29 September, 2005

کیا رادھا ناچے گی ؟

ہر خزاں اور بہار میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اجلاس ہوتے ہیں جن میں دنیا بھر کے معیشتیں چلانے والے واشنگٹن کا طواف کرتے ہیں۔ کچھ سال ادھر بلکہ نائن الیون سے قبل پاکستان کے معاشی شاہ سوار شرمندہ شرمندہ اور گردنیں جھکائے ہوئے ان اجتماعات میں شامل ہوتے تھے لیکن اب تو پاکستان کی معاشی ٹیم دلی سے آنے والے محاورے کے پانچ سواروں جیسے طمطراق سے وائٹ ہاؤس کے پڑوس کی عمارتوں میں داخل ہوتی ہے۔
آج کل اسلام آباد کے پانچوں معاشی سواروں کی گردنیں اور بھی اکڑی ہوئی نظر آتی ہیں کیونکہ ان کے مربی پینٹاگون کے سابقہ ’وزیر جنگ‘ پال ولفووٹز، ورلڈ بینک کے صدر ہو گئے ہیں۔ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔ نیو کان (نئے قدامت پرست) گروہ کے رہنما کو ورلڈ بینک بھیجا ہی اس لئے گیا ہے کہ بش کے سجنوں اور سجنیوں کو نواز سکیں۔ اس لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر میں نو دفعہ پاکستان کا ذکر خیر کیااس بات کو ایک پاکستانی سوار نے اپنی کامیابی کا ثبوت قرار دیا۔
وہ کیا اور ان کی تعریف کیا کہ وہ اس صدر بش کے نمائندے ہیں جو بقول نیویارک ٹائمز کے کالمسٹ تھامس فریڈمین کے اپنے برباد شہروں کو آباد کرنےکے لئے چین سے قرضہ لینے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔
ہم نے سوچا کہ وزیر اعظم کے مشیر سلمان شاہ اور سٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کی رہنمائی میں آنے والے پانچوں سواروں ِ کے نئے پرانے دعوے سنیں لیکن اس سے بہتر یہ ہوگا کہ پہلے ان سے بات کر لی جائے جن کے ہاتھ میں ان کی کنجی ہے یعنی ورلڈ بینک کے ان لوگوں سے جو پاکستان کی معیشیت کے بین الاقوامی رکھوالے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہ کام پردہ نشینی میں ہی ہو سکتا ہے اور پردہ نشین یا نشینوں کا نام نہیں لیا جا سکتا۔
لہذا قارئین ہم اپنی باتیں نام نہاد ماہر کے نام پر لگا کر نہیں کر رہے بلکہ ذیل کی باتیں ایک اصلی اور’وڈھے‘ ماہر کی ہیں۔ ہمارے پردہ نشین ماہر بھی پاکستان کی معاشی ترقی کے معترف ہیں لیکن اس ترقی کو جاری رکھنے کے لئے جو شرائط انہوں نے پیش کیں اس سے ہمیں تو یہی اندازہ ہوا کہ خوشحال مستقبل کے لئے پاکستان نو من تیل کا بندوبست کرے تاکہ معیشت کی رادھا بیگم ناچ سکیں۔ یعنی نہ نو من تیل ہو گا اور نہ ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ ہم نو من تیل تک پہنچیں پہلے پاکستان میں معیشت کی حالیہ کامیابی پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔ ماہرین سے بات کرنے کے بعد ہمیں جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ترقی دینے کے لئے جو طریقہ اپنایا گیا وہ یہ تھا کہ کھائی پر ر کرنے کے لئے گڑھا کھودا جائے اور پھر اس گڑھے کو پر کرنے کے لئے ایک اور گڑھا۔۔۔ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان کسی بھی طرح ترقی کے راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے مجبوراً حکومت کو کرنسی چھاپ کر اور لوگوں کو دائیں بائیں ادھار دے کر، کاریں، فرجیں اور رئیل اسٹیٹ خریدوا کر ترقی کی شرح بڑھانا پڑی ۔یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی اور حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال ترقی کی شرح سات اعشاریہ چار فیصد ہے۔ چنانچہ معاشی تنزل کی کھائی سے نکلنے کے لئے کرنسی چھاپنے کا گڑھا کھودا گیا۔ حسب توقع یہ گڑھا افراط زر کی صورت میں گہرا ہوتا گیا ہے۔ خود حکومت کے اپنے گھٹائے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق بھی چند ماہ پیشتر افراط زر کی شرح گیارہ فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ اس افراط زر کے گڑھے کو بھرنے کے لئے درآمدات میں اندھا دھند اضافہ کیا گیا تاکہ ملک میں اشیاء وافر ہوں اور قیمتیں اوپر نہ جائیں۔ ہندوستان سے آلو، لہسن، پیاز اور گائیں اسی گڑھے کو پر کرنے کے لئے درآمد کی گئی ہیں۔ اور پھر اور درآمدات کا کھڈا بھرتے بھرتے تجارت کا خسارہ ایک سال میں تین بلین ڈالر سے بڑھ کر چھ بلین ڈالر ہو گیا ہے۔ پاکستان کے لئے چھ بلین سالانہ کا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے اور حکومت کے نام نہاد فارن کرنسی ریزرو بہت جلدی ختم ہو سکتا ہے۔ ہمارے پردہ نشین ماہر کہتے ہیں کہ ابھی پاکستان کو بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسانی جنس یعنی تارکین وطن سے چار بلین ڈالر آہی جاتے ہیں۔
امریکہ بھی ہرسال ایک بلین ڈالر سے زیادہ امداد دے رہا ہے اور پھر ادھر ادھر سے ادھار بھی مل رہا ہے۔ لہذا چھ بلین ڈالر کا شاہانہ بل ادا ہو سکتا ہے۔ یقین کیجئے ضیاء الحق کے زمانے میں بھی آئی ایم ایف کےایک رکھوالے نے ہمیں یہی دلیلیں دی تھیں اور جب تک پاکستان کنگلا ہوا تھا وہ صاحب ریٹائر ہو چکے تھے۔ ہمارے پردہ نشین کے ریٹائر ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں ہے۔
ہمارے ماہر یہ بات بھی کہتے ہیں کہ اب پاکستان نے کرنسی چھاپ کر ترقی کرنا بند کردیا ہے اور اب ادھار کی مارکیٹ کی طنابیں کسی جا رہی ہیں، تجارت کا خـسارہ کم کرنے کے لئے بھی کافی دوڑ دھوپ ہو رہی ہے۔ لہذا اب افراط زر گھٹ کر آٹھ فیصد کے قریب آگیا ہے۔ وہ یہ بات بتانا بھول گئے گہ اسی لئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے سال ترقی کی رفتار ایک فیصد کم ہو جائے گی۔ گویا کہ مزید گڑھے کھودنے کی گنجائش نہیں بچے گی۔ ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ اس گڑھا کھائی کے پھیر سے کیسے نکلا جائے پردہ نشین ماہر کہتے ہیں کہ پاکستان کو اب کرنسی کے ذریعے ترقی کی بجائے بجٹ کا ہتھیار استعمال کرنا چاہئیے۔ یعنی حکومت معاشی انفراسٹرکچر (ذرائع نقل و حمل، پلوں، ایرپورٹوں، بندرگاہوں بجلی ،ٹیلیفون کا نظام) پر بجٹ کا بہت سا حصہ خرچ کرے تاکہ پاکستان میں پیداوار بڑھے اور افراط زر اور تجارت کے خسارے جیسی وباؤں سے نجات ملے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرنسی کے بل پر ہونے والی معاشی ترقی کا صرف امیروں کو فائدہ ہوا ہے، امیر غریب کا فرق بہت بڑھا ہے ، لہذا حکومت کو اس طرف بھی توجہ کرنا ہوگی۔ ماہر موصوف نے پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے جو نسخہ بتایا ہے وہ نو من تیل والا ہے۔ وہ خود بھی مانتے ہیں کہ ان کو نہیں لگتا کہ پاکستان کے معاشی رکھوالے اس طرح کا نسخہ آزمانے کے لئے تیار ہیں۔ لہذا رادھا کے ناچنے کے امکانات ناپید ہوں گے۔ لیکن ان کو کیا کہ وہ کہیں چین آرام سے پڑے گنگنا رہے ہوں گے ’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک’۔

ذریعہ ۔ بی بی سی اردو

1 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

ہم لوگ ملک کيساتھ جب مخلص ہي نہيں تو پھر ملک کي فکر کيوں کريں۔ پہلے بھي عاضي بندوبست ہوتے تھے اور اب بھي عارضي بندوبست ہو رہے ہيں۔ حکومت کے اصل کارنامے حکومت کے جانے کے بعد منظرِعام پر آئيں گے۔

9/29/2005 02:55:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب