05 April, 2007

چند سیاسی لطیفے (خبریں

آجکل خبریں پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے انتہائی دلچسپ لطائف پڑھے جا رہے ہوں اسی لئے میں نے ان خبروں کو سیاسی لطیفوں کا نام دیا ہے۔

بینظیر سمیت سیاستدانوں کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والا نیب کا ذیلی ادارہ بند، اب ڈیل آخری مرحلے میں ہے، شیخ رشید

یہ تو ہونا ہی ہے آخر سیاستدانوں کو پاک صاف بھی تو کرنا ہے نا، ویسے آج سے پہلے تک یہی صاحب اس بات کی نفی کرتے رہے کہ ڈیل کسی صورت میں ممکن نہیں، مان لیا سیاسی مفادات کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پاکستان میں عدلیہ کی بالادستی قائم رہے گی، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ اپنے ادوار میں ججوں اور آرمی چیف کی تقرریوں میں ملوث رہے۔ شجاعت

بالادستی قائم و دائم ہے مبارک ہو چوہدری صاحب، زبردست آپ نے سوچا کہ اس نیک کام میں ہم کیوں پیچھے رہیں، داد دینی پڑے گی آپ کو، ویسے نواز دور میں آپ بھی اس نیک کام میں شریک تھے اور پھر نواز شریف نے ایک ایسے شخص کو آرمی چیف بنایا جو آجکل آپ کے باس ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو کیا اس میں بھی گھپلہ تھا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاک فوج کے خلاف نعرے لگانے والوں کو ڈنڈے نہیں گولی مارنی چاہئے، شجاعت

بالکل سہی کہا چوہدری صاحب نے اب گولی کی کسر ہی باقی رہ گئی ہے اس کا شوق بھی پورا کر لیں، آج سلطان راہی مرحوم کی شدت سے یاد آ رہی ہے کاش وہ زندہ ہوتے تو آج وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں چوہدری صاحب کو جواب دیتے، جسے سن کر ہال یقینا تالیوں سے گونج اٹھتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فوج کیخلاف نعروں پر صدر کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔ شجاعت کا امریکہ سے پاکستان پہنچنے پر کارکنوں سے خطاب

لو کر لو گل، صدر اور بے خبر یا اسے کچھ اور کہنا چاہیے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپوزیشن کے اتحاد کیلئے ہرقربانی دینے کیلئے تیار ہیں، فضل الرحمن

مگر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیف جسٹس کوغیرفعال بنانے پروکلاء اوراپوزیشن کا احتجاج

حکومت اسی لئے پیشی پر پیشی دے رہی ہے تاکہ یہ احتجاج ٹھنڈا ہو تو فیصلہ سنایا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہری پلاسٹک تھیلیوں کا استعمال ازخود ترک کر دیں، وزیر ماحولیات

مگر حکومت اس سہولت سے فائدہ اٹھاتی رہے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ یادیں کچھ باتیں ذوالفقار علی بھٹو کی، بی بی سی اردو کے وسعت اللہ خان کی زبانی

جب پانچ جولائی کی صبح ریڈیو پاکستان سے چھ بجے کی خبروں میں یہ اعلان نشر ہوا کہ مسلح افواج نے ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے اور سابق وزیرِ اعظم بھٹو اور انکی کابینہ کو حفاظتی حراست میں لے لیا گیا ہے تو سردار موچی نے ایک ٹانگ پر رقص کرتے ہوئے پورے محلے کے بچوں میں لڈو بانٹے۔ ایک لڈو میں نے بھی کھایا۔ اس وقت تو کچھ نہیں ہوا لیکن وقت گزرتے گزرتے یہ لڈو میرے سینے میں پتھر کا گولہ بن گیا۔
میں ایک آٹھ سالہ بچے کے طور پر انیس سو ستر کے جس ذوالفقار علی بھٹو کو جانتا ہوں وہ بہت مزیدار بھٹو تھا۔ مولویوں اور حریف سیاستدانوں کی نقالی کرنے والا بھٹو۔ آستینیں چڑھا کر گریبان کے بٹن توڑتے ہوئے پاگل مجمع پر کوٹ اچھال دینے والا بھٹو۔ روٹی، کپڑا، مکان اور غریب کا منتر جپتے ہوئے آنکھوں میں آنسو بھر لانے والا بھٹو۔ خون چوس سرمایہ داروں اور وڈیروں کو گالی دینے اور ہزار سال کی جنگ کی بڑک لگانے والا اور اندرا گاندھی کے پنجوں سے پاک فوج کو نجات دلانے والا بھٹو۔۔۔
پھر جانے کب اور کیوں میرا مزیدار بھٹو کلف زدہ وزیراعظم بھٹو کے پیچھے چھپ گیا۔ اس پر ان پیشہ ور مگرمچھوں، ٹمنوں، گیلانیوں، مخدوموں، سرداروں اور ٹیکنو کریٹس نے کنڈلی مارلی جو اس وقت کہیں نہیں تھے جب ایوب خان کے خوف سے کوئی ہوٹل بھٹو کو ایک رات کی بکنگ دینے اور کوئی وڈیرہ مہمان بنانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ اس وقت بھٹو کے آگے پیچھے ریڑھے والوں، موچیوں، خوانچہ فروشوں، کنگلے طالبِ علموں اور جوگیوں کے سوا کوئی پر نہیں مار سکتا تھا۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بھٹو کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں مسیحا کو اپنا دل دیا تھا۔
مگر بھٹو نے جب ان سادہ دلوں سے فلرٹ کیا تو خود بھٹو بھی پیشہ ور شکاریوں کے جال سے نہ بچ سکا۔ شاید اسی لیے پورے پاکستان میں چار اپریل انیس سو اناسی کو حالت یہ تھی کہ

ہو کا عالم ہے یہاں نالہ گروں کے ہوتے
شہر خاموش ہیں شوریدہ سروں کے ہوتے

مگر خواب فروش بھٹو کی پھانسی سے پہلے اور بعد میں بھی بھٹو کو انہی عاشقوں نے یاد رکھا، خود سوزیاں کیں، کوڑے کھائے اور پھندے گلے میں ڈالے جنہیں خود بھٹو نے اقتدار کے آ خری دو تین برس کے دوران کھیل سے باہر کردیا تھا۔

عشاق کا یہ بینک بیلنس اتنا بڑا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی سے پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بننے کے باوجود آج بھی اس کے سود پر چل رہی ہے۔

سالِ گزشتہ میں نے پاکستان کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ضلع چترال کے بھی دور دراز علاقے مستوج میں ایک شخص کے حجرے میں بھٹو کی تصویر لٹکی دیکھی۔ کہنے لگا بھٹو ایک دفعہ یہاں آیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ چترال سے گلگت جانے والے راستے کو شاہراہ ریشم کی طرح پکا اور چوڑا کردے گا۔
میں نے کہا کہ ایسا تو نہیں ہوا۔راستہ تو آج بھی دشوار گزار ہے۔ کہنے لگا بھٹو نے کم ازکم یہاں آ کر وعدہ تو کیا۔۔کسی اور سے تو یہ بھی نہ ہوسکا۔۔

تو کیا بھٹو کو پھانسی سے بچایا جاسکتا تھا۔

میرے ساتھی شاہد ملک کا خیال ہے کہ چار اپریل کو اگر اتنے ہی ٹی وی چینل ہوتے جتنے آج ہیں تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی ۔۔۔

آپ کیا کہتے ہیں ؟؟؟

2 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

اسلام وعلیکم
ایک لطیفہ میں نے بھی چند دن پہلے پڑھا تھا۔ سندھ کے وزیر اعلٰی جناب ڈاکٹر ارباب رحیم نے ارشاد فرمایا،
“بینظیر ، نواز شریف کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہیں ہیں۔“
نواز شریف صاحب شریف تھے یہ تو ہمیں معلوم تھا مگر وہ معصوم بھی ہیں اس بات کا علم ہمیں نہیں تھا۔ یہ بیان پڑھ کر مجھے بے اختیار یہ شعر یاد آیا،
تم احمق تو ہرگز نہیں ، البتہ معصوم ضرور ہو
اورمعصومیت وحماقت میں پل بھرکافاصلہ ہے
فی امان اللہ

4/23/2007 04:08:00 PM
Unknown نے لکھا ہے

ہا ہا ہا، خوب کہا آپ نے، سیاستدان بیچارے تو ہوتے ہی معصوم ہیں اور ان معصوموں میں سب سے بڑے معصوم ہمارے صدر صاحب ہیں۔

4/23/2007 04:08:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب