ہے۔ تو غدار کی نسل وفادار اور محب وطن بھی ہوسکتی ہے۔
میں اپنی تحریر کا اختتام ایک مصنف ”سلطنت خدداد از محمود بنگلوری“کی تحریر پر ختم کرتا ہو ں۔
”جن لوگوں نے غدار ی کی ۔ وُہ آج اِس دُنیا میں نہیں رہے۔ بے شک خاندان ملک میں باقی ہیں۔ لیکن ان پر کیا الزام دھرا جاسکتا ہے۔ باپ کا الزام بیٹے پر یا بیٹے کا الزام باپ پر اور بھائی کا الزام بھائی پر آنہیں سکتا۔ ہر انسان جو کچھ کرتا ہے ۔ اُ س کے لیے وُہ خود کے آگے جوابدہ ہوتا ہے۔ دوسرے جوابدہ نہیں ہوسکتے۔ مذہب بھی یہی سکھلاتا ہے اور ضمیر بھی یہی کہتا ہے۔“
(فرخ نور)
نوٹ: ہر لفظ، جملہ اور نام میں نے خاصی احتیاط اور غورو فکر سے لکھا۔ مگر انسان خطاءکا پُتلا ہے۔ انجانے میں کوتاہی اور جانبداری واقع ہوسکتی ہے۔ اُس کے لیے معذرت۔ کہیں معلومات میں خامی ےا غلطی محسوس ہو تو ضرور آگاہ فرمائیے گا۔اس تحریر کو اپنے نام سے کوئی ظاہر نہ کرے ورنہ اگر کوئی کوتاہی واقع ہوئی تو وُہ فرد ذمہ دار ہوگا۔ کیونکہ یہاں ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔
2 comments:
ماشاء اللہ، خاصی تحقیق کی ہے آپ نے۔ بہت خوب۔
12/30/2010 07:22:00 PMفرخ نور صاحب کی محنت قابلِ تعريف ہے مگر ايک ايسی مد ہے جس کا اب کوئی کچھ نہيں کر سکتا وجہ يہ ہے کہ جب انگريز کا ہندوستان پر قبضہ ہوا تو اُنہوں نے تمام کُتب تاريخ و ہُنر تلف کر ديں اور ہُنر مندوں اور علماء کو چن چن کر قتل کيا ۔ چنانچہ بچ جانے والا علم ناکافی تھا
12/31/2010 11:22:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔