تحفظ حقوق نسواں کا ترمیمی بل مکمل متن کے ساتھ ۔آخری حصہ
بیان اغراض و وجوہ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسملہ دستوری مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں موجود ہے۔ بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگیاں گزارنے کے قابل بنایا جائے۔
چنانچہ دستور، اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ موجودہ تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، دینا چاہیے۔
اس بل کا مقصد بالخصوص زناء اور قذف سے متعلق قوانین کو بالخصوص بیان کردہ اسلامی جمہوری پاکستان کے مقاصد اور دستوری ہدایت کے مطابق بنانا ہے اور خاص طور پر قانون کے بے جا اور غلط استعمال کے خلاف خواتین کی داد رسی کرنا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا ہے۔
قرآن پاک میں زناء اور قذف کے جرائم کے بارے میں موجود ہے زناء اور قذف سے متعلق دو آرڈیننس اس اس حقیقت کے باوجود کہ قرآن اور سنت نے نہ تو ان جرائم کی وضاعت کی ہے اور نہ ہی ان کے لئے سزا مقرر کی ہے تاہم دیگر قابل سزا قوانین کے شمار میں اضافہ کرتے ہیں، زناء اور قذف کے لئے سزائیں قصاص کے کسی اصول کے بغیر یا ان جرائم کے لئے ثبوت کے کسی طریقے کی نشاندہی کئے بغیر نہیں دی جا سکتیں۔
کوئی جرم جس کا حوالہ قرآن پاک اور سنت میں نہیں یا جس کے لئے اس میں سزا کے بارے میں نہیں بتایا گیا وہ تعزیر ہے جو ریاستی قانون سازی کا موضوع ہے۔ یہ دونوں کام ریاست کے ہیں کہ وہ مذکورہ جرائم کی وضاعت کرے اور ان کے لئے سزاؤں کا تعین کرے۔ ریاست مذکورہ اختیار کو مکمل اسلامی ہم آہنگی کے ذریعے استعمال کرتی ہے جو ریاست کو وضاعت اور سزا ہر دو کا اختیار دیتا ہے، اگرچہ ، مذکورہ تمام جرائم کو دونوں حدود آرڈیننسوں سے نکال دیا گیا ہے اور مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٤٥ بابت ١٨٦٠ء) جسے بعدازاں پی پی سی کا نام دیا گیا ہے میں مناسب طور پر شامل کر دیا گیا ہے۔
زناء کے جرم (نفاظ حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء (نمبر ٧ مجریہ ١٩٧٩ء) جسے بعدازاں ‘زناء آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ١١ تا ١٦ میں دیئے گئے جرائم تعزیر کے جرائم میں ہیں، ان تمام کو مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٤٥ بابت ١٨٦٠ء) کی دفعات ٣٦٥ب، ٣٦٧الف، ٣٧١الف، ٣٧١ب، ٤٩٣الف اور ٤٩٦الف کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جرم قذف (نفاظ حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء جسے بعدازاں ‘قذف آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ١٢ اور ١٣ کو حذف کیا گیا ہے، یہ مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ ٣ میں قذف کی تعریف کے طور پر کیا گیا ہے جو طبع شدہ اور کنندہ شدہ مواد کی طباعت یا کنندہ کاری یا فروخت کے ذریعے ارتکاب کردہ قذف کو کافی تحفظ دیتی ہے۔ مذکورہ تعزیری جرائم میں سے کسی کی آئینی تعریف کے استعمال میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے یا ان کے لئے مقرر کی گئی سزا کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ ان تعزیری جرائم کے لئے کوڑوں کی سزا کو حذف کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن اور سنت میں ان جرائم سے متعلق کوئی سزا نہیں ہے۔ ریاست کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسلام کے منصفانہ نظریئے کے مطابق اس میں تبدیلی لائے۔ یہ پی پی سی کے مطابق اور شائشتگی کے معئار کو قائم کرنے کے لئے ہے جس سے معاشرے کی کامل ترقی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ زناء اور قذف کے آرڈیننس پر شہریوں کی طرف سے بالعموم اور اسلامی اسکالروں اور خواتین کی طرف سے بالخصوص سخت تنقید کی گئی۔ تنقید کے کئی موضوع تھے، ان میں زناء کے جرم کو زناء بالجبر (عصمت دری) کے ساتھ ملانا شامل ہے۔ اور دونوں کے لئے ثبوت اورسزا کی ایک ہی قسم رکھی گئی ہے۔ یہ بے جا سہولت دیتا ہے کوئی عورت جو عصمت دری کو ثابت نہیں کر سکتی اس پر اکثر زناء کا استغاثہ دائر کر دیا جاتا ہے، زناء بالجبر (عصمت دری) کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کے ثبوت کی ضرورت صرف اتنی ہے جتنی کہ زناء کے لئے ہے۔ یہ اول الذکر کو ثابت کرنے کے لئے تقریبا ناممکن بنا دیتا ہے۔
جب کسی مرد کے خلاف عصمت دری کے استغاثہ میں ناکامی ہو لیکن طبی معائنے سے جماع یا حمل کی یا بصورت دیگر تصدیق ہو جائے تو عورت کو چار عینی گواہوں کے نہ ہونے سے زناء کی سزا حد کے طور پر نہیں دی جاتی بلکہ تعزیر کے طور پر دی جاتی ہے، اس شکایت کو بعض اوقات اعتراف تصور کیا جاتا ہے۔
قرآن اور سنت زناء کے لئے تعزیری سزا کے مقتنی نہیں ہیں۔ یہ آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے والوں کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور قذف کے جرائم کے لئے تعزیری سزائیں نہ صرف اسلامی اصولوں کے منافی ہیں بلکہ استحصال اور نا انصافی کو جنم دیتی ہیں، انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ دستوری تعزیرات کو واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے، ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کے درمیان واضح حد مقرر ہو۔ شہری اس سے آگاہ ہوں، وہ اپنی زندگی اور طور طریقوں کو ان روشن رہنما اصولوں کو اپناتے گزار سکیں لہذا ان میں وہ اور متعلقہ قوانین مین غیر واضح تعریفات کی وضاعت کی جا رہی ہے اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے انہیں حذف کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیر محتاط شہریوں کو تعزیری قوانین کے غیر دانشمندانہ استعمال سے تحفظ بہم پہنچایا جائے۔ زناء آرڈیننس ‘نکاح‘ کی جائز نکاح کے طور پر تعریف کرتا ہے، بالخصوص دیہی علاقوں میں نکاح بالعموم اور طلاق کو بالخصوص رجسٹر نہیں کیا جاتا۔ کسی شخص پر زناء کا الزام لگانے کے لئے دفاع میں ‘جائز نکاح‘ کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔ رجسٹریشن نہ کرانا اس کے دیوانی منطقی نتائج میں صرف یہی کافی ہے کوئی نکاح رجسٹر نہ کرایا جائے یا کسی طلاق کی تصدیق کو تعزیری منطقی نتائج سے مشروط نہ کیا جائے۔ اس میں اسلامی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جب کسی جرم کے ارتکاب میں کوئی شبہ پایا جائے تو حد کو نافذ نہ کیا جائے، قانون مذکورہ مقدمات میں غلط استعمال کی وجہ سے سابقہ خاوندوں اور معاشرے کے دیگر ارکان کے ہاتھوں میں ظلم و ستم کا کھلونا بن گیا ہے۔
تین طلاقیں دیئے جانے کے بعد عورت اپنے میکے چلی جاتی ہے وہ دوران عدت جاتی ہے، کچھ ہی دنوں کے بعد خاندان کے لوگ نئے ناطے کا انتظام کر دیتے ہیں اور وہ شادی کر لیتی ہے، اس وقت خاوند یہ دعوٰی کرتا ہے کہ یئت ہائے مجاز کی طرف سے طلاق کی تصدیق کے بغیر نکاح ختم نہیں ہوا اور زناء کا مقدمہ دائر کر دیتا ہے یہ ضروری ہے کہ اسے ختم کرنے کے لئے اس تعریف کو حذف کر دیا جائے۔
زناء بالجبر (عصمت دری) کے جرم کے لئے کوئی حد موجود نہیں ہے، یہ تعزیری جرم ہے، لہذا عصمت دری کی تعریف اور سزا کو پی پی سی میں بالترتیب دفعات ٣٧٥ اور ٣٧٦ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ جنس کی مبہم تریف میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ عصمت دری ایک جرم ہے جس کا ارتکاب مرد عورت کے ساتھ کرتا ہے۔ عصمت دری کا الزام لگانے کے لئے عورت کی مرضی دفاع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انتظام کیا جا رہا ہے کہ اگر عورت کی عمر ١٦ سال سے کم ہو تو مذکورہ مرضی کو دفاع کے طور پر استعمال نہ کیا جائے یہ کمزور کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے، جس کی قرآن بار بار تاکید کرتا ہے اور بین الاقوامی قانونی ذمہ داری کے اصولوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
اجتماعی زیادتی کی سزا موت ہے۔ اس سے کم سزا نہیں رکھی گئی ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں کا یہ مشاہدہ ہے کہ بعض حالات میں ان کی یہ رائے ہوتی ہے کہ کسی شخص کو بری نہیں کیا جا سکتا جبکہ عین اس وقت مقدمت کے حقائق اور حالات کے مطابق سزائے موت جائز نہیں ہوتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مقدمات میں ملزم کو بری کرنے پر مجبور ہوتے ہیںاس معاملے کو نمٹانے کے لئے سزائے موت کے متبادل کے طور پر عمر قید کی سزا کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
تعزیر زناء بالجبر (عصمت دری) اور اجتماعی زیادتی کی قانونی کاروائی کے لئے طریقہ کار، اس طرح دیگر تمام تعزیرات، پی پی سی کے تحت تمام جرائم کو مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥ بابت ١٨٩٨ء) بعدازیں ‘سی آر پی سی‘ کے ذریعے منضبط کیا گیا ہے۔
لعان انفساخ نکاح کی شکل ہے کوئی عورت جو کہ اپنے شوہر کی طرف سے بدکاری کی ملزمہ ہو اور اس الزام سے انکاری ہو اپنی ازواجی زندگی سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ لعان سے متعلق قذف آرڈیننس کی دفعہ ١٤ اس کے لئے طریقہ کار فراہم کرتی ہے۔ انفساخ نکاح کی آئینی تعزیر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح، قانون انفساخ ازواج مسلمانان، ١٩٣٩ء (نمبر٨ بابت ١٩٣٨ء) کے تحت لعان کو طلاق کی وجہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
زناء اور قذف کی تعریف ویسی ہی رہے گی جیسا کہ زناء اور قذف آرڈیننسوں میں ہے۔ نیز زناء اور قذف دونوں کے لئے سزائیں ایک جیسی ہی ہوں گی۔
زناء سگین جرم ہے جو کہ لوگوں کو اخلاق کو بگاڑتا ہے اور پاکدامنی کے احساس کو تباہ کرتا ہے۔ قرآن زناء کو لوگوں کے اخلاق کے برعکس ایک جرم ٹھہراتا ہے۔ چار چسم دید گواہوں کی ضرورت بلا شرکت غیرے صریحاً غیر معمولی بار نہیں ہے۔ یہ بھی دعوٰٰی ہے کہ اگر حدیث کے برعکس ہو، ‘اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے گناہوں کو چھپاتے ہیں‘ جو کسی عمل کا ارتکاب اس طرح غل غپاڑہ کی صورت میں کرتے ہیں تاکہ طار آدمی اس کو دیکھ لیں، البتہ معاشرے کو بہت سنگین نقصان ہو گا۔ اسی وقت قرآن راز داری کو تحفظ دیتا ہے، بت بنیاد اندازوں سے روکتا ہے اور تحقیقات کرنے اور دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی سے منع کرتا ہے۔ اس لئے زناء کے ثبوت کی ناکامی کی وجوہ کی بنا پر قذف کے لئے سزا عائد ہو جاتی ہے (زناء کے متعلق جھوٹا الزام) قرآن شکایت کنندہ سے زناء کو ثابت کرنے کے لئے چار چشم دید گواہ مانگتا ہے۔ شکایت کنندہ اور شہادت دینے والوں کو اس جرم کی سنگینی سے بخوبی آگاہی ہونی چاہئے کہ اگر انہوں نے جھوٹا الزام لگایا یا الزام کے شک کو دور نہ کر سکے تو وہ قذف کے لئے سزا وار ہوں گے۔ ملزم زناء کی قانونی کاروائی میں ناکامی کے نتیجے میں دوبارہ از سر نو قانونی کاروائی شروع نہیں کرے گا۔
زناء آرڈیننس خواتین پر استغاثہ کا بے جا استعمال کرتا ہے، خاندانی تنازعات کو طے کرنے اور بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں سے انحراف کرتا ہے۔ زناء اور قذف کے ہر دو مقدمات میں اس کے بے جا استعمال پر نظر رکھنے کے لئے مجموعہ ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ صرف سیشن عدالت ہی کسی درخواست پر مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار استعمال کر سکے۔ اسے قابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے تاکہ ملزم دوران سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کر سکے تاوقتیکہ سیشن عدالت اس کی اجازت نہ دے اور مذکورہ ہدایات ماسوائے عدالت میں حاضری کو یقینی بنائے جانے یا کسی سزا دہی کی صورت کے جاری نہیں کی جا سکتیں، مجموعہ تعزیرات کی صورت میں، عورت یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی تشہیر نہیں ہو گی اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مذکورہ تمام ترامیم کا بنیادی مقصد زناء اور قذف کو اسلامی احکام کے مطابق قابل سزا بنانا ہے۔ جیسا کہ قرآن اور سنت میں دیا گیا ہے۔ استحصال سے روکنا، پولیس کے بے جا اختیارات سے روکنا اور انصاف اور مساویانہ حقوق پر مبنی معاشرے کو تشکیل دیتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسملہ دستوری مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق جیسا کہ قرآن پاک اور سنت میں موجود ہے۔ بحثیت انفرادی اور اجتماعی زندگیاں گزارنے کے قابل بنایا جائے۔
چنانچہ دستور، اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ موجودہ تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، دینا چاہیے۔
اس بل کا مقصد بالخصوص زناء اور قذف سے متعلق قوانین کو بالخصوص بیان کردہ اسلامی جمہوری پاکستان کے مقاصد اور دستوری ہدایت کے مطابق بنانا ہے اور خاص طور پر قانون کے بے جا اور غلط استعمال کے خلاف خواتین کی داد رسی کرنا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا ہے۔
قرآن پاک میں زناء اور قذف کے جرائم کے بارے میں موجود ہے زناء اور قذف سے متعلق دو آرڈیننس اس اس حقیقت کے باوجود کہ قرآن اور سنت نے نہ تو ان جرائم کی وضاعت کی ہے اور نہ ہی ان کے لئے سزا مقرر کی ہے تاہم دیگر قابل سزا قوانین کے شمار میں اضافہ کرتے ہیں، زناء اور قذف کے لئے سزائیں قصاص کے کسی اصول کے بغیر یا ان جرائم کے لئے ثبوت کے کسی طریقے کی نشاندہی کئے بغیر نہیں دی جا سکتیں۔
کوئی جرم جس کا حوالہ قرآن پاک اور سنت میں نہیں یا جس کے لئے اس میں سزا کے بارے میں نہیں بتایا گیا وہ تعزیر ہے جو ریاستی قانون سازی کا موضوع ہے۔ یہ دونوں کام ریاست کے ہیں کہ وہ مذکورہ جرائم کی وضاعت کرے اور ان کے لئے سزاؤں کا تعین کرے۔ ریاست مذکورہ اختیار کو مکمل اسلامی ہم آہنگی کے ذریعے استعمال کرتی ہے جو ریاست کو وضاعت اور سزا ہر دو کا اختیار دیتا ہے، اگرچہ ، مذکورہ تمام جرائم کو دونوں حدود آرڈیننسوں سے نکال دیا گیا ہے اور مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٤٥ بابت ١٨٦٠ء) جسے بعدازاں پی پی سی کا نام دیا گیا ہے میں مناسب طور پر شامل کر دیا گیا ہے۔
زناء کے جرم (نفاظ حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء (نمبر ٧ مجریہ ١٩٧٩ء) جسے بعدازاں ‘زناء آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ١١ تا ١٦ میں دیئے گئے جرائم تعزیر کے جرائم میں ہیں، ان تمام کو مجموعہ تعزیرات پاکستان ١٨٦٠ء (ایکٹ نمبر ٤٥ بابت ١٨٦٠ء) کی دفعات ٣٦٥ب، ٣٦٧الف، ٣٧١الف، ٣٧١ب، ٤٩٣الف اور ٤٩٦الف کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جرم قذف (نفاظ حد) آرڈیننس ١٩٧٩ء جسے بعدازاں ‘قذف آرڈیننس‘ کا نام دیا گیا ہے کی دفعات ١٢ اور ١٣ کو حذف کیا گیا ہے، یہ مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ ٣ میں قذف کی تعریف کے طور پر کیا گیا ہے جو طبع شدہ اور کنندہ شدہ مواد کی طباعت یا کنندہ کاری یا فروخت کے ذریعے ارتکاب کردہ قذف کو کافی تحفظ دیتی ہے۔ مذکورہ تعزیری جرائم میں سے کسی کی آئینی تعریف کے استعمال میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے یا ان کے لئے مقرر کی گئی سزا کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ ان تعزیری جرائم کے لئے کوڑوں کی سزا کو حذف کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن اور سنت میں ان جرائم سے متعلق کوئی سزا نہیں ہے۔ ریاست کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسلام کے منصفانہ نظریئے کے مطابق اس میں تبدیلی لائے۔ یہ پی پی سی کے مطابق اور شائشتگی کے معئار کو قائم کرنے کے لئے ہے جس سے معاشرے کی کامل ترقی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ زناء اور قذف کے آرڈیننس پر شہریوں کی طرف سے بالعموم اور اسلامی اسکالروں اور خواتین کی طرف سے بالخصوص سخت تنقید کی گئی۔ تنقید کے کئی موضوع تھے، ان میں زناء کے جرم کو زناء بالجبر (عصمت دری) کے ساتھ ملانا شامل ہے۔ اور دونوں کے لئے ثبوت اورسزا کی ایک ہی قسم رکھی گئی ہے۔ یہ بے جا سہولت دیتا ہے کوئی عورت جو عصمت دری کو ثابت نہیں کر سکتی اس پر اکثر زناء کا استغاثہ دائر کر دیا جاتا ہے، زناء بالجبر (عصمت دری) کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کے ثبوت کی ضرورت صرف اتنی ہے جتنی کہ زناء کے لئے ہے۔ یہ اول الذکر کو ثابت کرنے کے لئے تقریبا ناممکن بنا دیتا ہے۔
جب کسی مرد کے خلاف عصمت دری کے استغاثہ میں ناکامی ہو لیکن طبی معائنے سے جماع یا حمل کی یا بصورت دیگر تصدیق ہو جائے تو عورت کو چار عینی گواہوں کے نہ ہونے سے زناء کی سزا حد کے طور پر نہیں دی جاتی بلکہ تعزیر کے طور پر دی جاتی ہے، اس شکایت کو بعض اوقات اعتراف تصور کیا جاتا ہے۔
قرآن اور سنت زناء کے لئے تعزیری سزا کے مقتنی نہیں ہیں۔ یہ آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے والوں کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے اور قذف کے جرائم کے لئے تعزیری سزائیں نہ صرف اسلامی اصولوں کے منافی ہیں بلکہ استحصال اور نا انصافی کو جنم دیتی ہیں، انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ دستوری تعزیرات کو واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے، ممنوعہ اور غیر ممنوعہ کے درمیان واضح حد مقرر ہو۔ شہری اس سے آگاہ ہوں، وہ اپنی زندگی اور طور طریقوں کو ان روشن رہنما اصولوں کو اپناتے گزار سکیں لہذا ان میں وہ اور متعلقہ قوانین مین غیر واضح تعریفات کی وضاعت کی جا رہی ہے اور جہاں یہ ممکن نہیں ہے انہیں حذف کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ غیر محتاط شہریوں کو تعزیری قوانین کے غیر دانشمندانہ استعمال سے تحفظ بہم پہنچایا جائے۔ زناء آرڈیننس ‘نکاح‘ کی جائز نکاح کے طور پر تعریف کرتا ہے، بالخصوص دیہی علاقوں میں نکاح بالعموم اور طلاق کو بالخصوص رجسٹر نہیں کیا جاتا۔ کسی شخص پر زناء کا الزام لگانے کے لئے دفاع میں ‘جائز نکاح‘ کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔ رجسٹریشن نہ کرانا اس کے دیوانی منطقی نتائج میں صرف یہی کافی ہے کوئی نکاح رجسٹر نہ کرایا جائے یا کسی طلاق کی تصدیق کو تعزیری منطقی نتائج سے مشروط نہ کیا جائے۔ اس میں اسلامی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جب کسی جرم کے ارتکاب میں کوئی شبہ پایا جائے تو حد کو نافذ نہ کیا جائے، قانون مذکورہ مقدمات میں غلط استعمال کی وجہ سے سابقہ خاوندوں اور معاشرے کے دیگر ارکان کے ہاتھوں میں ظلم و ستم کا کھلونا بن گیا ہے۔
تین طلاقیں دیئے جانے کے بعد عورت اپنے میکے چلی جاتی ہے وہ دوران عدت جاتی ہے، کچھ ہی دنوں کے بعد خاندان کے لوگ نئے ناطے کا انتظام کر دیتے ہیں اور وہ شادی کر لیتی ہے، اس وقت خاوند یہ دعوٰی کرتا ہے کہ یئت ہائے مجاز کی طرف سے طلاق کی تصدیق کے بغیر نکاح ختم نہیں ہوا اور زناء کا مقدمہ دائر کر دیتا ہے یہ ضروری ہے کہ اسے ختم کرنے کے لئے اس تعریف کو حذف کر دیا جائے۔
زناء بالجبر (عصمت دری) کے جرم کے لئے کوئی حد موجود نہیں ہے، یہ تعزیری جرم ہے، لہذا عصمت دری کی تعریف اور سزا کو پی پی سی میں بالترتیب دفعات ٣٧٥ اور ٣٧٦ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ جنس کی مبہم تریف میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ عصمت دری ایک جرم ہے جس کا ارتکاب مرد عورت کے ساتھ کرتا ہے۔ عصمت دری کا الزام لگانے کے لئے عورت کی مرضی دفاع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ یہ انتظام کیا جا رہا ہے کہ اگر عورت کی عمر ١٦ سال سے کم ہو تو مذکورہ مرضی کو دفاع کے طور پر استعمال نہ کیا جائے یہ کمزور کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے، جس کی قرآن بار بار تاکید کرتا ہے اور بین الاقوامی قانونی ذمہ داری کے اصولوں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔
اجتماعی زیادتی کی سزا موت ہے۔ اس سے کم سزا نہیں رکھی گئی ایسے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں کا یہ مشاہدہ ہے کہ بعض حالات میں ان کی یہ رائے ہوتی ہے کہ کسی شخص کو بری نہیں کیا جا سکتا جبکہ عین اس وقت مقدمت کے حقائق اور حالات کے مطابق سزائے موت جائز نہیں ہوتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ مقدمات میں ملزم کو بری کرنے پر مجبور ہوتے ہیںاس معاملے کو نمٹانے کے لئے سزائے موت کے متبادل کے طور پر عمر قید کی سزا کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔
تعزیر زناء بالجبر (عصمت دری) اور اجتماعی زیادتی کی قانونی کاروائی کے لئے طریقہ کار، اس طرح دیگر تمام تعزیرات، پی پی سی کے تحت تمام جرائم کو مجموعہ ضابطہ فوجداری ١٨٩٨ء (ایکٹ نمبر ٥ بابت ١٨٩٨ء) بعدازیں ‘سی آر پی سی‘ کے ذریعے منضبط کیا گیا ہے۔
لعان انفساخ نکاح کی شکل ہے کوئی عورت جو کہ اپنے شوہر کی طرف سے بدکاری کی ملزمہ ہو اور اس الزام سے انکاری ہو اپنی ازواجی زندگی سے علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ لعان سے متعلق قذف آرڈیننس کی دفعہ ١٤ اس کے لئے طریقہ کار فراہم کرتی ہے۔ انفساخ نکاح کی آئینی تعزیر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی طرح، قانون انفساخ ازواج مسلمانان، ١٩٣٩ء (نمبر٨ بابت ١٩٣٨ء) کے تحت لعان کو طلاق کی وجہ کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
زناء اور قذف کی تعریف ویسی ہی رہے گی جیسا کہ زناء اور قذف آرڈیننسوں میں ہے۔ نیز زناء اور قذف دونوں کے لئے سزائیں ایک جیسی ہی ہوں گی۔
زناء سگین جرم ہے جو کہ لوگوں کو اخلاق کو بگاڑتا ہے اور پاکدامنی کے احساس کو تباہ کرتا ہے۔ قرآن زناء کو لوگوں کے اخلاق کے برعکس ایک جرم ٹھہراتا ہے۔ چار چسم دید گواہوں کی ضرورت بلا شرکت غیرے صریحاً غیر معمولی بار نہیں ہے۔ یہ بھی دعوٰٰی ہے کہ اگر حدیث کے برعکس ہو، ‘اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے گناہوں کو چھپاتے ہیں‘ جو کسی عمل کا ارتکاب اس طرح غل غپاڑہ کی صورت میں کرتے ہیں تاکہ طار آدمی اس کو دیکھ لیں، البتہ معاشرے کو بہت سنگین نقصان ہو گا۔ اسی وقت قرآن راز داری کو تحفظ دیتا ہے، بت بنیاد اندازوں سے روکتا ہے اور تحقیقات کرنے اور دوسروں کی زندگی میں دخل اندازی سے منع کرتا ہے۔ اس لئے زناء کے ثبوت کی ناکامی کی وجوہ کی بنا پر قذف کے لئے سزا عائد ہو جاتی ہے (زناء کے متعلق جھوٹا الزام) قرآن شکایت کنندہ سے زناء کو ثابت کرنے کے لئے چار چشم دید گواہ مانگتا ہے۔ شکایت کنندہ اور شہادت دینے والوں کو اس جرم کی سنگینی سے بخوبی آگاہی ہونی چاہئے کہ اگر انہوں نے جھوٹا الزام لگایا یا الزام کے شک کو دور نہ کر سکے تو وہ قذف کے لئے سزا وار ہوں گے۔ ملزم زناء کی قانونی کاروائی میں ناکامی کے نتیجے میں دوبارہ از سر نو قانونی کاروائی شروع نہیں کرے گا۔
زناء آرڈیننس خواتین پر استغاثہ کا بے جا استعمال کرتا ہے، خاندانی تنازعات کو طے کرنے اور بنیادی انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں سے انحراف کرتا ہے۔ زناء اور قذف کے ہر دو مقدمات میں اس کے بے جا استعمال پر نظر رکھنے کے لئے مجموعہ ضابطہ فوجداری میں ترمیم کی جا رہی ہے تاکہ صرف سیشن عدالت ہی کسی درخواست پر مذکورہ مقدمات میں سماعت کا اختیار استعمال کر سکے۔ اسے قابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے تاکہ ملزم دوران سماعت جیل میں یاسیت کا شکار نہ رہے۔ پولیس کو کوئی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ مذکورہ مقدمات میں کسی کو گرفتار کر سکے تاوقتیکہ سیشن عدالت اس کی اجازت نہ دے اور مذکورہ ہدایات ماسوائے عدالت میں حاضری کو یقینی بنائے جانے یا کسی سزا دہی کی صورت کے جاری نہیں کی جا سکتیں، مجموعہ تعزیرات کی صورت میں، عورت یا اس کے خاندان کے کسی فرد کی تشہیر نہیں ہو گی اور اس کی خلاف ورزی کی صورت میں چھ ماہ تک کی سزائے قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
مذکورہ تمام ترامیم کا بنیادی مقصد زناء اور قذف کو اسلامی احکام کے مطابق قابل سزا بنانا ہے۔ جیسا کہ قرآن اور سنت میں دیا گیا ہے۔ استحصال سے روکنا، پولیس کے بے جا اختیارات سے روکنا اور انصاف اور مساویانہ حقوق پر مبنی معاشرے کو تشکیل دیتا ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔