20 October, 2012

ببلو, رکشہ اور نومولود بچی

بھارت کے علاقے بھرت پور کے رہائشی رکشہ ڈرائیور ببلو معاشی اور سماجی لحاظ سےکمزور سہی لیکن ’بیٹی‘ ان کے لیے ایک نعمت ہے۔

ببلو دلت ہیں اور بھرت پور میں سائیکل رکشہ چلاتے ہیں۔ انہیں گزشتہ ایک ماہ سے اپنی نومولود بیٹی کو سینے سے لگائے بھرت پور شہر میں رکشہ چلاتے دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس نوزائیدہ کے پیدا ہوتے ہی ماں کا سایہ اٹھ گیا۔گھر میں کوئی اور نہیں جو اس ننّھی پری کا خیال رکھ سکے۔

ہوا کے تھپیڑوں اور رکشے پر جھولتي زندگی کی مشکلات نے اس ننھی پری کو بیمار کر دیا۔ وہ دو دن سے بھرت پور کے سرکاری ہسپتال میں داخل ہے۔

ببلو، ننھی بیٹی اور رکشہ، انسانی رشتوں کی ایسی مثلث بناتے ہیں جس سے بیٹی کو نظر انداز کرنے والے اس معاشرے میں امید کی کرن دور سے ہی نظر آتی ہے۔

ببلو اور ان کی بیوی شانتی کو گزشتہ ماہ ہی پندرہ سال بعد پہلی اولاد کے طور پر بیٹی نصیب ہوئی تھی۔ مگر جلد ہی اس ننھی پری کو ماں کے سکھ اور شفقت سے محروم ہونا پڑا۔

ببلو نے بتایا کہ خون کی کمی کے باعث شانتی کی حالت بگڑی اور وہ زچہ بچہ دونوں کو ہسپتال لے گیا۔

ببلو کا کہنا تھا ’ڈاکٹر نے خون لانے کے لئے کہا، میں خون لے کر آیا، لوٹا تو پتہ چلا کہ شانتی کی سانس ہمیشہ کے لیے اکھڑ گئی، میری آنکھوں کے آگے اندھیرا پھیل گیا‘۔

’خود کو ننھی بیٹی کی خاطر سنبھالا‘، یہ کہتے کہتے ببلو کی آنکھیں بھر آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس مشکل سے انہوں نے بیوی کی آخری رسومات کے لیے پیسے جمع کیے۔

اپنی بیوی کی موت کے بعد بیٹی کی پرورش کی ذمہ داری ببلو پر آن پڑی۔ انہوں نے بیٹی کو کپڑے کے جھولے میں ڈال کر اپنی گردن سے لٹکا لیا۔

بھرت پور نے یہ منظر دیکھا ہے جس میں ببلو رکشے چلا رہا ہے، گلے میں نومولود بیٹی کو لٹکائے ہوئے ہے اور پیچھے سواریاں بیٹھی ہیں۔ ببلو کہتا ہے ’ہمدردی کے الفاظ تو بہت ملے، لیکن اسے کوئی مدد نہیں ملی۔ رشتہ داروں نے بھی کوئی مدد نہیں کی‘۔

ببلو کے کندھے پر بوڑھے والد کی ذمہ داری بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’کبھی کبھی کرایے کے کمرے میں والد کے ساتھ بیٹی کو چھوڑ جاتا ہوں، بیچ بیچ میں اسے کھلانے لوٹ آتا ہوں۔ یہ شانتی کی امانت ہے، اس لیے میری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے‘۔

ببلو کا ایک کمرے کا گھر کرایے کا ہے۔ وہ پانچ سو روپے ماہانہ کرایہ دیتا ہے۔ پھر ہر روز اسے تیس روپے رکشے کے لیے کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات کے درمیان ببلو رکشا چلا کر بیٹی کے لیے باپ کی ذمہ داری بھی نبھا رہا ہے۔

ببلو کا کہنا ہے کہ ’شانتی تو اس دنیا میں نہیں ہے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ اس کی وراثت پھولے پھلے، میرا خواب ہے اسے بہترین تعلیم ملے۔ ہمارے لیے وہ بیٹے سے بھی بڑھ کر ہے‘۔

بہت سے لوگ اپنی لڑکی کو لاوارث چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ انہیں بیٹی بوجھ لگتی ہے لیکن ببلو کی کہانی بتاتی ہے بیٹی کو پالنے کے لیے ہستی اور حیثیت ہونا ضروری نہیں۔ بس باپ کے دل میں اس کی خواہش ہونا کافی ہے۔ بشکریہ بی بی اسی اردو

1 comments:

ڈاکٹر جواد احمد خان نے لکھا ہے

for me he is the bravest man on earth . When I put myself in his current condition and imagine the trauma,pain,suffering without any support,my heart goes out for him.He is the man.

10/22/2012 10:41:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب