کچھ پالیسیاں پاکستان کے مفاد کے خلاف بھی!
پاکستان پوری دنیا میں واحد ایک ایسا ملک ہے جہاں کے حکمرانوں میں وطن کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، ہمارے یہ حکمران سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد تو اس محبت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ نائن الیون کے بعد صدر بش نے فون کیا اور اپنے مطالبات پیش کیے، بش انتظامیہ کو یہ غلط فہمی تھی کہ ان مطالبات میں سے کچھ مانے جائیں گے مگر ہمارے حکمرانوں کی حب الوطنی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ ان کو رد کریں لہذا پاکستان کے بہترین مفاد میں سب مطالبات مان لئے گئے۔
نائن الیون کی رات سو کر اٹھے تو صبح پتہ چلا کہ روس کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں کرنے والے مجاہدیں دہشت گرد ہیں، چونکہ ہمارے حکمرانوں نے تو کبھی اپنے ذاتی نفع نقصان کا تو سوچا ہی نہیں، اپنے ذاتی مفاد کو ہمیشہ قومی مفاد پر ترجیح دی اس لئے ہمیشہ ہر فیصلہ پاکستان کے بہترین مفاد میں کیا کیونکہ “ سب سے پہلے پاکستان “
ایک منتخب وزیراعظم کو جلا وطن کر دیا گیا، اپنے ہی نامزد کردہ وزیراعظم کو واپس گھر بھیج دیا گیا، چند دنوں کے لئے ایک وزیراعظم کو منتخب کر کے پھر اس کی جگہ ایک اور وزیراعظم کو لایا گیا۔ پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا، افراط زر کی شرح میں بے پناہ اضافہ کیا گیا، اسرائیل سے رابطہ کیا گیا، یہودیوں کی سب سے بڑی تنظیم سے خطاب کیا گیا، ابھی کچھ دن پہلے یہ نسخہ کیمیا بتایا گیا کہ “ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں یا آپ کو کیینڈا کا ویزا اور شہریت چاہیے اور آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو خود کو ریپ کروالیں“ یہ سب بھی پاکستان کے بہترین قومی مفاد میں کہا گیا، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارے صدر صاحب کے ذہن کی عکاسی ہے یا متذکرہ تمام فیصلوں میں کسی کا کوئی ذاتی مفاد تھا تو یہ اس کی بدگمانی اور ند نیتی ہے۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بہت کچھ صرف اور صرف قومی مفاد میں کیا گیا اور اللہ جانے یہ سلسلہ کب تک اور کتنا دراز ہو گا۔ سو اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد اور مدعا صرف اتنا ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں آپ کی پالیسیاں تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں اب خدارا کچھ مشورے، کچھ فیصلے، کچھ پالیسیاں ایسی بھی بنائیں جو ملک کے مفاد میں نہ ہو، ایسی پالیسیاں بنائیں جو پاکستان کے خلاف ہوں، مگر افسوس صد افسوس کہ میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارے حکمران تو ملک کی محبت میں اندھے ہو چکے ہیں اور یہ کبھی بھی اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح نہیں دیں گے۔
نائن الیون کی رات سو کر اٹھے تو صبح پتہ چلا کہ روس کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں کرنے والے مجاہدیں دہشت گرد ہیں، چونکہ ہمارے حکمرانوں نے تو کبھی اپنے ذاتی نفع نقصان کا تو سوچا ہی نہیں، اپنے ذاتی مفاد کو ہمیشہ قومی مفاد پر ترجیح دی اس لئے ہمیشہ ہر فیصلہ پاکستان کے بہترین مفاد میں کیا کیونکہ “ سب سے پہلے پاکستان “
ایک منتخب وزیراعظم کو جلا وطن کر دیا گیا، اپنے ہی نامزد کردہ وزیراعظم کو واپس گھر بھیج دیا گیا، چند دنوں کے لئے ایک وزیراعظم کو منتخب کر کے پھر اس کی جگہ ایک اور وزیراعظم کو لایا گیا۔ پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا گیا، افراط زر کی شرح میں بے پناہ اضافہ کیا گیا، اسرائیل سے رابطہ کیا گیا، یہودیوں کی سب سے بڑی تنظیم سے خطاب کیا گیا، ابھی کچھ دن پہلے یہ نسخہ کیمیا بتایا گیا کہ “ اگر آپ باہر جانا چاہتے ہیں یا آپ کو کیینڈا کا ویزا اور شہریت چاہیے اور آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو خود کو ریپ کروالیں“ یہ سب بھی پاکستان کے بہترین قومی مفاد میں کہا گیا، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارے صدر صاحب کے ذہن کی عکاسی ہے یا متذکرہ تمام فیصلوں میں کسی کا کوئی ذاتی مفاد تھا تو یہ اس کی بدگمانی اور ند نیتی ہے۔ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ بہت کچھ صرف اور صرف قومی مفاد میں کیا گیا اور اللہ جانے یہ سلسلہ کب تک اور کتنا دراز ہو گا۔ سو اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد اور مدعا صرف اتنا ہے کہ ملک کے بہترین مفاد میں آپ کی پالیسیاں تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں اب خدارا کچھ مشورے، کچھ فیصلے، کچھ پالیسیاں ایسی بھی بنائیں جو ملک کے مفاد میں نہ ہو، ایسی پالیسیاں بنائیں جو پاکستان کے خلاف ہوں، مگر افسوس صد افسوس کہ میری یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمارے حکمران تو ملک کی محبت میں اندھے ہو چکے ہیں اور یہ کبھی بھی اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح نہیں دیں گے۔
3 comments:
موجودہ وزیراعظم کراچی کا پڑھا ہوا ہے البتہ امریکہ کا پروردہ ہے اور سندھ کے گورنر کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے ۔
9/23/2005 03:07:00 PMیہ رانا صاحب نمعلوم شیر آیا شیر آیا کیوں کرتے رہتے ہیں ۔
خوب!!!
9/23/2005 09:23:00 PMرانا صاحب تعریف کا شکریہ ۔ آخر لکھنا بھی تو ہے اور پھر بلاگ کا مقصد کیا ہے ؟ یہی نا کہ اپنی سوچ کو یہاں رقم کرتے رہیں۔
9/29/2005 02:41:00 AMافتخار اجمل صاحب آپ نے بلکل بجا فرمایا، رہی رانا صاحب کی بات تو معلوم نہیں یہ کیوں ڈرے ڈرے رہتے ہیں، اوپر سے ان کو غصہ بھی بہت آتا ہے۔ اب میں کیا کہوں آپ خود ہی کچھ نصیحت فرمائیے! آخر بزرگ کس کام آئیں گے۔
شعیب صفدر صاحب آپ کا بہت شکریہ “ خوب “ کہنے کا ۔ اتنا بھی بہت ہے، شکریہ، عنایت، مہربانی، نوازش
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔