21 April, 2007

دو بیان

پہلا بیان
‘ہمارا خاندان صرف لفظوں پر نہیں بلکہ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں خواہ وہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل ہو یا بھارت کو ترقی دینے کا، ہمارا خاندان جس ہدف کا تعین کرتا ہے اسے حاصل بھی کر لیتا ہے اور پاکستان کو توڑنا ہمارے خاندان کا اہم کارنامہ ہے‘۔
یہ الفاظ کانگریس کے لیڈر، رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی کے ہیں۔ جو مستقبل کے بھارتی وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے یہ جملے اترپردیش میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہے۔
دوسرا بیان
‘بھارت پاکستان کو غیرمستحکم دیکھنا چاہتا ہے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں ان کی مداخلت راہول گاندھی کے اس بیان سے ثابت ہو گئی ہے۔ دفاعی لحاظ سے آج کا پاکستان 1971ء کے پاکستان سے بہت مختلف ہے‘۔
دفتر خارجہ کا بیان، دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کی زبانی
پہلے بیان کے بارے میں مزید تفصیل اگلی پوسٹ میں، یہاں میرا مقصد آپ کی توجہ دوسرے بیان کی طرف دلانا ہے۔ دونوں بیان پڑھنے کے بعد آپ کیا سوچتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کے خیال میں یہ بیان پاکستانی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتا۔ راہول کے اس بیان نے ہماری قوم کے زخم پھر سے تازے کر دیئے جو وقت گزرنے کے ساتھ شاید اب بھرنے لگے تھے یا جنہیں ہم کافی حد تک بھول چکے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ راہول کے اس بیان پر پاکستان ایک بھرپور احتجاجی مہم چلاتی جس سے انہیں احساس ہوتا کہ پاکستانی قوم کا ایک بازو جدا ہوا وہ تو اس زخم اور صدمے کے بعد اب سنبھل چکی ہے مگر جس نے یہ بازو جدا کیا، جس نے زخم دیئے اس کے ذہن میں آج بھی اس کا یہ کارنامہ تروتازہ ہے۔ اور وقت آنے پر اسے یہ سود سمیت لوٹانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔

3 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

پاکستانی حکمران اب بھی بھارت دوستئ پر یقین رکھتے ہیں - ورنہ دنیا کو پتا ہے کے
ھندو بنیا کی بغل میں چھری منہ پر رام رام

4/23/2007 02:55:00 PM
Unknown نے لکھا ہے

بالکل صحیح کہا ‘عوام‘ آپ نے، پسپائی کی وجہ ہی یہی ہے کہ حکمران آج تک ان کی چالوں کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ بھارت دوستی کا ڈھول پیٹنے والے ہمارے ان حکمرانوں نے ہمیشہ ان کے منہ پر ہی نظر رکھی ہے، بغل میں جھانکنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

4/23/2007 02:56:00 PM
Anonymous نے لکھا ہے

میر صاحب نے کہا تھا، ؎
کیا سادہ ہیں میر، بیمارے ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
(اگر غلطی ہو تو درست کر دیں)
ہم نے بنگلہ دیش بننے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کملیشور نامی ایک ہندوستانی مصنف حال ہی میں فوت ہوئے ہیں ان کی ایک مشہور کتاب تھی ’’کتنے پاکستان‘‘۔ آج جب میں وانا، بلوچستان، میرانشاہ اور نہ جانے کہاں کہاں آگ لگی دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں۔۔’’کتنے بنگلہ دیش‘‘ بننے کو ہیں۔
خدا اس ملک کو ہمارے شر سے سلامت رکھے۔

4/23/2007 02:57:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب