10 September, 2005

ڈاکٹرشازیہ کا پہلا وڈیو انٹرویو

BBC URDU


ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس کئی ماہ تک پاکستانی اورعالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا۔ یہ کیس پاکستانی فوج اور بلوچ قوم پرستوں کے درمیان ہونے والے تنازعے کا بھی مرکز رہا جس میں کئی افراد ہلاک بھی ہوئے اور یہ معاملہ ابھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا۔
لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر شازیہ کی کہانی ہمیشہ ادھوری ہی بتائی گئی۔ ان سے پہلے ایسی زیادتی کا شکار ہونے والی بہت سے عورتوں کی طرح ڈاکٹر شازیہ خالد کی کہانی بھی اس سارے معاملے میں کہیں دب سی گئی۔ انہیں بھی دوسری عورتوں کی طرح ابھی تک انصاف نہیں ملا لیکن انہوں نے بھی بہت سی دوسری عورتوں کی طرح انصاف کے حصول کے لئے ہمت نہیں ہاری۔ اور انہیں بظاہر اپنے آپ کو ’مزید شرمندگی‘ سے بچنے کے لئے ملک چھوڑنا پڑا۔
خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کی طرف سے بیانات آتے رہے اور میڈیا میں اس کیس کی کوریج اس وقت تک جاری رہی جب تک ڈاکٹر شازیہ پاکستان میں رہیں۔ ڈاکٹر شازیہ کے ملک چھوڑنے کے بعد پاکستانی میڈیا سے تو ان کی ’سٹوری‘ غائب ہوگئی لیکن شائد خود ڈاکٹر شازیہ اور ان کے شوہر کو ہر روز اس اذیت سے گزرنا پڑتا ہے جس کا وہ شکار ہوئے۔
ڈاکٹر شازیہ اور ان کے شوہر نے اس پہلے خصوصی وڈیو انٹرویو میں پہلی مرتبہ اس پورے واقعے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر شازیہ کی کہانی ایسی دیگر کہانیوں سے مختلف نہیں۔ ایک عورت زیادتی کا نشانہ بنی جسے انصاف کی تلاش ہے اور اسے زیادتی کا نشانہ بنانے والے کو مبینہ طور پر تحفظ دیا جارہا ہے اور ریاست اپنے ہی عمل کی بد صورتی کو چھپانے میں مصروف ہے۔
لندن میں پناہ حاصل کرنے کے دیگر خواہشمندوں کی طرح ڈاکٹر شازیہ اور ان کے شوہر ایک غریب علاقے میں ایک بہت ہی چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ ان کی کل آمدنی برطانوی سرکار سے پناہ گزینوں کو ملنے والی تیس پاؤنڈ فی ہفتہ کی رقم ہے کیونکہ وہ اس وقت تک کام نہیں کرسکتے جب تک ان کی پناہ کی درخواست منظور نہ ہوجائے۔ ’بے روز اور بے مددگار ہوگئے ہیں ہم ، جلا وطن ہوگئے ہیں، میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرے ساتھ بھی یہ ہوسکتا ہے۔‘
مارچ میں ڈاکٹر شازیہ کے برطانیہ آنے کے بعد سے ان کے مطابق حکومت پاکستان نے ان سے بالکل کوئی رابطہ نہیں کیا اور کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کی۔ ڈاکٹر شازیہ اب ہر ہفتے تھیریپی کے لئے کلینک جاتی ہیں جس سے ان کے مطابق انہیں بہت فائدہ ہورہا ہے۔
’victim
سے survivor بنی ہوں میں۔ مگر ظاہر ہے ابھی بھی سوچتی ہوں کہ یہ میں ہوں؟ جو میں آپ سے بول رہی ہوں مجھے اچھا تو نہیں لگ رہا مگر کیا کروں؟ ابھی ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگے گا میرے زخم اتنے گہرے جو ہیں۔‘ جب میں ان کے گھر سے واپس جارہی تھی تو ڈاکٹر شازیہ کے شوہر نے مجھ سے کہا ’آپ کتنی خوش قسمت ہیں۔ کل پاکستان واپس جارہی ہیں۔‘
بلوچستان
کے علاقے سوئی میں مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والی ڈاکٹر شازیہ خالد کا یہ پہلا تفصیلی وڈیو انٹرویو صحافی منیزے جہانگیر نے خصوصی طور پر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے لیے کیا ہے۔

1 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

ڈاکٹر شازیہ کی طرح کئی اور عورتیں اس بد قسمتی کا نشانہ بن چکی ہیں اور پچھلے چند سالوں میں ایسے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ اس کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں ہم سب ہیں کیونکہ ہم میں سے کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ فیصلہ کر لے کہ آج کے بعد وہ صرف اللہ سے ڈرے گا ۔ ہم لوگ کوتاہ اندیش ہیں اور چھوٹے چھوٹے جزو وقتی فائدوں کے لئے اپنی زبان اور اپنا ایمان بیچتے ہیں ۔ جب تک ہم کردار کے مسلمان نہیں بنیں گے صرف کہانیاں لکھتے اور پڑھتے رہیں گے ۔

9/11/2005 11:54:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب