24 April, 2007

لوہے کے چنے

پچھلے دنوں آپ نے راہول گاندھی کے یہ الفاظ تو لازمی سنے ہوں گے کہ
‘ہمارا خاندان صرف لفظوں پر نہیں بلکہ عمل پر یقین رکھتا ہے۔ ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں خواہ وہ پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل ہو یا بھارت کو ترقی دینے کا، ہمارا خاندان جس ہدف کا تعین کرتا ہے اسے حاصل بھی کر لیتا ہے اور پاکستان کو توڑنا ہمارے خاندان کا اہم کارنامہ ہے‘۔
یہ سچ ہے کہ چانکیہ ذہنیت نے مشرقی پاکستان کو ‘بنگلہ دیش‘ ضرور بنا دیا مگر اس کا سکہ آج تک وہاں نہ چل سکا، دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعوٰی کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے دو قومی نطریے کو مزید تقویت ملی کیونکہ ایک اور اسلامی ملک صفحہ ہستی پر ابھر آیا ہے۔ دبئی میں قیام کے دوران ایک بنگلہ دیشی بھائی سے اس سلسلے میں تفصیلی بات چیت ہوئی تھی، اس کے بقول جتنی نفرت آجکل بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف پائی جاتی ہے پہلے کبھی نہ تھی اور حد یہ کہ علیحدگی کے باوجود وہاں پاکستان کے لئے بے پناہ محبت موجود ہے۔ میرا دعوٰی ہے کہ آج بھی اگر عوامی سطح پر ریفرنڈم ہو تو مسلمانوں کے ننانوے فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں آ جائیں گے۔
گو کہ راہول کا یہ بیان انتہائی توجہ کا حامل ہے کیونکہ مستقبل کے بھارت کی باگ دوڑ اسی کے ہاتھ میں ہے مگر میں اسے زیادہ اہمیت نہیں دینا چاہتا۔ اس لئے چلتے ہیں راہول کی ماتا سری متی سونیا گاندھی کی طرف جس نے راہول کے کچے ذہن میں ایسی گندگی بھر دی ہے۔
کچھ سال پہلے ایسا ہی ایک بیان سونیا گاندھی نے بھی دیا تھا کہ
‘بھارت ماتا کے ٹکڑے مذہبی جنونیوں نے کئے تھے، ہماری ثقافتی یلغار نے پاکستان کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں، ہم نے اپنی ثقافت متعارف کرا کر ایسی جنگ جیتی جو ہتھیاروں سے جیتنا مشکل ہے، دو قومی نظریہ بکھر گیا، آج ہر پاکستانی بچہ بھارتی کلچر کا دلدادہ ہے، اب پاکستان جلد ٹوٹ جائے گا، ہمیں جنگ کرینکی ضرورت نہیں‘
بھارت قیادت آئے روز ایسے بیان دیتے ہوئے یہ بھول جاتی ہے کہ مسلمان تو لوہے کے چنے ہیں جو نگلے نہیں جاتے، حلق میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ اپنے بھارت کو ہی دیکھ لیں، جہاں کروڑوں مسلمان آئے دن خون کے دریاؤں سے گزرتے ہیں پھر بھی اسلام سے ‘باز‘ نہیں آتے۔ اسی ‘جرم مسلمانی‘ کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر پر آتش و آہن کی بارش ہو رہی ہے، جنت نظیر کے مکان اور مکین شعلہ ریز، شعلہ خیز ہو کر خود چناروں کا سماں پیش کرنے لگے ہیں لیکن ہندو تہذیب و ثقافت میں ضم ہونے کو تیار نہیں۔
گاندھی خاندان نہ جانے کس غلط فہمی میں مبتلا ہے، راہول کی دادی اور سونیا کی ساسوماں اندرا گاندھی کو بھی یہی گھمنڈ تھا کہ انہوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے مگر بھارت کے اندر ہی ‘متعدد قومی نظریے‘ کے سپوتوں نے انہیں پرائم منسٹر ہاؤس میں ہی ڈھیر کر دیا اور ثابت کر دیا کہ ‘دو قومی نطریہ‘ تو دور کی بات ہے پہلے اس ‘متعدد قومی نظریے‘ کے برگ و بار تو بھگت لیں!
سونیا کا دعوٰی ہے کہ ‘بھارت ماتا کے ٹکڑے مذہبی جنونیوں نے کئے تھے‘۔ سونیا کو تحریک پاکستان کے بارے میں شاید کسی نے آگاہ نہیں کیا یا انہوں نے ٹھیک طرح جاننے کی کوشش ہی نہیں کی، سونیا کے علم میں ہونا چاہیے کہ پاکستان کی تحریک اور باگ دوڑ اور جدوجہد اعلٰی درجہ کے تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔
کاش آج سر وجنتی نائیڈو زندہ ہوتیں تو انہیں بتاتیں کہ جناح صاحب کیا تھے؟
کاش آج وجے لکشمی پنڈت موجود ہوتیں تو انہیں سید حسین کی کہانی سناتیں اور بتاتیں کہ بدترین عصیبت پر مبنی ہندو ذہنیت نے کیا گل کھلائے تھے۔
رہی بات بھارت کی ثقافتی یلغار کی جس پر اسے ہمیشہ ناز رہا ہے، اس پر میں یہ کہوں گا کہ ہندوؤں کے گیتوں، بھجنوں، دیویوں، دیوداسیوں اور دیپ مالاؤں کی پھلجڑیوں سے اس برصغیر کے مسلمان ہمیشہ لطف اندوز ہوتے آئے ہیں۔ بھارت پر مسلمانوں کے گیارہ، بارہ سو سالہ حکومت کے دوران، مسلمان حکمرانوں کے شاہی محلوں سے یہ پلجھڑیاں چھوٹتی رہیں اور گیتوں کی تاتیں ابھرتی رہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہندو ثقافت مسلمان حکومتوں پر قابض ہو گئی تھی؟ اور اگر اسے سچ مان لیا جائے تو پھر پنڈت جواہر لال نہرو اس گیارہ بارہ سو سالہ حکومت کو بھارتی تاریخ سے خارج کر دینے پر کیوں مصر تھے؟ حقیقتا مسلمانوں کی سرشت اور خصلت (برصغیر کی حد تک) میں زندہ دلی کا عنصر ہمیشہ موجود رہا ہے اور یہی نہیں بلکہ رعایا کا دل لبھانے کے لئے مسلمان حکمرانوں نے بہت سے ‘حرکتیں‘ بھی کی ہیں جو شاہی حرموں میں دیویوں اور بائیوں کی شکل میں پائی جاتی رہی ہیں۔ اس کا مطلب ‘مفتوح و محکوم‘ ہونا کبھی نہیں تھا بلکہ یوں کہیئے کہ یہ صلح جوئی اور رواداری کے نمونے تھے۔
بھارتی ثقافت کی اتنی اوقات کہاں، مسلمان تو مغرب کے کرسچئین، دہریہ اور بدکار ماحول میں بھی رہ کر اندر سے مسلمان ہی نکلتا ہے اسی لئے مغربی حکمرانوں کو ہمیشہ سے ان کے ‘بنیاد پرست‘ ہونے ہر شکایت رہی ہے۔ بے چاری ہندو تہذیب کے بس میں کہاں کہ وہ لوہے کے ان چنوں کو چبا سکے۔
مقبوضہ کشمیر کو ہی دیکھ لیں جہاں بھارتی ثقافت بلا روک ٹوک موجود ہے لیکن اس کے نوجوان اس ثقافت کے خلاف کفن بدوش اور سربکف اٹھ کھڑے ہیں۔ ساٹھ سال بعد بھی بھارتی ثقافتی یلغار ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
پاکستانی نوجوان بے شک بھارتی دیویوں کے رقص و سرور سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن یہ لازم نہیں ٹھہرتا کہ بھارتی ثقافتی یلغار نے انہیں مفتوح و مغلوب کر لیا ہے۔ یہ ہندو ثقافت تو قیام پاکستان سے پہلے بھی موجود تھی تو کیا اس نے کبھی مسلمانوں کے دل بھی موہ لئے تھے؟
اس سب کے باوجود راہول کے اس بیان اور گاندھی خاندان اور قیادت کے عزائم سے بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھانے والوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو اس ملک کو روشن خیال، لبرل اور سیکولر کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں، اِنہیں اب جان لینا چاہیے کہ وہ خواب بھی دیکھتے ہیں تو صرف پاکستان توڑنے کے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب