23 November, 2005

پاکستانی سیاست کے چمچے‘ لوٹے اور خوشامدی کلچر

جناب حیدر علی صاحب کی یہ تحریر بھی غور سے پڑھیے اور اپنی رائے سے آگاہ کیجیئے۔

مبالغہ آمیز تعظیم، مدح اور لایعنی قصیدہ گوئی شرک کا پہلا دیابچہ ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و‌سلم نے خوشامد [*] کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ بعض روایات میں خوشامدی کے منہ میں مٹی ڈالنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے۔ ہادی‌ٴ عالم صلی اللہ علیہ و‌سلم نے اس نکتہ کا بڑا خیال رکھا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام والی مثال اکثر پیش نظر رکھی، ایک موقع پر ارشاد فرمایا ‘میری اس قدر (مبالغہ آمیز) مدح نہ کیا کرو جس قدر نصارٰی ابن مریم کی کرتے ہیں، میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا فرستادہ ہوں‘ (صحیح بخاری)
ہمارا دین خوشامد اور چاپلوسی کی مذمت کرتا ہے۔ برصغیر میں مغلیہ دور حکومت میں اس فن نے زبردست ترقی کی۔ اکبر بادشاہ کی اس قدر قصیدہ گوئی کی گئی کہ وہ بدبخت دین اسلام کی اساس پر کلہاڑہ چلانے لگا اور بدمست ہوکر کلمہ طیبہ میں ترمیم کرنے کی جسارت کربیٹھا۔ اس کے بعد جہانگیر اور شاہ جہاں کے دربار بھی مسخروں اور قصیدہ خوانوں سے بھرے رہے۔ پھر مغل حمومت زوال کا شکار ہوئی، قصیدہ خوانوں نے نۓ حکمرانوں کی تعریفوں میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیۓ۔ انگریز حکمرانوں کو عادل ہونے کے سرٹیفیکیٹ عطا ہوۓ۔ برصغیر آزاد ہوا تو اس قماش کے لوگوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ یہ ہر آنے والے کے گن گاتے اور جانے والے کی طعن وتشنیع کرتے۔ سکندر مرزا کو جناح ثانی قرار دیا گیا۔ ایوب خان کو ایشیا کا ڈیگال قرار دیا گیا۔ ایوب خان کی رخصتی کے بعد قصیدہ گو شاعروں اور طوطا چسم سیاستدانوں نے دنیا کی ہر خرابی ابوب خان کے اندر ڈال دی۔ پھر یحیٰی خان کو مدبر قرار دیا گیا۔ ذولفقار علی بھٹو کو قائد عوام اور فخر ایشیا قرار دیا گیا۔ یہ القاب دینے والے بھٹو صاحب کی موت کے بعد ان کے بڑے ناقدین بن گۓ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کو امیر المؤمنین [اور مرد مؤمن، مرد حق] قرار دیا گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے گن گاۓ گۓ۔ بینظیر بھٹو کے گن گانے والوں کی اکثریت آج بھی ان کی پارٹی میں موجود ہے۔ نواز شریف صاحب کے کچھ درباریوں کو آج نیا آستانہ میسر آگیا ہے۔
١٢ (بارہ) اکتوبر ١٩٩٩ء تک چودھری شجات حسین، چودھری پرویز الٰہی، شیخ رشید احمد، رانا نذیر احمد، جاوید ہاشمی، گوہر ایوب خان اور چودھری نثار علی خان [وغیرہ] میاں صاحب کے قصیدہ خواں تھے۔ چودھری شجات مرکزی وزیر داخلہ تھے اور چودھری پرویز پنجاب اسمبلی کے اسپیکر۔ مرکزی اور صوبائی بیوروکریسی خصوصاً پولیس چودھری برادران کی زیر کمان تھی۔ نواز شریف کی مہربانیوں سے چودھری برادران کے کارخانے شاہراہ ترقی پر تیز رفتاری سے گامزن تھے۔ میاں صاحب کی گاڑی کو گجرات میں کندھوں پر اٹھایا گیا۔ ١٩٩٣ء کے انتخابات میں بری طرح پٹنے کے بعد میاں صاحب کی مہربانی سے یہ لوگ ١٩٩٧ء کا انتخاب جیت سکے تھے۔ ان حضرات نے میاں نواز شریف کو دور حاضر کا شیر شاہ سوری قرار دیا تھا۔ گوہر ایوب خان نے تو اپنے آبائی شہر ہری پور کا نام ‘نواز شریف سٹی‘ رکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوۓ ٩ اکتوبر ٩٨ء کے دن دو سینئر لیفٹننٹ جنرل (علی قلی خان اور خالد نواز) سپرسیڈ کۓ اور تیسرے نمبر سے اٹھا کر جنرل پرویز صاحب کو آرمی چیف بنایا۔ جنرل پرویز صاحب نے شروع شروع میں اپنے حلف کی پاسداری کی ‘میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا اور ١٩٧٣ء کے آئین کی مکمل حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے،۔ پھر ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ء کی شام جب نواز شریف کے حواری ان کے گن گا رہے تھے، جنرل پرویز مشرف نے اپنے حلف کو ردی کی ٹوکری میں پھنک دیا، اپنے محسن کو ہتھکڑی لگوائی، اس کے بھائی اور بیٹے کو پابند سلاسل کیا۔ پھر موصوف کی نیب حرکت میں آگئی۔ میاں صاحب کے حواری کھسکنے لگے۔ عمر بھر دوستی نبھانے والے جنرل پرویز صاحب کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہوگۓ۔ وفاداریاں بدلنے کے نۓ ریکارڈ قائم ہوۓ۔ چودھری برادران، شیخ رشید، رانا نذیر، گوہر ایوب اور مرحوم لالیکا اب اپنے سابق محسن کے خلاف گرجنے برسنے لگے۔ جو شخص میاں صاحب کے انتخابی نشان ‘شیر‘ پر فخر کرتا تھا اس نے جنرل صاحب کی میڈیا مینجری سنبھال لی۔ چاپلوسی کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ شاید فیضی کی روح بھی شرما جاۓ۔
اب چودھری پرویز الٰہی صاحب نے فرمایا ہے کہ صدر پرویز صاحب قوم کے دلوں میں بستے ہیں، ان جیسا کوئی آیا ہے نہ آۓ گا۔ (استغفر اللہ) چودھری صاحب نے اعلٰی انسانی اقدار پر کلہاڑہ چلایا ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یہ پختہ ایمان ہے کہ کائنات ارضی وسماوی میں صرف ہادیٴ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس صفت سے متصف ہیں۔ باقی کسی شخصیت کے بارے میں ایسے گمراہ کن نعرے انسان کو کفر کے نزدیک کردیتے ہیں۔ ١٢ اکتوبر ٩٩ء سے لے کر آج تک جو کچھ ہمارے غریب عوام پر بیت چکی ہے، اس تناظر میں واقعی جنرل صاحب عوام کے دلوں میں بستے ہیں؟ حالیہ دو ہفتوں میں آٹا، لوہا، پیٹرول اور گوشت کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس نے جنرل صاحب کی مقبولیت کو چار چاند لگادیۓ ہیں۔ بادی النظر میں جنرل پرویز صاحب کے مندرجہ ذیل اقدامات کس طرح چودھری پرویز صاحب کی نظروں سے محو ہوگۓ ہیں؛
١) آئینی اور قانونی حکومت کو بزور بندوق برطرف کرنا، وزیر اعظم کو ہتھکڑیاں لگانا، جذبہ انتقام کی شدت میں وزیر اعظم کے کم سن بیٹے کو قید کرنا۔
٢) شریف اور بزرگ صدر کی توہین کرنا اور ذلت آمیز طریقے سے صدر کو نکالنا اور بغیر قانونی، اخلاقی جواز کے صدر کا عہدہ سنبھالنا، پھر نام نہاد ریفرینڈم پر اربوں کا سرمایہ ضائع کرکے صرف دو فیصد ووٹ حاصل کرکے ٥٧ فیصد ڈکلیئر کرنا۔

٣) افغانستان کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو امریکی درندوں سے قتل کروانا پھر ہادیٴ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے امتیوں کو پکڑ پکڑ کر امریکی بھیڑیوں کے حوالے کرنا۔
٤) یہود ونصارٰی کی پرزور امداد کرنا اور ملکی فضائی اڈوں پر کفار کے جہازوں کو سہولتیں فراہم کرنا تاکہ وہ اڑ کر افغان مسلمانوں پر بمباری کرسکیں۔ قندھار کی جامع مسجد میں شہید ہونے والے ٣٠٠ نمازیوں کے قتل کی براہ راست ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
٥) علمی فرعون کی ہر خواہش کی تکمیل کرنا یہاں تک کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شوشہ چھوڑ کر ڈیوس میں یہودی سے مصافحہ کرنا۔
٦) قابل فخر اور بہادر مسلم افواج کو راسخ العقیدہ مسلمانوں کے خلاف قبائلی علاقوں میں لانچ کرکے عوام اور فوج کے درمیان خلیج حائل کرنا۔

یوں تو جنرل صاحب کے کارناموں کیلۓ پوری ایک کتاب بھی کافی نہیں ہوگی۔ تاہم اگر چودھری پرویز الٰہی کے بیان پر غور کیا جاۓ تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ہماری سیاست ایک دلدل ہے اور قصیدہ گوئی اس کا ایک جزو لا ینفک۔ کاش آج ہم سوچ لیں کہ کل ہم نے روز جزاء اس کے حضور پیش ہونا ہے، وہاں فرعون ونمرود بھی اپنے درباریوں کے ہمراہ کھڑے ہوں گے، آج کا فرعون اور اس کے حواری بھی حاضر ہوں گے، وہیں تورا بورا، دشت لیلٰی، جلال آباد اور قندھار کی جامع مسجد کے شہداء بھی حاضر ہوں گے، وہیں ہم سب حاضر ہوں گے۔ اگر وہاں ملا محمد عمر اور شیخ اسامہ بن لادن کے علاوہ نہتے بے گناہ افغان شہداء نے ہماری مہیا کی گئی لاجسٹک سپورٹ کے خلاف استغاثہ دائر کردیا کہ یا قہار وجبار! پوچھ ان سے ہم نے کون سا گناہ کیا تھا کہ انہوں نے ہمیں یہود ونصارٰی کے سرخیل امریکی درندوں کے حوالے کردیا تھا؟ یا احکم الحاکمین! پوچھ ان سے کے ویگن میں سوار ١٣ بے گناہوں نے کون سا جرم کیا تھا کہ انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا؟
حیدر علی روزنامہ اسلام

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب