30 August, 2005

سنہرا مستقبل

غازی خان کی دھرتی ڈیرہ غازی خان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا، ایک ممتاز بلوچی سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر، میں درائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی ،1887، میں غازی خان کا یہ ڈیرہ دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا اور اس وقت کے انگریز حاکموں نے موجودہ ڈیرہ غازی خان جو پرانے ڈیرہ سے تقریباّ 15 کلو میٹر دور مغرب میں واقع ہے بنیاد رکھی ڈیرہ کا لفظ فارسی زبان میں رہائش گاہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، بلوچی ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ مہمان خانہ یا وساخ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، سرائیکی زبان میں لفظ فارسی سے آیا ہے ،
محل و قوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے ، شمال میں تھل اور مشرق میں سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، روحانی حوالے سے مغرب میں حضرت سخی سرور ، شمال میں خواجہ سلیمان تونسوی اور جنوب سے شاعر حسن و جمال خواجہ غلام فرید کا روحانی فیض جاری ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی ، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے
علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لغاری ، کھوسہ، مزاری، دریشک ، گورچانی، کیتھران، بزدار اور قیصرانی یہاں کے تمندار ہیں ، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی ، انہوں نے قبائیلی سرداروں کو اختیارات دئیے ، عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزا، مقام( فورٹ منرو ) جو سطع سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے منعقد ہوتی تھیں ، انتظامیہ کے لئیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی جس کی ملازمتیں انہی نو بااثر خاندانوں میں تقسیم ہوتی ہیں ، 1950، میں ڈیرہ اور راجن پور کے تمنداروں کے مشترکہ فیصلے کے مطابق یہ علا قہ پنجاب میں شامل ہوا، سن انیس سو پچپن میں نواف آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع ریاست بہاولپور میں شامل ہوئے لیکن بعد میں ڈیرہ اور مظفرگڑھ کے اضلاع بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں شامل کئے گئے، یکم جولائی 1982،ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ ،راجن پور کے اضلاع پر مشتمل علےقے کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا،
1900، میں بننے والے اس شہر کو منفرد اور ایک خاص نقشے کے مطابق آباد کرنے کا پروگرام بنایا گیا ، شہر کی تمام سڑکیں ، گلیاں اور چوک شرقاّ ، غرباّ اور شمالاّ جنوباّ بنائے گئے ہیں ، شہر کو 66 مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے نقشے کے مطابق ہر مکان کم از کم پانچ مرلے کا رکھا گیا ، ہر بلاک میں تقریباّ 112 پلاٹ رکھے گئے تھے لیکن اولاد اور وارثوں میں تقسیم اور خریدو فروخت کے باعث آج کل صورت حال قدرے مختلف ہے ،
ڈیرہ کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں یورینیم جیسی کے باعث پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے ، روڑہ بجری ، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹرپلانٹ پر تیار کئے گئے فیٹ ٹریکٹراور ڈی جی سیمنٹ اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کےلئے ریل ، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کےلئے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے ، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے ،
کوئٹہ روڈ پر سخی سرور سے پہلے جدید ائر پورٹ تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے کراچی ، بہاولپور، لاہور اور اسلام آباد کے لئے پروازیں چلتی ہیں کوئٹہ روڈ پر ہی تقریباّ 75 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب کا سرد ترین تفریحی مقام فورٹ منرو ہے، شہر میں تفریحی سہولتوں کےلئے سٹی پارک ،غازی پارک، وائلڈ لائف پارک، چند کھیل کے میدان اور آرٹ کونسل ہے، بلدیہ کی لائبریری میں کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے علاقے کے لوگ بشمول خواتین تعلیم کے حصول میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں،شہر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ایلیمنٹری کالجز ہیں ، تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرز کے سخی سرور روڈ پر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی قائم ہے، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کےلئیے علیحدہ علیحدہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں ریلوے روڈ پر واقع گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین، گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ آف کامرس برائے خواتین ، ایگریکلچر سکول وغیرہ شامل ہیں شہر میں پرائیوٹ لا، کالجز ،پرائیویٹ ہومیو پیتھک کالج ، درجنوں کمپیوٹر کے تربیتی ادارے اور درجنوں پرائیویٹ سکول ہیں جبکہ ڈویژنل پبلک سکول اور کالج گورنمنٹ کالج انٹر کالج ،سنٹرل ماڈل سکول، گورنمنٹ کمپری ہینسو سکول،اسلامیہ ہائی سکول اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لئیے ، گونمنٹ ہائی سکول نمبر 1،2،3 اور دیگر تمام تعلیمی ادارے شہر میں علم کے فروغ کے لئیے سرگرم عمل ہیں، جامعہ رحمانیہ اسلامیہ اور کلیتہ النبات ، للدراسات الا اسلامیہ ممتاز دینی مدارس ہیں والی بال یہاں کے لوگوں میں مقبول کھیل ہے لیکن اب کرکٹ اس کی جگہ لے رہا۔
مقامی لوگ ناشتہ میں حلوہ پوری، دوپہرکو سری پائے شوق سے کھاتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک گھروں میں ڈرائنگ روم یا بیٹھک نہیں ہوتی تھی بلکہ گھروں کے آگے یا بلاکس کے چوک میں رکھی ہوئی بڑی بڑی چارپائیاں جنہیں مقامی زبان میں ( ہماچہ ) کہتے ہیں، ڈرائنگ روم یا بیٹھک کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہوتی تھیں جن پر بیٹھ کر رات گئے تک گپ شپ اور حال احوال کرنا مقامی لوگوں کے مزاج اور ثقافت کا حصہ ہے، مگر اب دور بدل رہا ہے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں ثقافت کو بھی نئے دور کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے چارپائی اور ہماچے کی جگہ اب ڈرائنگ رومز اور بیٹھکوں نے لے لی ہے۔
زیر زمین پانی کافی کڑوا ہے پینے کا صاف پانی ڈیرہ غازی خان کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے شہر سے کم و بیش دس کلو میٹر دور پمپ لگے ہوئے ہیں جہاں سے پانی پائپوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ پمپ اکثر خراب رہتے ہیں اور پھر پائپ لائنوں کے پھٹ جانے سے سیوریج ملا پانی پینے کو ملتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت گندے پانی کی وجہ سے گردوں اور دیگر امراض میں مبتلا ہے۔ گیارہ اگست ٢٠٠٠ کو چیف ایگزیکٹیو پرویزمشرف نے ہینے کے صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں لاکھوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے واٹر پیور لیفیکیشن پلانٹ کا افتتاح کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے بعد تین اور پمپس بھی چالو کئے گئے جنہیں مشرف واٹر پمپس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مگر سابقہ روایات کے مطابق محکمہ پبلک ہیلتھ، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی عدم توجہی کی بنا پر پانی صاف کرنے کے یہ پلانٹ بے کار ہو رہے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں۔ سیوریج یہاں کا ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے جسے کسی بھی دور میں حل نہیں کیا گیا، اکثر محلوں، بلاکوں اور روڈوں پر سیوریج کا پانی کھڑا ہوتا ہے۔ چوک چورہٹہ، سجاد آباد، غریب آباد، نورنگ شاہ، مستوئی کالونی، بھٹہ کالونی، نیوماڈل ٹاؤن اورگلستان سرور کے مکین سیوریج کی وجہ سے انتہائی بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ سیوریج کا پانی اب ان کے گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ سابقہ ادوار میں آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کی سڑکیں تعمیر کی گئیں کچھ ہی عرصے بعد سڑکیں ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئییں، جن کی مرمتی ازحد لازمی ہے ورنہ ایک بار پھر ان کی تعمیرنو کرنی پڑے گی۔
شہر میں سرکاری ہسپتال کے علاوہ درجنوں پرائیویٹ ہسپتال موجود ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں سالانہ لاکھوں روپے کی ادویات کی خریداری کے باوجود سر درد کی گولی دستیاب نہیں ہوتی۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا سنہرا خواب اور کروڑوں روپے کی گرانٹس کے باوجود ڈیرہ غازی خان کے عوام کی تقدیر نہیں بدل سکی، اس سب کے باوجود بھی ڈیرہ کے شہری اپنے سنہرے مسقتبل اور اپنی تقدیر بدلنے کا خواب ضرور دیکھتے ہیں۔

1 comments:

خاور کھوکھر نے لکھا ہے

اپ كا يه مضمون ايكـ اچهى معلوماتى تحرير هے اس كو انسايكلوپيڈا ميں شائع هونا چاهئے ميں نيچے لنكـ لكهـ رها هوں اگر اب پسند كريں تو اس مضمون كو يهاں كاپى كيا جا سكتا هے ـ
يا پهر ميں آپ كى طرف سے اپ كى اجازت سے انسائكلوپيڈيا ميں كابى كردوں؟؟
خاور كهوكهر
http://ur.wikipedia.org/wiki/ڈیرہ_غازی_خان

8/31/2005 12:17:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب