25 January, 2007

کنفرم ریٹرن ٹکٹ

آخرایسی کونسی وجہ ہے کہ ہم سنتے اور دیکھتے ہی جا رہے ہیں اور ہمیں اپنے نہ کچھ کہنے دیتے ہیں اور نہ ہی کچھ لکھنے دیتے ہیں۔ ہم نے صحافت کو زرد تو کیا ہے لیکن آزاد نہیں کیا اب اگر کچھ باقی لے دے کے رہ گیا ہے تو وہ یہ ہے کہ ہم اس وقت تک انتظار کرتے رہتے ہیں کہ جب تک کوئی پہاڑ ہمارے سر پر آکر نہ گر ے اس وقت تک ہمارا بولنااجازت طلب ہی رہتا ہے۔ ہم اس حد تک خود کو فراموش کر چکے ہیں اورہمیں یہ یاد ہی نہیں رہا ہے کہ ہم اپنے مالک اور خالق کو جواب دہ ہیں۔
ہم اپنے اس حقیقی مالک سے ریٹرن ٹکٹ لے کر آئے تھے جس کا ایک کوپن تو استعمال ہو چکا ہے اور دوسرا بھی کنفرم ہے جس دن بوڈنگ کارڈ مل گیا تو اس دن چار کندھوں پر پرواز ہو جائے گی۔ جب آئے تھے توصرف دونوں ہاتھوں کی دو ہتھیلیاں تھیں اور وہ بھی بند حالت میں جن پر لکھا ہواہی اس دنیا میںگزر بسر کرنے کے لئے متاع ہے۔
لیکن واپسی پرسامان (Luggage) فری ہے جتنا کوئی چاہے لے کر جا سکتا ہے اور اس سامان کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر آپ کے پاس خالق حقیقی کی دی ہوئی لسٹ کے مطابق سامان ہے تو آپ اس کولے کرگرین چینل سے آسانی کے ساتھ پار ہو جائیں گے۔ لیکن اگرآپ نے کہیں بھی مالک حقیقی کی دی ہوئی لسٹ سے ہٹ کر کچھ سامان شامل کر لیا تو آپ فوراً دھر لئے جائیں گے اور اسی وقت آپ کی تفتیش سیکورٹی کے حوالہ ہو جائے گی اوریہ ریمانڈ یوم حساب تک ہو گا اور اس تفتیش کے درمیانی عرصہ تک کی تکلیف آپ کو اٹھانی ہو گی۔
یہاں پر نہ کوئی وکیل ہو گا اور نہ ہی کوئی ضمانت کا سسٹم ، کیونکہ یہ سب دنیاوی سسٹم سے ہٹ کر ہو گا۔ گواہ بھی آپ کے اپنے ہی جسم کے اعضاء ہوں گے جو اس وقت آپ کے اختیارمیں نہ ہوں گے بلکہ وہ اپنی حیثیت میں آزاد ہوں گے۔ ان پر سماجی ، سیاسی اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی معاشرتی دباو ہو گا اور اپنے ہی گواہوں کی گواہی لینے پر مجبور ہو گا کیونکہ مالک حقیقی نے پیشگی مطلع کر دیا تھا کہ اس کے ہاں ہر ذرہ ء خیر و شر کو نکال باہر کیا جائے گا۔
یہی ذرات گواہ بن کر انسان کے سامنے آ جائیں گے۔ اگر یہ سب کچھ ہمارے علم میں آ جائے یا ہمیں بتا دیا جائے توسوال پیدا ہوتا ہے آخروہ ایسی کونسی وجہ ہے کہ ہم اپنے واپسی کے سفرکو فراموش کر بیٹھے ہیں۔
کوئی ایسا دن مشکل ہی سے گزرتا ہے جب ہمیں کسی نہ کسی طرف سے ہزیمت اپنے لوگوں کی وجہ سے اٹھانی پڑتی ہے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم خود کو متعارف کروانے میں ناکام ہیں۔ہمارا یہ دوست نما دشمن اتنا شاطر ہے کہ حقیقت کا علم اس کو بخوبی ہے لیکن ہمارے اپنے لوگوں کا سہارا لے کر ہر روز اخلاق کو بالاتر رکھ کر ہمارے اوپر اخلاق اور حقوق کی ترجمانی کرتے ہوئے ہر روز ہمیں زخم دینے سے باز نہیں آرہا اور ایک ہم ہیں کہ برابراس پرصبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں
لوگ یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ اس محاذ پر آپ کونہ کسی تلوار کی اور نہ ہی کسی توپ کی ضرورت ہے ماسوائے اس احسن طریقہ کے جسے بروئے کار لاتے ہوئے آپ اپنا نقطہء نظر بہتر انداز سے دوسرے کے سامنے پیش کر سکیں۔ کیا ہمارے لئے پرنٹ اور الیکڑونیک میڈیا بھی مفقود ہے؟ اللہ کے رسول کی فرمان کے مطابق امت مسلمہ امت واحدہ ہے۔ اس کے کسی حصہ کو جسم سے علیحدہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔اس کے ہر حصہ کی کارکردگی تمام جسم کے کھاتے میں آئے گی اور اگر کوئی حصہ تکلیف میں ہو گا تو دوسرے حصہ کو بھی اتنی ہی تکلیف برداشت کرنا ہو گی۔
حال ہی میں امریکہ کے شہرلاس ویگاس میں ’’امریکہ ٹروتھ فورم‘‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرس کی حقیقت اب لوگوں پر عیاں ہوئی ہے۔ اس میں جو افسوس ناک بات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں شریک ایک مسلمان خاتون جسے ’’نیوز ویک‘‘ کی طرف سے سال 2006ء کی سب سے طاقتور شخصیات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے،جس کا تعلق ملک شام سے ہے۔
یہ ڈاکٹر وفا سلطان ہے جس نے اپنے روشن خیال اور ماڈرن ذہن کا سہارا لے کر اپنے متعصب میزبان کی مسلمانوں کے لئے رہنمائی کرتے ہو ئے فرمایا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو روشن خیال بنانے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے نبی کے توہین آمیز کارٹون باربار شائع کئے جائیں اور جب مسلمان احتجاج کرنا چھوڑ دیں گے تب ہمیں یقین آئے گا کہ وہ ماڈرن ہو چکے ہیں۔
آپ غور کریں تو اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ ایسا خیال کہ باربار ان کو شائع کریں ان کے ذہن میں بھی نہیں آیا، مسلمانوں کو ذلیل و رسوا کر نے کیلئے بہترین مشورہ ہمیشہ ان کو مسلمانوں کی ہی طرف سے ملا۔ یہاں چلتے چلتے ایک بات کا ذکر کر دینا چاہوں گا۔ ایک جگہ مسلمانوں کو جنگ میں شکست ہو گئی تو فاتح فوج کے سپہ سالار کا دل مسلمانوں کو کاٹ کاٹ کر بھرا ۔ اس نے اپنے مشیروں کو مشورہ کے لئے بلایا اور مشورہ طلب کیا کہ وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو ذلیل کرے۔
آپ لوگ اس پر غور کریں کہ ہم کس طرح مسلمانوں کو ذلیل کر سکتے ہیں۔دوران گفتگو بہت سارے مشورے سامنے آئے اور ایک مشورہ کو پسند کیا گیا کہ سب مسلمانوں سے فاتح سپہ سالار کے سامنے سجدہ کروایا جائے کیونکہ مسلمان سجدہ صرف اللہ ہی کیلئے کرتے ہیں۔ اعلان عام ہو گیا کہ سب مسلمان سپہ سالار کے سامنے حاضر ہوں۔ لوگ وہاں جمع ہو گئے اور باری باری ہر مسلمان کو سجدہ کرنے کیلئے کہا جاتا اور لوگ خوف سے حکم بجا لاتے۔ اسی دوران ایک ہیجڑہ کی باری بھی آگئی۔
اس سے سجدہ کرنے کو کہا گیا تو اس نے انکار کر دیا کہ میں سجدہ نہیں کروں گا یہ دیکھ کر سپہ سالار نے کہا کہ تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے کتنے بڑے بڑے آئے جن میں ہر کوئی شامل تھا لیکن کسی نے انکار نہیں کیا ،تم کیا ہو؟ اس ہیجڑہ نے جواب دیا کہ وہ لوگ ایسے تھے جیسے ان کے پاس عمل کا خزانہ جمع ہو لیکن میرے پاس ایسا کوئی عمل نہیں ماسوائے اس سر کے جو میں صرف اللہ کے آگے جھکاتا ہوں
اس ہیجڑے نے سپہ سالار کے آگے سر نہیں جھکایا۔ سپہ سالار کا اشارہ ہوا اور اس ہیجڑہ کا سر تن سے جدا کردیا گیا۔ سر تن سے کیا جدا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں کے سر ندامت سے جھک گئے اور آنکھوں سے آنسوں کا سیلاب جاری ہو گیا اور فاتح سپہ سالار ایک ہیجڑے کو فتح نہ کر سکا کیونکہ فنون کا دلدادہ یہ ہیجڑہ روشن خیال ہونے کے باوجود اللہ کو پہچانتا تھا۔
کیا ہم اتنے ہی کنگال ہو گئے ہیں کہ اپنے اخلاق اور کردار سے کچھ رقم نہیں کر سکے۔ یہی تو وجہ ہے کہ وہ اس دھڑلے سے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا قرآن بدلنا ہو گا۔لیکن جو قرآن دلوں میں دفن ہو چکا ہے اس کا کیا کریں گے۔
ڈاکٹر رابرٹ موری اللہ کے رسول کے خلاف گستاخیوں اور دشنام طرازیوں سے بھری کتابیں لکھے یاڈاکٹر بروس ٹفٹ اسلام کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈے سے بھری تقریریں کرے۔رابرٹ سپنسر گستاخیوں سے تجاوز کرتا رہے اور مسلمانوں کے تعلیمی نصاب اور قرآن پاک میں تبدیلی یا تحریف کی بات کرے۔
اور جو روشن خیال اکٹھے ہو گئے ہیں انہوں نے قرآن کو سمجھا ہی نہیں ورنہ یہ کبھی بھی نہ جھکتے۔


بشکریہ
سعید جاوید مغل ۔ اردو سروس ڈاٹ نیٹ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب