جواب عرض ہے
واہ کیا بات ہے، لگتا ہے یاران بلاگرز کا قلم جوبن پر ہے اسی لئے آجکل ایسی ایسی ‘اوکھی‘ تحریریں لکھی جا رہی ہیں جو مجھ جیسے ناسمجھ کے سر سے گزر جاتی ہیں۔اوپر سے خاور صاحب کے سوال نے تو مجھ عقل کے کورے کو امتحان میں ڈال دیا ہے، بہرحال جواب حاضر ہے اس دعا کے ساتھ کہ یونہی یاران بلاگرز کی محفلیں سجتی رہیں اور اردو بلاگرز کا یہ ڈیرہ ہمیشہ شادوآباد رہے۔۔۔ آمین
خاور صاحب! آدمی رونا روئے بھی تو کس کا یہاں تو دل و جگر چھلنی ہیں، چاروں طرف بے بسی اور بے حسی کا دور دورہ ہے، آپ نے بلکل ٹھیک لکھا ہے کہ ‘حكومتى لوگوں كا باوا آدم ہى نرالا ہے‘ دراصل اكنامک كے بنيادى اصولوں پر یہ لوگ چلنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ان کے قاعدے قانون، حساب کتاب ‘آن دی پوائینٹ‘ ہوتے ہیں، ان کا حساب دو جمع دو پانچ بتاتا ہے، اگر معاملہ زیادہ گھمبیر ہو تو اس قاعدے قانون کو اپنے مطلب کے مطابق بدلا جا سکتا ہے، پھر دو جمع دو تین بھی ہو سکتے ہیں سات اور نو بھی۔ ان کے اس انوکھے فارمولے کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مہنگائی میں اتنے ہوشربا اضافے اور افراط زر کے چودہ فیصد بڑھنے کے باوجود ہمارے وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ غربت میں سات فیصد کمی ہوئی ہے۔
عجیب قسم کی مخلوق ہیں یہ لوگ ۔۔۔۔
خودرو جھاڑیاں اگی دیکھ کر سمجھتے ہیں اس برس فصل شاندار ہو گی۔
غربت ختم کرنے کے لئے غریب مکاؤ مہم چلانا چاہتے ہیں۔
کسی درخت کو جڑ سے کاٹنے کی بجائے اس کی ٹہنیاں کاٹنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر سمجھتے ہے سارا پاکستان محفوظ ہے۔
بغیر انجن کی گاڑی میں بیٹھ کر آگے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔
بڑے بڑے خوبصورت پورٹریٹ بنوا کر کہتے ہیں ٢٠٢٠ء میں پاکستان ایسا ہو گا (مگر ایسے ہو گا کیسے یہ کوئی نہیں بتاتا)
اب آپ ہی بتائیں ایسا سوچنے والوں کے خلاف کیا کیا جاسکتا ہے؟ یقینا کچھ، کیونکہ کنویں میں بھنگ پڑی ہے حمام میں سبھی تو ننگے ہیں۔
اب آتے ہیں ان مسائل کی طرف جن کا آپ نے ذکر کیا ہے، میرے نزدیک ان سب مسائل یا پاکستان کے جو بھی مسائل ہیں کے ذمہ دار اس ملک کے پایسی ساز (بیوروکریٹ) ہیں، انہی پالیسی سازروں نے اس ملک کے اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا، ان پالیسی سازوں کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیٰلی نظر آتا ہے
ان سے پورے ملک کے مسائل حل ہونا تو دور کی بات ان سے تو آج تک ہمارے محلے کے مسائل حل نہیں ہو سکے، ذرا غور کیجیئے کچھ عرصہ پہلے ہمارے محلے کی گلیاں سولنگ (اینٹوں والا فرش) کی گئی اور ساتھ ہی سیوریج لائن بچھائی گئی اور کچھ ہی دن بعد محلے کی مین سڑک بنائی گئی، عقل کے اندھوں نے مین سڑک اور سیوریج کا لیول گلیوں سےکافی اونچا رکھا جس کی وجہ اب گلیوں کی سیوریج کا پانی سڑک والے مین ہول میں نہیں جا سکتا، اب یہ سیوریج کا گندا اور غلیظ پانی ہے ہم ہیں اور ہمارے بال بچے ہیں۔ ‘مرض دل بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق گلیاں بن گئیں، سڑکیں بھی، سیوریج بھی ڈال دی گئی، مگر مسلہ جوں کا توں موجود ہے۔
کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا ہوں مگر وقت اجازت نہیں دے رہا اس لئے اسی موضوع پر باقی باتیں بہت جلد ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ حافظ
خاور صاحب! آدمی رونا روئے بھی تو کس کا یہاں تو دل و جگر چھلنی ہیں، چاروں طرف بے بسی اور بے حسی کا دور دورہ ہے، آپ نے بلکل ٹھیک لکھا ہے کہ ‘حكومتى لوگوں كا باوا آدم ہى نرالا ہے‘ دراصل اكنامک كے بنيادى اصولوں پر یہ لوگ چلنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ ان کے قاعدے قانون، حساب کتاب ‘آن دی پوائینٹ‘ ہوتے ہیں، ان کا حساب دو جمع دو پانچ بتاتا ہے، اگر معاملہ زیادہ گھمبیر ہو تو اس قاعدے قانون کو اپنے مطلب کے مطابق بدلا جا سکتا ہے، پھر دو جمع دو تین بھی ہو سکتے ہیں سات اور نو بھی۔ ان کے اس انوکھے فارمولے کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مہنگائی میں اتنے ہوشربا اضافے اور افراط زر کے چودہ فیصد بڑھنے کے باوجود ہمارے وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ غربت میں سات فیصد کمی ہوئی ہے۔
عجیب قسم کی مخلوق ہیں یہ لوگ ۔۔۔۔
خودرو جھاڑیاں اگی دیکھ کر سمجھتے ہیں اس برس فصل شاندار ہو گی۔
غربت ختم کرنے کے لئے غریب مکاؤ مہم چلانا چاہتے ہیں۔
کسی درخت کو جڑ سے کاٹنے کی بجائے اس کی ٹہنیاں کاٹنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر سمجھتے ہے سارا پاکستان محفوظ ہے۔
بغیر انجن کی گاڑی میں بیٹھ کر آگے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔
بڑے بڑے خوبصورت پورٹریٹ بنوا کر کہتے ہیں ٢٠٢٠ء میں پاکستان ایسا ہو گا (مگر ایسے ہو گا کیسے یہ کوئی نہیں بتاتا)
اب آپ ہی بتائیں ایسا سوچنے والوں کے خلاف کیا کیا جاسکتا ہے؟ یقینا کچھ، کیونکہ کنویں میں بھنگ پڑی ہے حمام میں سبھی تو ننگے ہیں۔
اب آتے ہیں ان مسائل کی طرف جن کا آپ نے ذکر کیا ہے، میرے نزدیک ان سب مسائل یا پاکستان کے جو بھی مسائل ہیں کے ذمہ دار اس ملک کے پایسی ساز (بیوروکریٹ) ہیں، انہی پالیسی سازروں نے اس ملک کے اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا، ان پالیسی سازوں کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیٰلی نظر آتا ہے
ان سے پورے ملک کے مسائل حل ہونا تو دور کی بات ان سے تو آج تک ہمارے محلے کے مسائل حل نہیں ہو سکے، ذرا غور کیجیئے کچھ عرصہ پہلے ہمارے محلے کی گلیاں سولنگ (اینٹوں والا فرش) کی گئی اور ساتھ ہی سیوریج لائن بچھائی گئی اور کچھ ہی دن بعد محلے کی مین سڑک بنائی گئی، عقل کے اندھوں نے مین سڑک اور سیوریج کا لیول گلیوں سےکافی اونچا رکھا جس کی وجہ اب گلیوں کی سیوریج کا پانی سڑک والے مین ہول میں نہیں جا سکتا، اب یہ سیوریج کا گندا اور غلیظ پانی ہے ہم ہیں اور ہمارے بال بچے ہیں۔ ‘مرض دل بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق گلیاں بن گئیں، سڑکیں بھی، سیوریج بھی ڈال دی گئی، مگر مسلہ جوں کا توں موجود ہے۔
کہنا تو اور بھی بہت کچھ چاہتا ہوں مگر وقت اجازت نہیں دے رہا اس لئے اسی موضوع پر باقی باتیں بہت جلد ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ حافظ
2 comments:
سارے هى دردمند پاكستانى اس درد كو محسوس كر رهے هيں كه پاكستان كى حالت دن بدن خراب هے ـ
5/13/2006 02:18:00 AMميرا سوال اب بهى وهيں هے كه
پچهلے كچهـ سالوں سے شادى بياه كى جو رسومات بڑه گئى هيں ان كى وجه كيا هے؟؟
پرانے زمانے ميں لڑكے لڑكى كى فيمليز منگنى اور بارات والے دن ايك دوسرے كے گهر جاتے تهے مگر اب بارات سے پەلے كتنى هى دفعه ايكـ تقريب كى صورت ميں آناجانا هوتا هے ـ
ايسا كيوں هونا شروع هوا هے ؟
يه ايكـ بەت اهم معاشرتى مسئله هے اس پر بات هونى چاهئے
بەن بيٹى والوں كےلئے يه رسوم ايكـ عذاب بنتى جارهى هيں ـ
بلکل خاور صاحب شادى بياہ كى رسومات والا ایک انتہائی اہم معاشرتی موضوع ہے اس لئے اس اہم اور معاشرتی موضوع کو چند لائینوں میں سمیٹنا زیادتی ہو گی اس کے لئے آپ کو صرف چند دن انتظار کرنا ہو گا ۔۔۔۔ صرف چند دن
5/13/2006 05:22:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔