بلاگ پہ آمد کا بہت بہت شکریہ
Showing posts with label ڈیرہ نامہ. Show all posts

اساں لوک دلیر ہیں ڈیرے دے

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

میرا شہر ڈوب رہا ہے

غمِ زندگی سناؤں،  میرا شہر ڈوب رہا ہے
میں خوشی کہاں سے لاؤں میرا شہر ڈوب رہا ہے

تمہیں یہ گلہ ہے جاناں، کہ مزاج کیوں ہیں برہم
کہو کیسے مسکراؤں، میرا شہر ڈوب رہا ہے

تمہیں ہے عید کی خوشی، مجھے ہے وہ معلوم لیکن
 میں یہ کیسے بھول جاؤں، میرا شہر ڈوب رہا ہے

ہے ڈگر ڈگر بارش، قدم قدم پانی
سرِ راہ ڈگمگاؤں، میرا شہر ڈوب رہا ہے

میرا زخم زخم سینہ تو لہو لہو سفینہ
میں سکون کیسے پاؤں، میرا شہر ڈوب رہا ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ہمارے تعلیمی اداروں کی حالت زار

ہمارے تعلیمی ادارے جو خیر سے اب بزنس اداروں کا روپ دھار چکے ہیں، جہاں تعلیمی معیار پر کم، بے ایمانی اور غنڈہ گردی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ایک ایسے ہی تعلیمی ادارے الرحمان پبلک ماڈل سکول کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ جس میں ابوبکر صدیق ولد محمد رفیق پنجاب ایگزامینشن کمیشن کا رولنمبر ١١٩۔١٣٨۔٦٧ کو ٤٨٠ نمبر کے ساتھ پاس ظاہر کیا گیا ہے جبکہ پنجاب ایگزامینشن کمیشن کی گریڈ ٨ لسٹ میں یہ بچہ فیل ہے۔
واضح رہے کہ یہ سرٹیفکیٹ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس اور اسسٹنٹ ایجوکیشن ڈیرہ غازی خان سے تصدیق شدہ ہے۔






پنجاب ایگزامینشن کمیشن کی گریڈ ٨ کی لسٹ سے اس سکول کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سکول کے ١٢ بچوں نے آٹھویں جماعت کا امتحان دیا جس میں ١١ لڑکے اور ١ لڑکی ہے اور اسی ترتیب ١١ لڑکے فیل اور ١ لڑکی پاس ہوئی۔ اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ لڑکی اپنی محنت سے پاس ہوئی جبکہ سکول کی کارکردگی زیرو ہے۔ جسے چھپانے کے لئے سکول انتظامیہ نے تمام لڑکوں کو پاس کے سرٹیفکیٹ جاری کر دیئے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ڈیرہ آپریشن

ڈی پی او ڈیرہ ڈاکٹر رضوان کی سربراہی میں آج صبح پانچ بجے ڈیرہ غازی خان سے تقریبا ٣٠ کلومیٹر دور شادن لنڈ کے علاقہ میں واقع مدرسہ عثمانیہ پر چھاپہ مارا گیا، اس دوران مدرسے میں چھپے دہشت گردوں جن کا تعلق وزیرستان سے بتایا گیا ہے نے فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں ایک دہشتگرد ہلاک جبکہ دوسرے کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے، پولیس نے ابھی تک علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور سرچ آپریشن جاری ہے۔ ایک دوست کے مطابق مدرسے سے ١٤ مارٹر گولے، ٥ خود کش جیکٹس، ١٥ ٹائم فیوز جیکٹس، ١٠ چھوٹے میزائل، ٢٢ ہینڈ گرنیڈ، ٨ راکٹ لانچر، ١٠ کلو دھماکہ خیز مواد اور بے شمار گنیں، گولیاں وغیرہ برآمد کی گئی ہیں۔
میں حیران ہوں کہ آخر اتنا زیادہ اسلحہ یہاں تک آیا کیسے، ہماری پولیس، فوج اور درجنوں دیگر ادارے آخر کیا کر رہے ہیں، دہشت گرد انتہائی آسانی سے اسلحہ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور بیج میں خوار ہو رہا ہے بیچارہ عام آدمی۔
ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے، دوسری طرف دہشت گرد اور درمیان میں عوام جسے چکی میں پڑی گندم کی طرح پیسا جا رہا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سجن آون تے اکھیں ٹھرن

وہ ‘نہ‘ افتخار کی فصیل جبر ڈھا گئی
وہ حریت کی اک نظر یذیدیت مٹا گئی

عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری اور معزز وکلاء راہنماؤں کو ڈیرہ غازی خان کی دھرتی پر


خوش آمدید



٩مارچ ٢٠٠٧ء جنرل پرویز مشرف نے آزاد عدلیہ کو اپنا غلام بنانے کی مذموم کوشش کی تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس جرنیلی سازش کے سامنے آہنی دیوار بن گئے۔
اس فیصلے کے خلاف ملک بھر کے وکلاء، سول سوسائٹی، سیاسی تنظیمیں سراپا احتجاج بن گئیں۔ یہ احتجاج آہستہ آہستہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔
اس تحریک کے دوران ہزاروں گرفتاریاں، نظربندیاں ہوئیں، لاٹھی چارج، آنسوگیس، تعذیب و تشدد اور قید و بند کی تکلیفیں اس کے علاوہ ہیں۔
١٢ مئی کو افتخار محمد چوہدری کے دورہ کراچی کے موقع پر ایم کیو ایم کی درندگی اور دہشت گردی کے دوران سینکڑوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا۔
٣ نومبر ٢٠٠٧ء کو جنرل مشرف نے دورسری بار آئین توڑ کر عدلیہ پر شب خون مارا، ایمرجنسی پلس نافذ کر دی، باضمیر ججوں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا۔
١٨ فروری کے مینڈیٹ کے بعد حکمران اپنے وعدوں سے منحرف ہو گئے، این آر او سے مستفید حکمران اعلان مری، اعلان اسلام آباد، میثاق جمہوریت اور محترمہ بے نظیر کی وصیت کے مطابق افتخار محمد چوہدری کو ان کے منصب پر بحال کرنے کے وعدے سے مکر گئے جس پر وکلاء برادری نے ١٢ جون ٢٠٠٨ء کو لانگ مارچ کا اعلان کیا تو ہزاروں سرفروش چلچلاتی دھوپ میں راولپنڈی پہنچ گئے۔
حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وکلاء کو ایک بار پھر لانگ مارچ اور دھرنے کی کال دینی پڑ گئی، افتخار محمد چوہدری اسی لئے شہر شہر کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ اس تحریک کو اپنے منتقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس تحریک کا ایک ہی مقصد ہے آزاد عدلیہ۔
ملکی سلامتی، انصاف، عزت نفس کی بحالی، قومی اثاثوں کا تحفظ، سرحدوں کی حفاظت، آزاد اور خود مختیار الیکشن کمیشن، سیاسی عمل میں کالے دھن، چمک اور خرید و فروخت کا سدباب، فوجی آپریشن، فضائی حدود کی خلاف ورزی، غیر ملکی مداخلت کی روک تھام، پارلیمنٹ کی بالادستی، اداروں کی آزادی اور آئین و قانون کی حکمرانی ۔۔۔۔ یہ سب آزاد عدلیہ کے بغیر نا ممکن ہیں۔
لہذا ڈیرہ غازی خان کے غیور شہریوں کا یہ عزم ہے کہ آزاد عدلیہ کی بحالی، باضمیر آزاد منش معزول چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھیوں کی باعزت بحالی تک وکلاء کے شانہ بشانہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔

بڑا مبارک جہاد ہے یہ سحر کی امید رکھنا زندہ
نہ چین کی ظلمت کو لینے دینا شبوں کی نیندیں اڑائے رکھنا


انشاء اللہ ٢٥ فروری ٢٠٠٩ء بروز بدھ کو ڈیرہ غازی خان کے غیور شہری چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری کا شایان شان استقبال کریں گے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

جھمر

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ڈیرہ لہو لہو

ڈیرہ غازی خان بم دھماکے کے بعد آج تیسرے روز بھی سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس دوران شہر بھر میں تمام کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے، سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند رہے۔ مشتعل مظاہرین نے پتھراؤ  اور توڑ پھوڑ  کی جبکہ اکا دکا فائرنگ کے واقعات بھی سامنے آئے۔ پولیس جائے وقوع سے ملنے والے اعضاء کی مدد سے حملہ آور کی تصویر مکمل کر کے میڈیا کو جاری کر دی ہے۔
ڈیرہ غازی خان کا جڑواں شہر ڈیرہ اسماعیل خان پہلے ہی لہو لہو ہے، اب یہ امن کے دشمن ڈیرہ غازی خان کے پیچھے پڑ گئے ہیں، ڈیرہ کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جس میں اتنی زیادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ گو حکومت کی طرف سے امدادی رقوم کا اعلان کیا گیا لیکن یہ قیمتی جانوں کا ہرگز نعم البدل نہیں ہے۔
اس وقت جب ڈیرہ لہو میں ڈوبا ہوا ہے، سیاستدان ان بیگاہوں کے خون پر اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں، ایسے نازک وقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے کردار ادا کریں، اس واقعہ میں جو سیکورٹی خامیاں نظر آئی ہیں ان کا سدباب کریں اور ذمہ دار افسران کی غلطی اور کوتاہی کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ ان کی ذرا سے غلطی کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ڈیرہ غازی خان میں بم دھماکہ

تازہ ترین اطلاع کے مطابق ابھی کچھ دیر پہلے یہاں ڈیرہ غازی خان میں تھانہ صدر کے علاقے وڈانی امام بارگاہ کے قریب ایک ماتمی جلوس میں بم دھاکہ ہوا جس میں 20 سے زائد افراد ہلاک اور معتدد افراد زخمی ہیں، زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے، پولیس نے علاقے کو گھیر لیا ہے اور مزید  تحقیقات جاری ہیں۔


کمیشنر حسن اقبال کے مطابق بم کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں اس سلسلے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے بہرحال یہاں عوام میں بہت اشتعال ہے تمام بڑے بازار بند کر دیئے گئے ہیں۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

میرا ڈیرہ غازی خان

میں نے، میرا ڈیرہ غازی خان کے نام سے ایک علاقائی بلاگ ترتیب دے رہا ہوں، جس میں ڈیرہ غازی خان اور سرائیکی وسیب کے حوالے سے معلومات اور دیگر مواد رکھا جائے گا، یہ بلاگ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس میں مزید تبدیلیاں کرنا باقی ہیں۔ دوستوں سے گذارش ہے کہ اس لنک کو اپنے بلاگ اور ویب میں معمولی سی جگہ کے ساتھ ساتھ اپنے قیمتی مشوروں سے بھی آگاہ کریں ۔۔۔۔ شکریہ

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

گیس کے وسیع ذخائر دریافت

روزنامہ جنگ کے مطابق وزارت ِپٹرولیم کے ترجمان نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے میں واقع سفید کوہ بلاک میں دوکنوؤں سے وسیع پیمانے پر گیس دریافت ہوئی ہے لائم اسٹون اور سینڈ اسٹون ایریا میں واقع یہ کنویں نجی کمپنی کے ہیں ۔ دونوں کنوؤں سے یومیہ ڈیڑھ کروڑ کیوبک فٹ سے زائد گیس کے ساتھ روز آنہ ایک سو بیس بیرل کنڈنسریٹ آئل بھی نکالا جارہا ہے۔ وزارت پیٹرولیم کے مطابق گیس کی اس دریافت سے سالانہ کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ بچانے میں مدد ملے گی ۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

الیکشن 2008

آجکل ہر وقت ہر جگہ الیکشن کا چرچا ہے اس لئے سوچا ہے کہ آج کچھ الیکشن اور مقامی سیاست کے بارے میں لکھا جائے، ڈیرہ غازی خان کے سرداروں اور جاگیرداروں کا کردار ملکی سیاست میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ ضلع ڈیرہ غازی خان قومی اسمبلی کی تین اور اور صوبائی اسمبلی کی سات نشتوں پر مشتمل ہے۔اس کی مجموعی طور پر کل آبادی تقریباََ اٹھارہ لاک نفوس پر مشتمل ہے، اور مجموعی طور پر گیارہ لاکھ پانچ سو چوہتر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ہے جن میں چھ لاکھ پچیس ہزار آٹھ سو سولہ مرد اور چار لاکھ انناسی ہزار نو سو اٹھاسی خواتین ووٹر شامل ہیں، جبکہ الیکشن کے لئے ضلع بھر میں ٨١٤ پولنگ اسٹیشن اور ١٧٩٩ پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں۔ ضلع کی مجموعی طور پر ٥٩ یونین کونسلیں ہیں جن ٤١ تحصیل ڈیرہ غازی خان اور ١٣ تحصیل تونسہ شریف تحصیل ٹرائبل ایریا پانچ یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔
١٨ فروری کے قریب ہونے کی وجہ سے اس وقت ڈیرہ غازی میں انتخابی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں۔ الیکشن ٢٠٠٨ سے صرف چند دن قبل ڈیرہ غازی خان کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی سے الیکشن مہم میں مزید تیزی آ گئی ہے سات سال بعد سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری اور ضلع ناظم سردار مقصود احمد خان لغاری کے درمیان صلح سے لغاری گروپ کی پوزیشن اب قدرے بہتر ہوئی ہے، تاہم کہا یہ جا رہا ہے کہ اس صلح میں صدر پرویز مشرف اور چودھری پرویز الہی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مدمقابل سیاسی حریف سردار ذولفقار علی خان کھوسہ گروپ بھی اپنی کامیابی کے لئے بھرپور کوششیں کر رہا ہے، اس سلسلے میں کل ہی میاں شہباز شریف یہاں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کر کے گئے ہیں جس سے ق لیگ کے مایوس کارکنوں میں نئی جان پیدا ہو گئی ہے اور کھوسہ گروپ کو بھی بہت بڑی سپورٹ مل گئی ہے۔
سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ اپنے صاحبزادوں سردار سیف الدین خان کھوسہ اور سردار دوست محمد خان کھوسہ کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے بھرپور محنت کر رہے ہیں۔ بہرحال دونوں روایتی حریفوں کے درمیان انتہائی کانٹے دار اور سخت مقابلے کی توقع ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ١٧١ تحصیل تونسہ شریف پر مسلم لیگ ق کے امیدوار خواجہ شیراز، مسلم لیگ ن کے امیدوار میربادشاہ قیصرانی، پیپلز پارٹی کے امیدوار خواجہ مدثر محمود اور آزاد امیدوار سابق ممبر قومی اسمبلی سردار امجد فاروق خان کھوسہ کے درمیان انتہائی سخت مقابلہ ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ١٧٢ سے مسلم لیگ ق کی ٹکٹ پر سابق صدر فاروق احمد خان لغاری امیدوار ہیں جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن اور ایم ایم اے کے حمایت یافتہ امیدوار حافظ عبدالکریم ہیں جو اپنی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں، حافظ عبالکریم کو سردار ذولفقار علی خاں کھوسہ گروپ کی سپورٹ کے ساتھ ساتھ دینی و مذہبی جماعتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ١٧٣ پر سابق وفاقی وزیر سردار اویس احمد خان لغاری اور سردار ذولفقار علی خان کھوسہ کے صاحبزادے سابق چیئرمین ضلع کونسل سردار سیف الدین خان کھوسہ کے درمیان انتہائی سخت اور دلچسپ مقابلہ ہو گا۔ کیونکہ اس وقت دونوں کی پوزیشن مستحکم نظر آ رہی ہے، کسی کے بارے میں واضع طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی حلقے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار شبیر احمد خان لغاری کی انتخابی مہم بھی کہیں کہیں نظر آ رہی ہے، لگتا ہے وہ ان دونوں امیدواروں کے درمیان مقابلے کے لئے میدان خالی چھوڑنا چاہتے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان شہر کی نشست حلقہ پی پی ٢٤٤ پر مسلم لیگ ق کے امیدوار سید عبدالعلیم شاہ جن کو سردار فاروق احمد خان لغاری کی حمایت حاصل ہے جبکہ ان کے مدمقابل سردار ذوالفقار علی خان کے چھوٹے صاحبزادے سردار دوست محمد خان کھوسہ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار شبلی شب خیز غوری کے علاوہ آزاد امیدوار مینا احسان لغاری اور ایم ایم اے کے امیدوار عبدالعزیز بلوچ میدان میں ہیں۔
اس وقت پورے شہر میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں، پورے شہر کی سڑکیں امیدواروں کے انتخابی پوسٹروں اور بینروں خصوصاََ شہر کے مین چوکوں پر بڑے پوٹریٹ نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔ شہر کے تمام ہوٹلوں، قہوہ خانوں، چوکوں، گلیوں اور گھروں میں ہر جگہ انتخابات کے بارے میں بحث و مباحثہ، تبصرے اور شرطیں لگائی جا رہی ہیں۔ شہر میں ہونے والی کوئی نماز جنازہ، قل خوانی اور دیگر اجتماعات و تقریبات میں تمام امیدوار موجود ہوتے ہیں اور تعزیت، ہمدردی اور اپنائیت کا احساس دلا کر کنویسنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ موجودہ الیکشن انتہائی ٹاکرے دار اور عوام کے باشعور ہونے کی وجہ سے اب کی بار مقامی سردار ڈور ٹو ڈور عوام کے پاس جانے پر مجبور ہو گئے ہیں، اگر یہی لوگ اقتدار کے ایونوں تک عوام کے ساتھ لیکر چلتے تو آج یوں گلی گلی دروازے کھٹکاتے نظر نہ آتے، بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ ١٨فروری کا دن ڈیرہ غازی خان کے سیاسی منظر نامے پر کیا تبدیلیاں لیکر آتا ہے۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

تونسہ بیراج Taunsa Barrage




پاکستان میں بیشمار بیراج ہیں، جن میں چند مشہور جناح بیراج، چشمہ بیراج، گدو بیراج، سکھر بیراج اور کوٹری بیراج شامل ہیں۔ تونسہ بیراج کالا باغ ہیڈ ورکس سے ٨٠ کلو میٹر جنوب کی طرف دریائے سندھ پر واقع ہے جو کوٹ ادو شہر سے ١٨ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ پاکستان کا پندرھواں اور دریائے سندھ کا چوتھا بیراج ہے۔ اس کی تعمیر پر ساڑھے بارہ کروڑ روپے صرف ہوئے تھے، اس سے دو نہریں نکالی گئی جن میں سے ایک نہر مظفر گڑھ اور دوسری ڈیرہ غازی خان کو سیراب کرتی ہے۔ بلوچستان کی خشک سالی دور کرنے کے لئے تونسہ بیراج سے ابھی حال ہی میں سوا تین ارب روپے کی لاگت سے ٥٠٠ کلومیٹر طویل ‘کچھی کینال‘ نامی ایک اور نہر نکالی گئی۔ جس سے سات لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے۔
تونسہ بیراج سے نکالی گئی ان نہروں سے نہ صرف لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے بلکہ کئی دوسرے فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی تکمیل سے ڈیرہ غازی خان تک جانے کے لئے خشکی کا راستہ نکل آیا اور پختہ سڑک کی تعمیر سے ڈیرہ غازی خان کا دوسرے حصوں سے براہ راست تعلق قائم ہو گیا ہے۔
ڈیرہ غازی خان کی خوش قسمتی ہے کہ تونسہ بیراج جیسا عظیم الشان منصوبہ ١٩٥٨ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ پل کے نیچے پانی بڑی تند و تیزی سے رواں دواں ہے۔ پل کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن بھی موجود ہے، دوسرے کئی افادی اور تفریحی مقامات بھی موجود ہیں۔ دریائے سندھ پر اس وقت تک جتنے پل تعمیر ہوئے ہیں ان سب میں سے عظیم الشان پل تونسہ بیراج ہے۔
تونسہ بیراج کا کام ١٩٥٤ء کو شروع ہوا اور ١٩٥٨ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا، افتتاح ١٩٥٩ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے کیا تھا۔ پل پر فٹ پاتھ (دونوں سائیڈوں پر) چھ چھ فٹ ہے۔ سڑک کی چوڑائی ٢٢ فٹ ہے۔
ڈیرہ غازی خان محکمہ انہار کے (ریٹائرڈ) سرکل ہیڈ ڈرافسٹمیں خان خدا بخش خان کے مطابق تونسہ بیراج کے نقشہ جات اور ڈیزائن کی تیاری میں تقریبا پانچ برس کے عرصہ تک میں نے بیراج کے مختلف حصے اور ریگولیٹر کے نقشے ڈیزائن انجیئر آئی اے خالق اور ڈائریکٹر محی الدین خان کی سرپرستی میں تیار کئے تھے جبکہ میرے ساتھ سب انجیئر یعقوب خان مرحوم اور ہیڈ ڈرافسٹمیں بشیر حسین شاہ مرحوم بھی میرے ساتھ کام کرتے تھے۔ مجھے اس کارکردگی کے صلے میں ١٩٥٩ء کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بیراج کی افتتاحی تقریب میں میڈل سے نوازا اور ایک ایک میڈل سب انجیئر اور ہیڈ ڈرافسٹمین کو بھی عطا کیا گیا جبکہ پہلا میڈل پی ایس ای لنک (بمقام بلوکی) ١٩٥٣ء کو منسٹر آف ایریگیشن سردار محمد خان لغاری کے دور حکومت میں عطا کیا گیا تھا۔



مکمل تحریر اور تبصرے >>>

چلو چلو سٹیڈیم چلو


آج صدر جنرل پرویز مشرف ڈیرہ غازی خان ایک جلسے سے خطاب فرمائیں گے، پورا شہر خوش آمدید کے بینروں سے بھرا ہو ہے، ہر طرف چلو چلو سٹیڈیم چلو کے نعرے لکھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں خطاب کے بعد صدر صاحب راجن پور میں فرید بیس پر معززین سے ملاقات کریں گے اور ساتھ ہی انڈس ہائے وے کا افتتاح بھی کریں گے۔
ہمارے صدر صاحب نے جو خطابوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے اور کچھ ہو نا ہو حکومتی خزانے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ اب یہی دیکھ لیں صدر کے جلسے میں تیار کے گئے ائرکنڈیشنز پنڈال پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے لاگت آئی ہے، شرکاء میں پارسل کھانے کی تقسیم اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
جسلہ گاہ انتظامات مکمل طور پر پاک فوج نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ کل شام اور آج صبح اسلام آباد ہیلی کاپٹر پر عملہ آیا اور جلسہ گاہ کے انتظامات کا جائزہ لیکر واپس چلا گیا۔ جلسہ گاہ کے اطراف کی رہائشی آبادیوں ماڈل ٹاؤن، رکن آباد کالونی، بھٹہ کالونی اور پروفیسرز کالونی میں سیکڑوں پولیس اہلکار مسلسل گشت کر رہے ہیں۔ آنے جانے والے تمام افراد کو مکمل طور پر چیک کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آج علی الصبح فیصل چوک آؤٹ ایجنسی سے گدائی چوک تک، نیو کالج روڈ چوک سے پل ڈاٹ تک اور جام پور روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری اور ضلع ناظم سردار مقصود احمد خان لغاری میں ‘ان بن‘ کی وجہ سے جلسہ گاہ جلسہ گاہ کے پنڈال کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں دائیں طرف سردار فاروق احمد خان لغاری گروپ اور بائیں طرف ضلع ناظم گروپ اپنے خیر مقدمی بینروں سمیت موجود ہوں گے۔ سٹیج پر پانچ کرسیاں فرنٹ پر اور باقی کرسیاں پیچھے کی طرف لگائی گئی ہیں جو ایم این اے اور ایم پی ایز کے لئے مختص ہوں گی۔ سٹیج پر صدر کے لئے گرین لائن اور ہاٹ لائن فون بھی نصب کر دیئے ہیں۔ ضلع ناظم سردار مقصود احمد خان لغاری صدر مشرف کو مقامی بلوچی ثقافت کے حوالے سے پگڑی پہنائیں گے۔
جلسے میں عوم کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے لئے ہر ناظم کو دس گاڑیاں دی گئی ہے، ہمارے ایک جاننے والے ناظم صاحب نے کہا ہے کہ دس گاڑیاں تو مل گئی ہیں پر اس میں بیھٹنے والے لوگ کہاں سے لاؤں، کوئی بھی جلسہ گاہ جانے کو تیار نہیں، میں نے اپنے علاقے کے لوگوں سے جب اس بارے میں کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘گوڈا توں ساکوں مرواون چاہدیں (جناب آپ ہمیں مروانا چاہتے ہیں کیا؟)۔
صدر کا خطاب اپنی جگہ، مگر اس کی وجہ سے عوام جو مسلسل پانچ چھ روز سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی۔ شہر کی پوری ٹرانسپورٹ سرکاری قبضے میں ہونے کی وجہ سے مسافر بیچارے ١٠ روپے والے سفر پر ١٠٠ روپے کرایہ دینے پر مجبور ہیں، ان کی دعائیں اور بددعائیں کس کے سر ہوں گی جسلہ گاہ میں آج اگر اس کا بھی حساب ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔ ؟

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

احمد خان طارق

احمد خان طارق سرائیکی وسیب کا نمائندہ اور تخلیق کار ہے۔ جاگیردرانہ ماحول کا یہ باسی کچلی ہوئی انسانیت کے دکھ درد کی بھرپور عکاسی کرتا نطر آتا ہے۔ ان کے کلام میں نعرہ بازی، پھکڑ پن اور نام نہاد انقلاب کی بات نہیں بلکہ اس میٹھے کرب کا اظہار ہے جس سے صدیوں کی غلامی کی وجہ سے حسِ احتجاج تقریبا ختم سی ہو گئی ہے۔ کھوسہ قبیلے سے تعلق رکھنے والا یہ بلوچ آسان زندگی اور وہ بھی ‘ٹاہلی دی چھاں تلے‘ گزارنے کا خواہش مند ہے، حالانکہ اسے بخوبی علم ہے کہ یہ سایہ بھی اسے حقیقی سکون نہیں بخش رہا۔ ‘ماندی چھاں‘ کا شکوہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔

اساں کیہل فقیر ہمسائے تیڈے
تیڈے ناں دی چھاں تے پئے ہیں
تیڈے چنتے چوڑھے مترلگن
متراں دی چھاں تے پئے ہیں
تیڈی مونجھ دی گھر دی ٹاہلی ہے
من بھاندی چھاں تے پئے ہیں
پر طارق جھٹ محسوس تھیندے
کہیں ماندی چھاں تے پئے ہیں

احمد خان طارق حقیقتاَ عشق و محبت کا آدمی ہے۔ خلوص و نیاز مندی ہر حرف سے ٹپکتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے خیال سے ایک بے قرار وجود کو مجسم کر دیا ہے۔

اج قاصد گونگا بن کے ونج
مونہو نہ الوائیں، مونجھ ڈسائیں

انہوں اضطراب و بے قراری کا اظہار نہ صرف ڈوہرے میں کیا بلکہ اسے اپنے رس بھرے گیتوں میں بھی خوب استعمال کیا۔

سوئیاں دھاگے پھولے اُچھلاں
مندری کان تعویز لکھانواں
ڈاج کھندانواں سندرے پھولاں

اسی طرز کی بے قراری کا ایک اور شعر بھی ملاحظہ کیجیئے۔

جوسی سڈا جھترے پُھلا
گل باہیں وچ تعویز پا
در تے سدا دھوئیں
دُکھا حرمل دے پُک

احمد خان طارق سرائیکی وسیب کے کلچر کا شاعر ہے۔ بیٹ، ٹاہلی، کاہاں، سر، کاں، گاج، بانگاں یہ سب ہماری وسیبی مزاج کی باتیں ہیں۔ وہ مقامی ثقافت کے کامیاب مصور ہیں۔
مستقبل کے حوالے سے وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے۔

طارق غم دا کوئی غم کائینی
ول آسن غمخوار جیہاڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے تاں اپنی ذات دا عرفان حاصل کر گھنوں
ول اپنی طارق ذات دے گنبد توں باہر ڈیکھسوں
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

ہیرے موتی لوگ

ڈیرہ غازی خان کی دھرتی میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی ہے، اگر کمی ہے تو حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہاں اچھے سے اچھا شاعر، اعلٰی سے اعلٰی گلوگار، مصور، مجمہ ساز، خطاط اور دستکار پڑا ہوا ہے۔ لیکن زندگی بھر ان کی شہرت اور پذیرائی ان کی شکستہ، بوسیدہ، جابجا سے آثار قدیمہ کی تصویر پیش کرتی ہوئی چاردیواری کی حدود سے آگے نہیں بڑھ پاتی، یہاں تک کہ یہیں پر گھٹ کر مر جاتی ہے۔ اس علاقے کے فنکاروں کے ساتھ یہ ظلم اور ناانصافی کیوں؟ یہ سوال برسہا برس سے ڈیرہ غازی خان کی گرد کے ساتھ کوچہ و بازار میں رسوا پھرتا ہے، مگر کوئی نہیں جو اسے جواب کے سانچے میں ڈھال کر رنگ و روپ کے اجالوں سے نکھار دے۔ اندھیرے، گمنامیاں اور ناقدری کی دھول نہ جانے کب تک ان کے چہروں کو دھندلائے رکھے گی۔
شمیم خطاط کو کون نہیں جانتا؟ جو اسی سرزمین پر برسہا برس سے خطاطی سکھا کر اپنا پیٹ پال رہا تھا، صرف دو دن پہلے ہی گمنامی کے گھپ اندھیروں میں کہیں گم ہو گیا۔
میڈا عشق وی توں، میڈا دین وی توں‘ گا کر سوز و آواز کا جادو جگانے والے پٹھانے خان مرحوم سے کون واقف نہیں، انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنی آخری زندگی گزارنے والے پٹھانے خان مرحوم کے گھرانے کو دو وقت کی روٹی کے لئے آخر کار پٹھانے خان مرحوم کے ساز بجانے والے آلات کی بولی لگوانے کا سوچنا پڑا۔
کوئی ایک دکھ ہو تو بندہ رونا بھی روئے، یہاں تو دکھوں کا ایک جہان آباد ہے۔ لوگ تڑپتے پھرتے ہیں لیکن کوئی ایسا نہیں جو ان کے درد کا درماں بنے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم لوگ جن کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر اسلام آباد کی عظمتوں کے سپرد کرتے ہیں وہ ان فضاؤں میں جاتے ہی زمینی لوگوں کو یوں بھول جاتے ہیں جیسے کبھی ان کے پاس لوٹ کر زمین پر نہیں آنا۔
اپنے ہی مفادات کی ہیبتناکیوں میں گم لوگو! ہوش میں آؤ اور مٹی میں ملے ہوئے ان ہیرے، موتیوں کو مٹی میں دفن ہونے سے بچا لو، ان کی چمک سے دنیا کو خیرہ کرنے کے لئے انہیں بھی وہی مواقع فراہم کرو جو تم نے لاہور، اسلام آباد اور اس جیسے دیگر علاقوں کو فراہم کیئے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کے ایک علاقے پر تو نوازشات کی بارش اور دوسرا ایک قطرے کو ترستا رہے، مساوات کا دعوٰی کرتے ہو تو اس کی لاج بھی رکھو۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

تاریخ ڈیرہ غازی خان ۔ ٢ حصہ دوم

حصہ اول کے لئے یہاں کلک کیجیئے۔
١١٢٥ء میں چنگیز خان سلطان جلال الدین خوارازم کا تعاقب کرتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے پہنچ گیا۔ سلطان جلال الدین اور اس کے بقیہ ساتھیوں نے گھوڑوں کے ذریعے دریا عبور کیا مگر تاتاری اتنے بڑے دریا کو عبور کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔ چنگیز خان کی آمد کے بعد یہ علاقہ تاتاریوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ اگرچہ بلبن عہد حکومت میں غیاث الدین بلبن اور علاؤالدین بلبن نے سرحدی چوکیوں کو مضبوط کر دیا تھا مگر یہ چوکیاں مغربی کنارے پر تھیں اس لئے سندھ کا مشرقی کنارہ اور ادھر کا سارا علاقہ مختلف قبیلوں میں بٹ گیا۔
١٣٩٢ء تیمور کے پوتے پلیرمحمد نے ملتان پر قبضہ کر لیا اور سندھ کے تمام مغربی کناروں پر قابض ہو گیا۔ اس اثناء میں تیمور دہلی پر حملہ آور ہوا اور جاتے وقت تمام خزانے ساتھ لے گیا۔ تیمور کے حملے کے بعد ہندوستان میں مستقل حکومت قائم نہ ہو سکی۔ ڈیرہ غازی خان میں ابوالفتح لودھی کے خاندان نے سر اٹھایا۔ ابوالفتح کے خاندان کے لوگ ناہڑ، بارکھان، ہڑند، داجل، کن پور اور سیت پور کے علاقوں میں رہتے تھے۔ ان میں عیٰسی خان نے ناہڑ، کن پور اور سیت پور پر جبکہ بہادر خان نے ہڑند اور داجل کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور اپنی حکومت قائم کر لی۔ بہادر خان کی حکمرانی کے کچھ عرصہ بعد اس علاقے سے ایک شخص محمد خان اپنے خاندان کے ساتھ ٹھٹھہ چلا گیا اور والیء ٹھٹھہ کی ملازمت اختیار کر لی۔ والیء ٹھٹھہ نے محمدخان سے خوش ہو کر اس کو رانی کے علاقے کا امیر بنا دیا، اس وجہ سے اس کی اولاد امیررانی کہلانے لگی جو بعد میں مررانی کہلانے لگے۔ محمدخان کے بیٹے حاجی خان نے دریائے سندھ کے کنارے آباد علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کر لی اور اس علاقے کا حاکم بن گیا۔
حاجی خان بہت ذہین اور عقلمند آدمی تھا، اس نے اپنے تدبر اور فراست سے ہڑندوداجل سے لیکر شمال میں کالا تک کا علاقہ فتح کر لیا، حاجی خان نے ١٤٧٤ء یا ١٤٧٦ء میں اپنے نامور اور بہادر بیٹے غازی خان کے نام پر دریائے سندھ کے کنارے ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ غازی خان اول نہایت شفیق فطرت کا اور قابل حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی تھا۔ غازی خان اول نے ١٤٩٠ء اور ١٤٩٤ء کے درمیانی عرصہ میں وفات پائی۔ غازی خان اول کی وفات کے بعد اس کی اولاد چودہ پشتوں تک اس علاقے پر حکمران رہی اور حاجی خان اور غازی خان کے القاب اختیار کئے۔
حاجی خان ہفتم نے وفات کے وقت اپنے وزیر گوجر خان کے ہاتھ میں اپنے سات سالہ فرزند غازی خان ہفتم کا ہاتھ دے کر اس کی حفاظت اور پرورش کی ہدایت کی مگر اس کی وفات کے بعد گوجر خان کی نیت بدل گئی اور اس نے غازی خان ہفتم کو قید کر کے غلام شاہ کلہوڑہ کے حوالے کر دیا۔ غلام شاہ کلہوڑہ غازی خان ہفتم کو قید کر کے سندھ لے گیا جہاں غازی خان ہفتم نے غریب الوطنی میں ٦ سال کی قید کے بعد ١٣ سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس طرح گوجرخان اس علاقے کا حکمران بن گیا اور تیس برس تک اس علاقے پر حکومت کی۔
نادر شاہ دہلی فتح کرنے کے بعد ١٧٣٩ء میں ڈیرہ غازی خان آیا۔ گوجر خان نے اس کی حمایت کی، نادرشاہ نے واپسی پر گوجر خان کو جانثار کا لقب دیا اور اس علاقے کو اپنی عملداری میں شامل کر کے گوجر خان کو اس علاقے کا امیر مقرر کیا۔ ١٧٤٧ء میں نادرشاہ قتل ہوا تو پنجاب کی حکومت احمدشاہ ابدالی کے قبضے میں آئی۔ مرہٹوں نے احمدشاہ ابدالی کے بیٹے کو لاہور سے نکال کر پورے مشرقی پنجاب پر قبضہ کر لیا اور اکثر علاقے تباہ کر دیے۔ اس کے جواب میں احمدشاہ ابدالی نے پنجاب پر دوبارہ حملہ کیا اور پنجاب کو مرہٹوں سے آزاد کرا لیا۔ ١٧٦١ء میں پانی پت کی تیسری میں احمدشاہ ابدالی نے مرہٹوں کی طاقت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاش پاش کر دیا۔ واپسی پر احمدشاہ ابدالی نے داجل اور ہڑند کا سارا علاقہ والیء قلات میرنصیرخان کو دے دیا۔ کن پور اور روجھان کے علاقے سندھ میں شامل ہوگئے۔ سیتپ پور اور راجن پور کی جاگیر راجو نامی سپاہی کے حوالے ہوئی۔ اسی راجو نے راجن پور آباد کیا۔ احمدشاہ ابدالی کی وفات کے بعد سکھوں نے پنجاب میں اپنی طاقت بڑھا لی اور ١٨٦٤ء میں ملتان اور ١٨٣١ء میں ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح یہ علاقے دربارلاہور کے زیرتسلط آ گئے، سکھ آگے بلوچستان کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے تھے مگر بلوچوں نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کو ڈیرہ غازی خان سے آگے نہ بڑھنے دیا، اسی دوران ملتان میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہو گئے، سکھ ملتان کی طرف متوجہ ہوئے تو ایک مقامی سردار جس کا نام کوڑا خان تھا ڈیرہ غازی خان پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت انگریز پورے برصغیر میں چھائے ہوئے تھے۔ کوڑا خان نے یہ علاقہ انگریز عملداری میں دے دیا۔ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقوں کا الحاق ١٨٧٢ء میں ہوا۔
انگریزوں کی سوسالہ دورحکومت میں ڈیرہ غازی خان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، اس کی پہلے کی سی خوبصورتی باقی نہ رہی۔ مررانی عہدحکومت میں شہر ڈیرہ غازی خان مغربی پنجاب میں ملتان کے بعد سب سے خوبصورت شہر تھا اور صنعت وحرفت کی تجارت کا بہت بڑا مرکز تھا۔ مررانی عہدحکومت میں زراعت پر خاص توجہ دی گئی تھی اور کئی نہریں بھی کھدوائی گئی تھیں۔ شہر میں ایک قلعہ بھی تعمیر کرایا گیا، مررانی عہد کا وہ شہر ١٩١٠ء میں دریائے سندھ کی موجوں کی نظر ہوا، جس کی پیشین گوئی بہت پہلے کی گئی تھی، اس پیشین گوئی میں یہ ہدایت بھی شامل تھی کہ غازی خان اول اپنا مقبرہ موجودہ ڈیرہ غازی خان میں بنوائے کیونکہ پیشین گوئی کے مطابق نیا شہر مقبرے کے چاروں طرف پھیلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ نیا شہر چورہٹہ کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ غازی خان کا مقبرہ چورہٹہ میں آج بھی موجود ہے۔ یہ ہشت پہلو قلعہ نما مقبرہ ہے جس کی اوپر کی دو منزلیں زلزلہ کی وجہ سے گر گئی تھیں، اس مقبرے کے گردا گرد ایک فصیل بنائی گئی تھی اور ایک خوبصورت باغ بھی تھا جو کب کے ختم ہو چکے ہیں، اب اس جگہ قبرستان ہے، کبھی کبھی قبریں کھودتے وقت فصیل کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں۔ جب مقبرہ تعمیر ہوا تو تقریبا بارہ فٹ اونچا تھا مگر امتداد زمانہ کے باعث یہ چھہ فٹ کے قریب قبرستان سے نیچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فصیل کے آثار اوپر نہیں ملتے۔
موجودہ ڈیرہ غازی خان ١٩١١ء ۔ ١٩١٠ء میں آباد ہوا۔ ڈیرہ غازی خان نہ صرف محل وقوع کے لحاظ سے قلب مملکت کا درجہ رکھتا ہے۔ بلکہ آثار قدیمہ سے بھی بھرا پڑا ہے۔ اگر ان کھنڈرات کی کھدائی کی جائے تو تاریخ کے گم شدہ واقعات مل سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ڈیرہ غازی خان معدنی دولت سے بھی مالامال ہے، یہاں کوئلہ جپسم، گندھک، مٹی کا تیل، قدرتی گیس، لوہا، یورینیم، چونے کا پتھر، سرخ پتھر اور کئی قسم کی معدنیات کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں، غرضیکہ ڈیرہ غازی خان کا یہ علاقہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے قلب پاکستان کہلایا جا سکتا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

تاریخ ڈیرہ غازی خان ۔ ١ حصہ اول

اس سے پہلے یہاں ڈیرہ غازی خان کے حوالے ‘سنہرا مستقبل‘ اور ‘حضرت پیر عادل‘ کے عنوان سے لکھا جا چکا ہے، مگر اس میں کچھ باتیں تشنہ طلب تھیں اور پھر تاریخ کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھنا باقی تھا اس تحریر میں ان تمام باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ضلع ڈیرہ غازی خان اپنے محل وقوع، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھانی زبان کے ساتھ علاقائی تہذیبوں کا سنگم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی وحدت کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس کی اس حیثیت کے باوجود اس علاقے کو اب تک کی حکومتوں نے مسلسل نظرانداز کئے رکھا جس کی وجہ سے یہ ضلع اپنا صحیح مقام حاصل نہیں کر سکا اور ہر معاملے میں پسماندہ ہے، ڈیرہ غازی خان کو قومی اسمبلی میں دو تین دفعہ دارالحکومت بنانے کی تجویز پیش کی گئی، کیونکہ چاروں صوبوں کا مقام اتصال ہونے کے علاوہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے مگر افسوس کہ دارالحکومت تو بہت دور کی بات ہے اس ضلع کو اس کے جائز حقوق بھی نہیں دیئے گئے۔ اسلام آباد، آزادکشمیر اور اس کے گردونواع میں آنے والے حالیہ زلزلے کے بعد ایک بار پھر یہ افواہ زیرگردش ہے کہ ڈیرہ غازی خان کو دارالحکومت بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں مگر بات وہی ہے کہ ‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک،۔
ضلع ڈیرہ غازی خان کی عوام نے یہاں کے سیاستدانوں کو عروج تک پہنچایا، فاروق احمد خان لغاری صدارت کی سیٹ پر، ذوالفقار علی خان کھوسہ سینئروزیر پنجاب اور گورنر پنجاب کی سیٹ پر فائز رہے چکے ہیں مگر اس کے باوجود ترقی ڈیرہ غازی خان کو چھو تک نہیں گزری سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کے دور میں ڈیرہ غازی خان میں کچھ کام ہوا اس کے بعد سے اب تک ایک طویل خاموشی چھائی ہوئی ہے، جسے صدر پرویز مشرف کی روشن خیالی اور شوکت عزیز کی جدیدیت بھی دور نہ کر سکی۔
یہ تو تھا ڈیرہ غازی خان کا مختصر سا تعارف، اب آئیے ڈیرہ غازی خان کی تاریخ کی طرف۔
ڈیرہ غازی خان کی تاریخ بہت پرانی ہے، اس علاقے میں کئی سوسال پہلے کی تہذیبوں کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں، موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی طرح ڈیرہ غازی خان بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے، اس میں موجود کھنڈرات کی اگرچہ کھدائی نہیں ہوئی لیکن اوپر کی تہہ سے حاصل ہونے والی اشیاء کئی ہزار سال پہلے کی داستان سنا رہی ہیں۔
ڈیرہ غازی خان کی باقاعدہ تاریخ اور حوالہ جات سکندراعظم کے حملے سے پہلے کے زمانے کے نہیں ملتے کیونکہ آریاؤں نے یہ علاقے تباہ کر دیئے تھے سکندراعظم کے حملہء ہندوستان کے وقت اس علاقے پر داریوش نامی ہندو بادشاہ کی حکومت تھی، سکندراعظم ہندوستان میں لوٹ مار اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد اس علاقے سے گزرا، اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس نے کوٹ مٹھن کے قریب سے دریائے سندھ کو عبور کیا اور ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوا۔ ان دنوں ڈیرہ غازی خان کا علاقہ داریوش نے اپنی چہتی بیٹی نوشابہ کو دے دیا تھا، کہا جاتا ہے کہ نوشابہ سکندراعظم کی بیوی بنی۔
سکندراعظم کی واپسی کے دو سال بعد پنجاب اور سندھ میں بغاوت کر کے سکنداعظم کی حکومت ختم کر دی گئی، اس بغاوت کا روح رواں مگدہ کے راجہ کا باغی جرنیل چندرگپت موریا تھا، چندرگپت موریا اس علاقے کا حکمران بن گیا، چندرگپت کے خاندان کی حکومت اس وقت ختم ہو گئی جب حکمران کو اس کے جرنیل پشپامتر نے ١٨٨ ق م میں قتل کر دیا چندرگپت کے خاندان کے بعد تاریخی کڑیاں پھر گم ہو جاتی ہیں لیکن اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ ١٨٨ق م سے لیکر پانچویں صدی تک اس علاقے میں باختری، یونانی، پارتھین، ساکا، کشان، حیطال، ہن، گوجر، ساسانی اور مانی نام کے خاندانوں کی حکومت رہی۔ مانی خاندان کے خاتمے پر یہ علاقے ایرانی سلطنت میں شامل ہو گئے، پانچویں صدی کے آخر میں ایرانی سلطنت کمزور پڑ گئی جس کی وجہ سے یہاں رائے خاندان نے بغاوت کر کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ رائے خاندان کا پایہ تخت ایلور (اروڑ) تھا جس کے کھنڈرات آج بھی جامپور میں داجل کے قریب موجود ہیں۔ رائے خاندان کی حکومت کے وقت ملتان سے لیکر کشمیر تک کے علاقے پر چج نامی خاندان کی حکومت تھی۔ چج حاکم نے آخری رائے حکمران کی رانی سے شادی کر لی اور یوں چج اس علاقے کا حکمران بن گیا یہ واقعہ ٦٣١ء کا ہے۔ چج نے باقی تمام زندگی اس علاقے کی ترقی میں گزاری۔ چج نے اس علاقے پر چالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حکمرانی کی۔ چج کے بعد چج کا بھائی چندا اس علاقے کا حکمران بنا۔ چندا کی موت کے بعد اس کا بھتیجا اور چج کا بیٹا داہر حکمران بنا۔ داہر ایک ظالم شخص تھا۔ اس نے عربوں کا ایک جہاز لوٹ لیا، اس پر حجاج بن یوسف ثقفی نے اپنے بھتیجے عمادالدین کو داہر کی سرکوبی کے لئے بھیجا۔ عمادالدین تاریخ میں محمد بن قاسم کے نام سے مشہور ہے۔ محمد بن قاسم نے ٧١١ء میں داہر کا پایہ تخت الور فتح کر لیا، اس طرح برصغیر میں اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ محمد بن قاسم کو عبدالملک نے بلا بھیجا اور ذاتی عناد کی بنا پر قید میں ڈال دیا اور اسی قید میں ہی برصغیر میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن قاسم فوت ہو گیا۔ برصغیر میں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد چالیس برس تک سندھ اور اس علاقے کے لئے حکمران بغداد سے آتے رہے کیونکہ امیوں نے اس علاقے پر اپنی گرفت مضبوط رکھی، لیکن عباسیوں کے سلطنت کے قبضے کے بعد سندھ پر بغدادی حکومت کی گرفت کمزور پڑ گئی، کمزور نظم و نسق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں قرامطی عرب قابض ہو گئے جن کا مرکز ملتان تھا۔ جس وقت سبکتگین غزنی کا حکمران تھا اس وقت اس علاقے پر حمید لودھی کی حکومت تھی۔ حمید لودھی سبکتگین کے خلاف ملتان کی حکومت کی تمام پونجی جے پال کے حوالے کر دیتا اور اس کے ساتھ مل کر سلطنت غزنی کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے، تنگ آ کر سبکتگین نے ملتان پر حملہ کر دیا، جےپال کو شکست کا سامنا کرنا پڑااور حمیدلودھی نے خراج کے عوض صلح قبول کر لی۔ اس صلح کے نتیجے میں وہ ہر سال غزنی حکومت کو خراج دیا کرتا تھا لیکن حمیدلودھی کا پوتا ابوالفتح داؤد ہندو راجہ اننگ پال کی حمایت کرنے لگا اور دونوں مل کر محمود غزنوی کے علاقوں میں لوٹ مار مچانا شروع کر دی۔ آخر محمود غزنوی نے ملتان پر حملہ کر دیا، ابوالفتح داؤد بھاگ گیا۔ اہل شہر کو امان ملی، مگر سلطان محمود غزنوی کے حکم پر قرامطیوں کا قتل عام ہوا۔ سلطان نے ملتان کا الحاق غزنی سے کر دیا۔ محمود غزنوی کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمود حکمران بنا مگر نو سال کے بعد اسے قتل کر دیا گیا اس کے بعد سات حکمران اور بنے مگر سب یکے بعد دیگرے یا تو قتل ہوئے یا طبعی موت مر گئے۔ سلطان شہاب الدین غوری جب حمکران بنا تو اس نے دہلی فتح کر لیا اور ڈیرہ غازی خان کے علاقے کو دہلی کے ساتھ شامل کر لیا۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اے سر زمین ڈیرہ

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

اے وی پوچھی توں میتھوں کیوں گیت تیڈے گاواں
او وجہ ہے کیہری جو تیڈا ناں گہندا رانداں
توں پوچھیں یا نہ پوچھیں میڈا گلا تے کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

کہیڑی وجہ ہے آخر ول ول تیڈو تانگیداں
اے وی کڈاہیں سوچھ کیوں اداس تھی کے وینداں
توں جانڑیں یا نہ جانڑیں میں ول وی ناراض کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

اج اپنے دل دی گال تیکوں پیا ڈسیداں
اے راز بہوں ہے گہرا تیڈے اگوں کھولینداں
اتھاں رہندے میڈا دلبر جیندی مثال کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

اے ہے میڈا دلبر اے میڈا پیار ہے
اے ہے میڈی زندگی دا گہنا اے میڈے گل دا ہار ہے
ایکوں پرواہ ہے میڈی، میکوں پرواہ ہے ایندی بھل تیکوں پرواہ کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

اے حسن دا مجسمہ رب دا حسیں شاہکار ہے
اینجھا حسیں ہے جیندا حسن لازوال ہے
رب دی قسم ہے میکوں مکروفریب کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

ایں جہیاں حسین دلبر دنیا دے وچ ٹیٹھا نیئں
بے موت میں مر ویندا جو ملدا نہ اے کدائیں
اے جو ملیا ہے میکوں ہن دل وی اداس کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

طاہر جیکر جسم ہے تے اے اوندی جان ہے
جے نہ ہووے کفر تے اے اوندا دین ایمان ہے
محبت جے ہووے سچی رب وی ناراض کئیں نی

اے سر زمین ڈیرہ تیڈا جواب کئیں نی
ہر دم رہاویں توں ساوی تیڈی مثال کئیں نی

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سنہرا مستقبل

غازی خان کی دھرتی ڈیرہ غازی خان تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے مشہور رہی ہے، پندرہویں صدی عیسوی میں بلوچ قبائل نے اس دھرتی کو اپنا مستقر بنایا، ایک ممتاز بلوچی سردار میر حاجی خان میرانی نے اپنے لاڈلے بیٹے غازی خان کے نام پر، میں درائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ غازی خان کی بنیاد رکھی ،1887، میں غازی خان کا یہ ڈیرہ دریائے سندھ کے کٹاوُ کی لپیٹ میں آگیا اور اس وقت کے انگریز حاکموں نے موجودہ ڈیرہ غازی خان جو پرانے ڈیرہ سے تقریباّ 15 کلو میٹر دور مغرب میں واقع ہے بنیاد رکھی ڈیرہ کا لفظ فارسی زبان میں رہائش گاہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، بلوچی ثقافت میں ڈیرہ کو قیام گاہ کے ساتھ مہمان خانہ یا وساخ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، سرائیکی زبان میں لفظ فارسی سے آیا ہے ،
محل و قوع کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان ملک کے چاروں صوبوں کے وسط میں واقع ہے، اس کے مغرب میں کوہ سلیمان کا بلند و بالا سلسلہ ہے ، شمال میں تھل اور مشرق میں سندھ ٹھاٹھیں مار رہا ہے، روحانی حوالے سے مغرب میں حضرت سخی سرور ، شمال میں خواجہ سلیمان تونسوی اور جنوب سے شاعر حسن و جمال خواجہ غلام فرید کا روحانی فیض جاری ہے، طبقات الارض کے حوالے سے یہ خطہ پہاڑی، دامانی ، میدانی اور دریائی علاقوں پر مشتمل ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے سردیوں میں سرد اور گرمیوں میں گرم مربوط خطہ ہے
علاقے کے رہائشیوں کی اکثریت سرائیکی زبان بولتی ہے جبکہ ارد گرد کے کچھ علاقوں میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ بلوچی زبان بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے، لغاری ، کھوسہ، مزاری، دریشک ، گورچانی، کیتھران، بزدار اور قیصرانی یہاں کے تمندار ہیں ، بلوچ قبیلوں کی یہ تقسیم انگریز حکمرانوں نے کی ، انہوں نے قبائیلی سرداروں کو اختیارات دئیے ، عدلیہ کا کام جرگے نے سنبھالا جس کی نشتیں ڈیرہ غازی خان کے صحت افزا، مقام( فورٹ منرو ) جو سطع سمندر سے 6470 فٹ بلند ہے منعقد ہوتی تھیں ، انتظامیہ کے لئیے بارڈر ملٹری پولیس بنائی گئی جس کی ملازمتیں انہی نو بااثر خاندانوں میں تقسیم ہوتی ہیں ، 1950، میں ڈیرہ اور راجن پور کے تمنداروں کے مشترکہ فیصلے کے مطابق یہ علا قہ پنجاب میں شامل ہوا، سن انیس سو پچپن میں نواف آف بہاولپور اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے اضلاع ریاست بہاولپور میں شامل ہوئے لیکن بعد میں ڈیرہ اور مظفرگڑھ کے اضلاع بہاولپور سے علیحدہ کر کے ملتان ڈویژن میں شامل کئے گئے، یکم جولائی 1982،ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ ،راجن پور کے اضلاع پر مشتمل علےقے کو ڈویژن کا درجہ دیا گیا،
1900، میں بننے والے اس شہر کو منفرد اور ایک خاص نقشے کے مطابق آباد کرنے کا پروگرام بنایا گیا ، شہر کی تمام سڑکیں ، گلیاں اور چوک شرقاّ ، غرباّ اور شمالاّ جنوباّ بنائے گئے ہیں ، شہر کو 66 مختلف بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے نقشے کے مطابق ہر مکان کم از کم پانچ مرلے کا رکھا گیا ، ہر بلاک میں تقریباّ 112 پلاٹ رکھے گئے تھے لیکن اولاد اور وارثوں میں تقسیم اور خریدو فروخت کے باعث آج کل صورت حال قدرے مختلف ہے ،
ڈیرہ کی سرزمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے ارد گرد کا علاقہ سنگلاخ پہاڑوں کے باعث ناقابل کاشت ہے، علاقے کے نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رُخ کرتی ہے، تونسہ کے علاقے سے گیس اور تیل نکلتا ہے، علاقے میں یورینیم جیسی کے باعث پاکستان آج ایٹمی طاقت بن چکا ہے ، روڑہ بجری ، خاکہ اور پتھر کے تاجر کروڑوں روپے کما رہے ہیں الغازی ٹریکٹرپلانٹ پر تیار کئے گئے فیٹ ٹریکٹراور ڈی جی سیمنٹ اس علاقے کی پہچان ہے، اندرون ملک سفر کےلئے ریل ، بسوں اور ویگنوں سے ملک کے چاروں صوبوں سے رابطہ کیا جا سکتا ہے چلتن ایکسپریس کوئٹہ سے لاہور، لاہور سے کوئٹہ کےلئے براستہ ڈیرہ غازی خان چلتی ہے ، خوشحال خان خٹک ایکسپریس کراچی سے پشاور اور پشور سے کراچی براستہ ڈیرہ چلتی ہے ،
کوئٹہ روڈ پر سخی سرور سے پہلے جدید ائر پورٹ تعمیر کیا گیا ہے جہاں سے کراچی ، بہاولپور، لاہور اور اسلام آباد کے لئے پروازیں چلتی ہیں کوئٹہ روڈ پر ہی تقریباّ 75 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب کا سرد ترین تفریحی مقام فورٹ منرو ہے، شہر میں تفریحی سہولتوں کےلئے سٹی پارک ،غازی پارک، وائلڈ لائف پارک، چند کھیل کے میدان اور آرٹ کونسل ہے، بلدیہ کی لائبریری میں کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے علاقے کے لوگ بشمول خواتین تعلیم کے حصول میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں،شہر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ایلیمنٹری کالجز ہیں ، تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرز کے سخی سرور روڈ پر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنا لوجی قائم ہے، جبکہ لڑکوں اور لڑکیوں کےلئیے علیحدہ علیحدہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں ریلوے روڈ پر واقع گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، گورنمنٹ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین، گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ آف کامرس برائے خواتین ، ایگریکلچر سکول وغیرہ شامل ہیں شہر میں پرائیوٹ لا، کالجز ،پرائیویٹ ہومیو پیتھک کالج ، درجنوں کمپیوٹر کے تربیتی ادارے اور درجنوں پرائیویٹ سکول ہیں جبکہ ڈویژنل پبلک سکول اور کالج گورنمنٹ کالج انٹر کالج ،سنٹرل ماڈل سکول، گورنمنٹ کمپری ہینسو سکول،اسلامیہ ہائی سکول اور لڑکوں اور لڑکیوں کے لئیے ، گونمنٹ ہائی سکول نمبر 1،2،3 اور دیگر تمام تعلیمی ادارے شہر میں علم کے فروغ کے لئیے سرگرم عمل ہیں، جامعہ رحمانیہ اسلامیہ اور کلیتہ النبات ، للدراسات الا اسلامیہ ممتاز دینی مدارس ہیں والی بال یہاں کے لوگوں میں مقبول کھیل ہے لیکن اب کرکٹ اس کی جگہ لے رہا۔
مقامی لوگ ناشتہ میں حلوہ پوری، دوپہرکو سری پائے شوق سے کھاتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک گھروں میں ڈرائنگ روم یا بیٹھک نہیں ہوتی تھی بلکہ گھروں کے آگے یا بلاکس کے چوک میں رکھی ہوئی بڑی بڑی چارپائیاں جنہیں مقامی زبان میں ( ہماچہ ) کہتے ہیں، ڈرائنگ روم یا بیٹھک کے نعم البدل کے طور پر استعمال ہوتی تھیں جن پر بیٹھ کر رات گئے تک گپ شپ اور حال احوال کرنا مقامی لوگوں کے مزاج اور ثقافت کا حصہ ہے، مگر اب دور بدل رہا ہے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں ثقافت کو بھی نئے دور کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے چارپائی اور ہماچے کی جگہ اب ڈرائنگ رومز اور بیٹھکوں نے لے لی ہے۔
زیر زمین پانی کافی کڑوا ہے پینے کا صاف پانی ڈیرہ غازی خان کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے شہر سے کم و بیش دس کلو میٹر دور پمپ لگے ہوئے ہیں جہاں سے پانی پائپوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ پمپ اکثر خراب رہتے ہیں اور پھر پائپ لائنوں کے پھٹ جانے سے سیوریج ملا پانی پینے کو ملتا ہے۔ شہریوں کی اکثریت گندے پانی کی وجہ سے گردوں اور دیگر امراض میں مبتلا ہے۔ گیارہ اگست ٢٠٠٠ کو چیف ایگزیکٹیو پرویزمشرف نے ہینے کے صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں لاکھوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے واٹر پیور لیفیکیشن پلانٹ کا افتتاح کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کے بعد تین اور پمپس بھی چالو کئے گئے جنہیں مشرف واٹر پمپس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مگر سابقہ روایات کے مطابق محکمہ پبلک ہیلتھ، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کی عدم توجہی کی بنا پر پانی صاف کرنے کے یہ پلانٹ بے کار ہو رہے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان میں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں۔ سیوریج یہاں کا ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے جسے کسی بھی دور میں حل نہیں کیا گیا، اکثر محلوں، بلاکوں اور روڈوں پر سیوریج کا پانی کھڑا ہوتا ہے۔ چوک چورہٹہ، سجاد آباد، غریب آباد، نورنگ شاہ، مستوئی کالونی، بھٹہ کالونی، نیوماڈل ٹاؤن اورگلستان سرور کے مکین سیوریج کی وجہ سے انتہائی بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ سیوریج کا پانی اب ان کے گھروں میں داخل ہو رہا ہے۔ سابقہ ادوار میں آٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کی سڑکیں تعمیر کی گئیں کچھ ہی عرصے بعد سڑکیں ناقص میٹریل کے استعمال کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئییں، جن کی مرمتی ازحد لازمی ہے ورنہ ایک بار پھر ان کی تعمیرنو کرنی پڑے گی۔
شہر میں سرکاری ہسپتال کے علاوہ درجنوں پرائیویٹ ہسپتال موجود ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں سالانہ لاکھوں روپے کی ادویات کی خریداری کے باوجود سر درد کی گولی دستیاب نہیں ہوتی۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا سنہرا خواب اور کروڑوں روپے کی گرانٹس کے باوجود ڈیرہ غازی خان کے عوام کی تقدیر نہیں بدل سکی، اس سب کے باوجود بھی ڈیرہ کے شہری اپنے سنہرے مسقتبل اور اپنی تقدیر بدلنے کا خواب ضرور دیکھتے ہیں۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

گلی ڈانڈا


کھیل ہر زمانے میں خصوصاً بچوں میں اور جوانوں میں دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ کھیل جسمانی ورزش اور فکری قوت کو بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں۔ کھیل جہاں تفریح اور فارغ اوقات گزارنے کا ذریعہ ہیں وہاں نظم و ضبط قائم رکھنے اور قوانین پر عمل کا درس دیتے ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کھیل صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن ممالک میں کھیلوں کی ترقی اور ترویج ہو رہی ہے وہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ انہی کھیلوں میں ڈیرہ غازیخان کا ایک قدیمی اور سادہ کھیل گُلی ڈنڈا ہے۔ اس میں زیادہ اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ کھیل کھلے میدان میں پلی بنا کر کھیلا جاتا ہے۔ اس میں ایک کھیلنے والا ٹُل لگاتا ہے دوسرا گُلی کو زمین پر گرنے سے پہلے پکڑ لے تو کھیلنے والے کو کھیل ختم کر کے سامنے والے کھلاڑی کو کھیلانا پڑتا ہے۔ بعض مرتبہ اس میں تین تین کھلاڑی یا اس سے بھی زیادہ حصہ لیتے ہیں۔
جب پُلی سے گُلی کو ڈنڈے سے زور لگا کر پھینکا جاتا ہے تو سامنے والا کھلاڑی اگر اسے زمین پر گرنے سے پہلے پکڑ لے تو کھیلنے والا باہر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد کھلاڑی ڈنڈے کے ایک سرے کو ہاتھ میں پکڑ کر اور ہاتھ کے ساتھ ہی ڈنڈے پر گُلی کو رکھتا ہے، پھر گُلی کو ہوا میں اچھال کر بڑی مہارت سے اس پر ڈنڈے سے چوٹ لگاتا ہے گُلی جتنی دور جاتی ہے کھلاڑی کے جیتنے اور آگے بڑھنے کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے ہیں پھر پُلی اور گُلی کا درمیانی فاصلہ ان لفظوں میں ناپا جاتا ہے، بریکٹ، لائین، نون، آر، وائی، جھگ، اگر بریکٹ کے اوپر گُلی پر ڈنڈا آ جائے تو باری ختم ہو جاتی ہے۔ اگر بریکٹ پر کچھ فاصلہ آ جائے تو کھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اگر جھگ آنے کے بعد بھی تھوڑا سا فاصلہ رہ جائے تو کھلاڑی کو ایک بونس مل جاتا ہے۔ چھٹی کے روز یا میلوں ٹھیلوں پر یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ بچے، جوان اور بوڑھے ان مقابلوں کو بڑے اشتیاق سے دیکھنے آتے ہیں۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے قرعہ اندازی کی جاتی ہے کہ کون سی ٹیم پہلے کھیلے گی۔ ہر کھلاڑی جب آؤٹ ہوئے بغیر آگے بڑھتا ہے تو یہ اس کی مہارت کا ثبوت ہوتا ہے۔
گُلی ڈنڈے کے کھیل کو مزید دلچسپ بنانے کے لئے یہ بھی کیا جاتا ہے کہ گُلی کے دونوں سرے باریک کر دیئے جاتے ہیں اور پھر اسے ہموار سطح پر رکھ کر ڈنڈا گُلی کے باریک سرے پر زور سے مارا جاتا ہے جس سے گُلی بہت اوپر تک ہوا میں اچھلتی ہے اس وقت کھلاڑی کی مہارت اور چابکدستی کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ گُلی کو زمین پر گرنے سے پہلے پوری قوت سے ڈندا مار کر دور پھینک دیتا ہے۔ اگر مخالف کھلاڑی گُلی کو ہوا میں نہ پکڑ سکے تو کھلاڑی کو پھر موقع دیا جاتا ہے وہ پھر گُلی کو اچھال کر اپنی قوت کا مظاہرہ کرتا ہے اس میں وقت کا تعین نہیں ہوتا جو کھلاڑی جتنا جم کر کھڑا رہے مخالف ٹیم کو کھلانے پر مجبور رکھتا ہے۔ گُلی ڈنڈے کی جدید شکل میں کرکٹ آجکل مقبول ترین کھیل ہے۔ مختصر یہ کہ دوسرے کھیلوں کی طرح گُلی ڈندا بھی صحت مند مشاغل میں شامل ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

بلاگر حلقہ احباب