13 December, 2005

خبر ہے گرم

جسے اللہ رکھے
زلزلے کے ٦٤ دن بعد ایک ٤٠ سالہ خاتون کو کمسر نامی کیمپ کے علاقہ میں ملبہ سے زندہ نکال لیا گیا ہے۔ زلزلے کے اتنے طویل عرصہ بعد کسی کا ملبہ سے زندہ ملنے کا یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے۔ یہ خاتون ملبہ کے سوراخوں سے اندر آنے والے پانی اور وہاں پہلے سے موجود کچھ خوراک کے سہارے زندہ رہی۔
زلزلہ ذدگان کی امداد پارلیمنٹ ہاؤس میں تقسیم
زلزلہ زدگان کے لئے گرم کپڑوں کا ٹرک متاثرہ علاقوں کی بجائے پارلیمنٹ ہاؤس کی کار پارکنگ میں خالی کیا گیا اور امدادی کپڑے متاثرین کے بجائے سرکاری ملازمین نے اٹھا لیے۔ جمعرات کو پارلیمینٹ کی کار پارکنگ میں ان گرم کپڑوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا اور ان استعمال شدہ کپڑوں سے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے کئی ملازمین اپنی پسند کی چیزیں تلاش کرتے نظر آئے۔ دو ملازمین نے ان کپڑوں کی بوریاں بھری ہوئیں تھیں جبکہ کچھ نے گٹھڑیاں باندھی ہوئیں تھیں اور اپنے گھر لے جارہے تھے۔ ان سے جب پوچھا کہ یہ زلزلہ زدگان کا امدادی سامان ہے اور وہ کیوں لے رہے ہیں تو محمد امین نے کہا کہ ’ہم بھی غریب ہیں اور ہمارا بھی حق ہے‘۔
بوریاں بھر کر جانے والوں نے تصویر بنانے سے روکا۔ انہوں نے نام بتانے سے بھی گریز کیا اور شرماتے ہوئے بوری کندھے پر اٹھائی اور چل دیے۔ زلزلہ زدگان کے لیے لائے گئے گرم کپڑوں کے اس ڈھیر سے جب مختلف ملازمین کپڑے چن رہے تھے اور کچھ لوگ کپڑے لے جا رہے تھے تو اس وقت قریب میں دو پولیس اہلکار بھی موجود تھے جو کار پارکنگ میں ڈیوٹی کرتے ہیں۔
زلزلہ زدگان کے لیے جمع کیے گئے گرم کپڑے پارلیمان کی کار پارکنگ میں اتارنے اور متاثرین کے بجائے ملازمین کی طرف سے لے جانا امدادی سامان کے غلط استعمال کی اپنی نوعیت کی انوکھی مثال ہے۔
نژاد کے اسرائیل مخالف بیان
او آئی سی کے اجلس میں شرکت کےلیئے سعودی عرب کے دورے پر ایرانی صدر کے اسرائیل مخالف پر اسرائیل سمیت یورپ اور امریکہ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس بیان کی مذمت کی تھی جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے بھی ایران کے صدر احمدی نژاد کے اسرائیل مخالف بیان پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کیا تھا تاہم جرمنی کے ہفت روزہ جریدے ََ دیر شپیگل ََ میں ہنریک بروڈر نے اپنے ایک مضمون میں احمدی نژاد کے بیان کو منطقی بیان قرار دیا ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے کے مطابق جرمنی کے مشہور ہفت روزہ اخبار اشپیگل نے لکھا ہے کہ صیہونی حکومت کے بارے میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کا بیان منطقی ہے اور مغرب کو اسے تسلیم کرلینا چاہے۔ ہفت روزہ اشپیگل نے ہنریک بروڈر کا مضمون شایع کیا ہے جس میں آیا ہے کہ صدر احمدی نژاد کا بیان تاریخی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے اور ان کے بیان پر کسی طرح کے اعتراض کی گنجائیش نہیں ہے کیونکہ مشرق وسطی میں کشیدگي کا سبب یہودیوں کا قتل عام نہیں ، بلکہ یورپیوں کی یہودی مخالف پالیسیاں ہیں۔ اس جرمن اخبار نے لکھا ہے کہ آج فلسطینی قوم یورپی ملکوں کے ظلم و ستم کا تاوان دے رہی ہیں اور اگر اس دنیا میں انصاف نام کی کوئی شے ہوتی تو یہودی ملک کو جرمنی کے شمال میں ہونا چاہیے تھا۔ ہفت روزہ اشیپگل کے مطابق جن ملکوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد صیہونی حکومت کو وجود بخشا ہے ان کا مقصد یہودیوں کو وطن فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ وہ صرف ہولو کاسٹ سے بچنے والے پندرہ لاکھ یہودیوں کو یورپ سے نکالنا چاہتے تھے۔ اس مشہور جرمن اخبار کے مطابق یورپی ملکوں نے ایک مشکل کے حل سے دوسری مشکل پیدا کی کیونکہ ملت فلسطین کو جس نے نہ یہودیوں کا قتل عام کیا ہے اور نہ ان کے لیے لیبر کیمپ بنائے ہیں وہ یورپی ملکوں کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور اس کا ملک یہودیوں نے بانٹ لیا ہے
ایف ایم ٹیکنیک: فرقہ ورانہ فساد
پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں ایف ایم ٹیکنیک کے غیر قانونی استعمال نے فرقہ ورانہ فساد کا سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اہل سنت اور پنج پیری فرقوں کے علماء کے فرقہ ورانہ مباحثے نےایک دوسرے کے خلاف جہاد کے اعلان کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دونوں فرقوں کے علماء کچھ عرصے سے مقامی ساختہ ایف ایم سٹیشن کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے جاری کر رہے تھے۔ مگر صورتِ حال اس وقت بگڑ گئی جب اہل سنت کے مقامی رہنما مفتی منیر شاکر نے باڑہ بازار میں اپنے ہزاروں مسلح پیرو کاروں کے ایک جلسہ میں پنج پیری مسلک کے سربراہ پیر سیف الرحمن کو ایک ہفتہ کے اندر علاقہ چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
چہرے کی تبدیلی
فرانس میں ڈاکٹروں نے انسانی تاریخ میں چہرے کی تبدیلی کا پہلا آپریشن کیا ہے۔ ایک متنازعہ آپریشن کے دوران سرجنوں نے ایک دماغی طور پر مردہ انسان کے چہرے کی رگیں، بافتیں اور پٹھے حاصل کر کے ایک اڑتیس سالہ زخمی عورت کے چہرے پر لگا دیے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب