04 April, 2005

کالی وردی کالا دل

وزیراعظم محترمہ بینظیر صاحبہ ۔۔۔ آپ ہمیشہ سسٹم بچانے کی بات کرتی ہیں اگر یہی آپ کا سسٹم ہے، اگر یہی آپ کا نظام ہے تو ایسا نظام ایسا سسٹم نہ ہی بچے تو اچھا ایسے سسٹم کو ہم بچانا بھی نہیں چاہتے جس میں پولیس کو اتنا ہینڈ فری دے دیا جائے کہ وہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح کسی کے قابو میں نہ آئے اور کسی مست سانڈ کی طرح جس طرف بھی قدم اٹھ جائیں رونڈھتا ہوا چلا جائے۔
٢٨ ستمبر کی اشاعت میں روزنامہ نوائے وقت نے پولیس مقابلوں کے بارے میں ایک تجزیہ پیش کیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مقامی پولیس نے ٩٦ء کے دوران ٥٠ سے زائد افراد کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کر دیا ان پولیس مقابلوں میں ١٣ سال کے بچے سے لیکر ٣٥ سال کے ادھیڑ عمر افراد شامل ہیں۔ دو واقعات میں لواحقین نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ان سے رشوت طلب کی مطالبہ پورا نہ ہونے پر ان کے پیاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ متعدد مرنیوالوں کے ورثاء نے الزام عائد کیا کہ پولیس نے ذاتی رنجش پر انہیں موت کی اندھیری وادیوں میں بھیج دیا۔ پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے بے شمار نوجوانوں کو پولیس مقابلے سے کئی روز پہلے پکڑ لیا گیا تھا لیکن ان کی باضابطہ گرفتاری نہیں ڈالی گئی اور بعد میں انہیں موت کے حوالے کر دیا۔ بےشمار افراد کو پولیس پہلے گرفتار کر چکی تھی لیکن پھر یہ ڈرامہ رچا دیا گیا کہ وہ ہتھکریاں توڑ کر فرار ہو گئے اور کچھ دنوں بعد انہیں پولیس مقابلوں میں پار کر دیا گیا۔ غور کریں محترمہ ۔۔۔۔ یہ کیسا ملک ہے، یہ کیسا نظام ہے، یہ کیسا سسٹم ہے جس میں قانون کے محافظ ہی قانون کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔
محترمہ ۔۔۔۔۔ اگر سسٹم بچانا ہی تھا تو اس وقت بچایا جا سکتا تھا جب اس سسٹم کے تحت پہلی گولی چلی، جب پہلا پولیس مقابلہ ہوا، جب پہلا آدمی پولیس مقابلے میں پار ہوا تو اس وقت ان کا ہاتھ روک کر سسٹم بچایا جا سکتا تھا۔ اگر اس وقت ان کا ہاتھ روک لیا جاتا تو اس وقت ان پولیس مقابلوں کی تعداد ٥٠ نہ ہوتی لیکن اس وقت آپ نے ان کا ہاتھ نہیں روکا، آپ نے کوشش ہی نہیں کی، اور پھر ان پولیس مقابلوں میں جب کسی کا پہلا بھائی مرا، کسی کا بیٹا پار ہوا اور ان کی چیخیں میڈیا کے ذریعے بلند ہوئیں تو اس وقت ان کی آواز پر کوئی کان دھرتا، کوئی توجہ دیتا اور ان پولیس مقابلوں کو رولنے کی کوشش کرتا تو بھی یہ سسٹم بچ سکتا تھا لیکن ان کی چیخیں، صدائیں اور التجائیں دھری کی دھری رہ گئیں کسی نے ان پر توجہ نہیں۔ اس کے برعکس آپ نے ان پولیس مقابلوں کی حوصلہ افزائی کی۔ انہیں بہادر جوان کا لقب دیا، انہیں میڈل،تمغے اور انعامات دئیے۔
محترمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا سچ کہا گیا ہے کہ جب کوئی اس تکلیف سے گزرتا ہے جس تکلیف سے کوئی دوسرا گزرا ہو تو پھر ہی اسے معلوم ہوتا ہے کہ کتنا درد ہوتا ہے، کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ غور کریں کتنی اذیت ناک گھڑیاں ہوتی ہوں گی جب کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا پولیس مقابلے میں مارا جائے اسے کسی عدالت نے سزا دی ہو، نہ مدعی ہوں نہ گواہ نہ ثبوت۔
محترمہ ۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو اس کیفیت سے گزر رہی ہیں، آپ ان دردناک گھڑیوں کو خوب جانتی ہوں گی، کاش محترمہ ۔۔۔ جب پہلی گولی چلی تو اس وقت آپ کوشش کرتی، اس وقت سسٹم بچالیتی تو آج یہ اذیت ناک لمحے نہ ہوتے۔
محترمہ ۔۔۔ نکتہ اعتراض صرف یہ ہے کہ ان کالی وردی والوں کو جن کے دل بھی ان کی وردی کی طرح کالے ہو چکے ہیں کس نے اختیار دیا ہے، کون سا ایسا سسٹم ہے جس کے تحت یہ جب چاہیں جسے چاہیں اندر کر دیں، ننگا کت کے جسم کے نازک حصوں پر تشدد کریں اور اگر زیادہ گڑبر ہو تو پولیس مقابلے میں پار کر دیں۔ پولیس تو کسی بھی مہذب معاشرے میں امن وامان کی ضامن ہوتی ہے، لیکن جب رکھوالے ہی لیٹرے بن جائیں تو ایسے معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اب بھی وقت ہے آپ پولیس کا ہاتھ روک لیں ان سے ایسے اختیارات چھین لیں جس کے تحت وہ جب چاہیں خدائی فوجدار کی طرح کسی کی بھی جان لے سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے بچا لیں اس سسٹم کو، ایسا نہ ہو کہ کل کوئی اور پولیس مقابلہ ہو اور اس میں ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ شاید کوئی اور ہی پار ہو جائے۔

کافی عرصہ پہلے کی لکھی یہ تحریر میری فائل میں رکھی تھی سوچا اسے آپ کی نذر کر دوں، پڑھیے اور رائے دیجئیے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب