بہترین مفاد میں
فرض کریں آپ ایک کاروباری ادارے کے سربراہ ہیں، آپ کے مقابلے میں ایک اور ادارہ بھی ہے،کاروباری مخالفت کے باعث آپ اس کے مالک کو اچھا نہیں سمجھتے اسے کرپٹ ، بے ایمان ، لٹیرا اور وطن دشمن قرار دیتے ہیں اس کی پراڈکٹ کو آپ ناقص اور گھٹیا تصور کرتے ہیںوہ بھی آپ کو بے ایمان ، چور اور وطن دشمن تصور کرتا ہے ، اور آپ کی پراکٹ کو انتہائی غیر معیاری قرار دیتا ہے، کچھ عرصہ یونہی گزرتا ہے اسی دوران ایک مٹی نیشنل کمپنی مارکیٹ میں اپنے قدم جمانے لگتی ہے جس کی وجہ سے آپ اور آپ کے مخالف کا کاروبار انتہائی متاثر ہوتا ہے ، آرڈر کی شرح میں واضع کمی نوٹ کی گئی ، بزنس دن بہ دن نقصان میں جا رہا ہے ، آپ اپنے کاروبار کو پھر سے پہلی جگہ پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کسی بھی طرح ملٹی نیشنل کمپنی کو ناک آوٹ کرنا چاہتے ہیں اس کے لئیے آپ کسی اچھے اور قابل عمل فارمولا کی تلاش میں ہیں ، اسی دوران آپ کے ذہن میں ایک خیال آتا ہے کہ کیوں نا ہم دونوں مخالف ایک ہو جائیں، آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے کاروبار کے لیئے یہی بات سود مند ہے۔
آپ کے دل میں یہ خواہش مچل اٹھتی ہے کہ ” کاش ” ہم دونوں ایک ہو جائیں تو ہی ملٹی نیشنل کمپنی کا مقابلہ کر سکتے ہیں ، بعض اوقات ایسا ہو بھی جاتا ہے کیونکہ دونوں ضرورت مند ہوتے ہیں کسی تقریب میں گلے ملتے ہیں تو سارے گلے شکوے جاتے رہتے ہیں، آپ اسے کہتے ہیں کہ ” مقابلے کے اس دور میں ہمارا ایک ہو جانا ہی بہتر ہے ” اس پر وہ بھی کہتا ہے کہ ”میری دلی خواہش بھی یہی کہ کاروبار کے بہترین مفاد میں ہمارا ایک ہونا ہی بہتر ہے ” پھر اگلے ہی دن وہی کرپٹ ، بے ایمان ، لٹیرا ، وطن دشمن اور گھٹیا پراڈکٹ فروخت کرنے والی کمپنی کا مالک آپ کے پہلو میں بطور حصہ دار بیٹھا ہوتا ہے۔
کسی بھی جگہ کسی بھی کاروبار میں ایک آدھ مرتبہ کسی کے ساتھ اس واقع کا ہیش آجانا کوئی بڑی بات نہیں ہے کیونکہ بعض صورتوں میں انسان کی انائیں چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں کو رائی کا پہاڑ بنا دیتی ہیں ایسی صورت میں جب غلط فہمیوں کے بادل چھٹتے ہیں تو انسان ایک دوسرے کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل ہوجاتے ہیں ، تعلقات اور رشتے اگر خلوص کی بنا، پر قائم ہوں تو پھر وہ تعلقات اور رشتے انتہائی مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں اور اگر مفاد پر قائم ہوں چند دنوں بعد ہی حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ آپ اسے بار پھر کرپٹ اور جھوٹا قرار دے کر اس سے علیحدہ ہو جائیں گے۔
کچھ عرصہ گزرنے ےک بعد گلے ملنے پر کاروبار کے بہترین مفاد میں ایک ہوجائیں پھر علیحدہ ہو جائیں اور پھر کاروبار کے بہترین مفاد میں ایک ہو جائیں، ادھر آپ کا کاروباری مخالف بھی بخوشی کاروبار کے بہترین مفاد کی خاطر آپ سے مل بیٹھے گا، ایسے تعلقات کو کسی بھی صورت میں پر خلوص تعلقات نہیں کہا جا سکتا۔ یہ صرف مفادات کے تعلقات ہونگے اور مفادات بھی ایسے جو انتہائی گھٹیا ہونگے
ہماری پاکستانی سیاست بھی کچھ ایسے ہی مفادات سے وابستہ ہے ، میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جو کل تک ایک دوسرے کو غدار ، کرپٹ، بے ایمان اور وطن دشمن کہتے اور سمجھتے تھے اور ایک دوسرے سے ملنا تو دور کی بات ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گناہ عظیم سمجھتے تھے آج جدہ میں ملک کے بہترین مفاد میں اکٹھا ہو گئے ہیں ، بھائی بہن کا رشتہ قائم ہوا تو سارے گلے شکوے بھی جاتے رہے ، ان کے نئے تعلقات نے حکومتی صفوں میں ہلچل مچا دی ہے لیکن ،، قارئین کرام مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے سیاستدانوں کی انائیں اور ضمیر آخر کس چیز کے بنے ہوئے ہیں ؟ وہ کونسی انائیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے بے ہودہ گالیاں ان کی صحت پر دیسی گھی کا اثر کرتی ہیں وہ کون سے زریں اور بہترین اصول ہیں جن کو سامنے رکھ کر یہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور الزامات لگاتے ہیں۔
لیکن جب کسی بہترین مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سینکڑوں بازو ان کی گردنوں میں حائل ہونے کےلئیے بے تاب ہوتے ہیں اور اس سارے تماشے کے باوجود ان کے ذہن میں کوئی خلش پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے دماغوں پر کوئی خراش آتی ہے۔
1 comments:
ماشاءاللہ خوب لکھا ہے۔
4/05/2005 04:21:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔