موسیٰ اور بخت خان
مسلم اندلس کے شعرا دریائے شنیل کو ہزار نیل کے برابر باندھتے رہے۔
اس دریا نے مسلم اندلس کی غیرت و شجاعت کے آخری نشان کو اپنے آغوش میں پناہ دی تھی۔
مسافر کنار شنیل انہی جاں فروشوں کے نقش ہائے پا کی تلاش میں رہا، جن کے پاس صرف ایک شہر غرناطہ بچا تھا، پھر بھی تمام یورپ کو اس کے لئے دو سال تک تیاریاں کرنا پڑیں۔
جن کے جرنیل کا نام موسیٰ تھا، جو ایک صبح الحمرا سے اکیلا میدان جہاد کی طرف نکلا تھا۔ جبل شلیر سے آنے والی برفانی ہوائیں الحمرا کے درودیوار سے اس شدت سے ٹکرائیں کہ شاہی ایوان کے زرنگار پردے کانپ اٹھے مگر ایوانوں کے غافل امراء اور مساجد کے غمگین علماء کو ذرا برابر خبر نہ ہوئی کہ آج ایک موسیٰ اکیلا رہ گیا ہے۔ شہادت کے سفر میں کوئی اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔
باب البیرہ کے کنارے مسافر وہ جگہ نہ ڈھونڈ سکا، جس نے شمشیر موسوی کی چمک اور ڈیڑھ درجن عیسائی نائٹوں کو سروں کے بوجھ سے سبکدوش ہوتے دیکھا تھا۔ موسیٰ فصیل غرناطہ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ صبح کی خاموشی میں اس کے گھوڑے کے قدموں کی آواز دور دور تک گئی مگر کسی پہریدار کو بھی خبر نہ ہوئی۔ باب السلطان کے روبرو ایک عیسائی دستہ گشت پر تھا۔ ایک اور انبوہ نیزہ تلوار لئے۔ مرگ انبوہ نے شجاعت موسیٰ کی شہادت دی۔ اسیپ کے پاؤں کٹ گئے تو بھی جرنیل کی تلوار چلتی رہی۔ پاؤں شل ہوئے تو وہ گھٹنوں کے سہار سر بلند رہا، وہ بھی زخمی ہوئے تو شنیل کی موجوں نے آگے بڑھ کر غیرت غرناطہ کو آغوش محبت میں چھپا لیا۔
دشمن سوچ میں پڑ گیا اگر فصیل غرناطہ کے پیچھے سے ہر کوئی اسی طرح تلاش شہادت میں نکل کھڑا ہو، تو؟
بنو نصر کے عبداللہ نے خاندان تیمور میں جنم لیا تو بہادر شاہ ظفر نام پایا۔ غرناطہ کا موسیٰ دلی میں بخت خان کہلایا۔ وہاں کی ملکہ عالیہ دلی آ کر ملکہ عالیہ رہی۔
مرزا الہی بخش آخری مغل تاجدار کو انگریز بہادر کی بلند بختی اور بلند کرداری سے آگاہ کر چکا تو بخت خان نے اسے حمیت و ہمت کا بھولا سبق یاد کرانے کی کوشش کی مگر اس نے بخت خان کی درخواست اور تاریخ مغلیہ کی عظمت سے منہ پھیر لیا۔ بخت خان باہر آیا تو اکیلا تھا۔ مرزا الہی بخش کے جلو میں شاہی جلوس تھا۔ وہ اکیلا عزت و آبرو کی منزلوں کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ ذلت و رسوائی کی راہوں پر چل نکلے، اپنا اپنا مقدر ۔۔ اپنی اپنی منزل۔
دریائے شنیل کے کنارے ایک چھوٹی مسجد پر ایک بڑی سی تختی لگی ہے، جس پر الفاظ کنندہ ہیں ‘اس مقام پر ابوعبداللہ نے غرناطہ کی چابی فرڈیننڈ کے حوالہ کی تھی‘ (اندلس کی تاریخ)
٢جنوری١٤٩٢ء سقوط غرناطہ، ١٦دسمبر١٩٧١ء سقوظ ڈھاکہ پانچ سو برس ہونے کو آئے مگر غداروں نے ابھی تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ..... میاں عبدالرشید ۔۔۔ نوربصیرت
اس دریا نے مسلم اندلس کی غیرت و شجاعت کے آخری نشان کو اپنے آغوش میں پناہ دی تھی۔
مسافر کنار شنیل انہی جاں فروشوں کے نقش ہائے پا کی تلاش میں رہا، جن کے پاس صرف ایک شہر غرناطہ بچا تھا، پھر بھی تمام یورپ کو اس کے لئے دو سال تک تیاریاں کرنا پڑیں۔
جن کے جرنیل کا نام موسیٰ تھا، جو ایک صبح الحمرا سے اکیلا میدان جہاد کی طرف نکلا تھا۔ جبل شلیر سے آنے والی برفانی ہوائیں الحمرا کے درودیوار سے اس شدت سے ٹکرائیں کہ شاہی ایوان کے زرنگار پردے کانپ اٹھے مگر ایوانوں کے غافل امراء اور مساجد کے غمگین علماء کو ذرا برابر خبر نہ ہوئی کہ آج ایک موسیٰ اکیلا رہ گیا ہے۔ شہادت کے سفر میں کوئی اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔
باب البیرہ کے کنارے مسافر وہ جگہ نہ ڈھونڈ سکا، جس نے شمشیر موسوی کی چمک اور ڈیڑھ درجن عیسائی نائٹوں کو سروں کے بوجھ سے سبکدوش ہوتے دیکھا تھا۔ موسیٰ فصیل غرناطہ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ صبح کی خاموشی میں اس کے گھوڑے کے قدموں کی آواز دور دور تک گئی مگر کسی پہریدار کو بھی خبر نہ ہوئی۔ باب السلطان کے روبرو ایک عیسائی دستہ گشت پر تھا۔ ایک اور انبوہ نیزہ تلوار لئے۔ مرگ انبوہ نے شجاعت موسیٰ کی شہادت دی۔ اسیپ کے پاؤں کٹ گئے تو بھی جرنیل کی تلوار چلتی رہی۔ پاؤں شل ہوئے تو وہ گھٹنوں کے سہار سر بلند رہا، وہ بھی زخمی ہوئے تو شنیل کی موجوں نے آگے بڑھ کر غیرت غرناطہ کو آغوش محبت میں چھپا لیا۔
دشمن سوچ میں پڑ گیا اگر فصیل غرناطہ کے پیچھے سے ہر کوئی اسی طرح تلاش شہادت میں نکل کھڑا ہو، تو؟
بنو نصر کے عبداللہ نے خاندان تیمور میں جنم لیا تو بہادر شاہ ظفر نام پایا۔ غرناطہ کا موسیٰ دلی میں بخت خان کہلایا۔ وہاں کی ملکہ عالیہ دلی آ کر ملکہ عالیہ رہی۔
مرزا الہی بخش آخری مغل تاجدار کو انگریز بہادر کی بلند بختی اور بلند کرداری سے آگاہ کر چکا تو بخت خان نے اسے حمیت و ہمت کا بھولا سبق یاد کرانے کی کوشش کی مگر اس نے بخت خان کی درخواست اور تاریخ مغلیہ کی عظمت سے منہ پھیر لیا۔ بخت خان باہر آیا تو اکیلا تھا۔ مرزا الہی بخش کے جلو میں شاہی جلوس تھا۔ وہ اکیلا عزت و آبرو کی منزلوں کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ ذلت و رسوائی کی راہوں پر چل نکلے، اپنا اپنا مقدر ۔۔ اپنی اپنی منزل۔
دریائے شنیل کے کنارے ایک چھوٹی مسجد پر ایک بڑی سی تختی لگی ہے، جس پر الفاظ کنندہ ہیں ‘اس مقام پر ابوعبداللہ نے غرناطہ کی چابی فرڈیننڈ کے حوالہ کی تھی‘ (اندلس کی تاریخ)
٢جنوری١٤٩٢ء سقوط غرناطہ، ١٦دسمبر١٩٧١ء سقوظ ڈھاکہ پانچ سو برس ہونے کو آئے مگر غداروں نے ابھی تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ..... میاں عبدالرشید ۔۔۔ نوربصیرت
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔