25 April, 2007

لوہے کے چنے پر تبصرہ


لوہے کے چنے پر کیا گیا ساجد بھائی کا بے باک اور بے لاگ تبصرہ، جسے میں نے وہاں سے حذف کر کے یہاں پوسٹ کر دیا ہے تاکہ اس بارے میں آپ بھی اپنے مشاہدے اور تجربے سے ہمیں آگاہ کر سکیں۔

عزیز دوست، میں آپ کی تحریر کردہ ایک بات کے علاوہ باقی سب سے اتفاق کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ بنگالیوں کے دل میں آج بھی پاکستان کے لئیے “بے پناہ“ محبت موجود ہے۔ جنابِ من، میں 13 سال سے سعودیہ میں مقیم ہوں۔ ایک دو نہیں دنیا کے تقریبَا تمام معروف ممالک کے لوگوں کے ساتھ کافی ملنا جلنا رہتا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس سراب سے باہر آ جانا چاہئیے کہ بنگالی آج بھی ہمارے لیے کسی قسم کے نیک جذبات رکھتے ہیں۔ شاید کسی بنگالی نے منافقت سے کام لیتے ہوئے آپ کے سامنے کہہ دیا ہو کہ 99 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں آئیں گے۔ یہ لوگ آج بھی پاکستان سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی کہ ان کی نسوں میں 1970-71 میں بھارت نے بھری تھی۔ اگر یقین نہیں آتا تو ورلڈ کپ کا ایک میچ جو کہ ہم نے برادرانہ جوش میں آ کر ان کو جتوایا تھا اس کے بعد کے ان کی حسینہ کے بیانات کو پڑھ کرلیجئیے آپ کی طبیعت کو سکون آ جائے گا۔ ا تفاق سے دوسری مثال بھی کرکٹ ہی سے ہے ابھی حال ہی میں ان کے منہ پھٹ کپتان نے جس طریقے سے پاکستان پر طنز کرتے ہوئے احسان فراموشی کا جو شاندار مظاہرہ کیا ہے وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔
اسی پر بس نہیں میرے پاس یہاں 2 بنگالی نوکری کرتے ہیں۔ ایک دن ایک بنگالی کو میں نے کام کے دوران کہا کہ اس لائن کے وولٹیج چیک کرو تو وہ کچھ ہچکچایا میں نے کہا چھوڑو اگر بجلی سے ڈرتے ہو تو میں خود چیک کر لوں گا تو اس کا جواب تھا “ہم تو 71 میں نہیں ڈرے تھے اب کیا ڈریں گے“۔
یہاں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ میرا کام ائر کنڈیشننگ کا ہے اور یہ دونوں بنگالی الیکٹریشن ہیں۔ اور یہ دونوں نہ صرف میرے ملازم ہیں بلکہ انہوں نے کام بھی مجھ ہی سے سیکھا ہے۔ ملاحظہ فرمائی آپ نے بنگالی اخوت؟
محترم! مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم پاکستانی اپنوں کا تو ذرا ذرا سی بات پر گلا کاٹنے کو تیار رہتے ہیں۔ کبھی شیعہ سنی کی بنیاد پر تو کبھی صوبائیت کی بنیاد پر۔ کبھی لسانی بنیادوں پر تو کبھی سیاسی بنیاد پر۔ اور ہم کو اپنی قوم کے سوا ساری دنیا اچھی لگتی ہے۔ کبھی افغانی کو اپنا بھائی بنا کر گلے لگایا تو وہ ہمیں کلاشنکوف، ہیروئن ، اغواء برائے تاوان اور قانون شکنی کے ایسے ایسے گر سکھا گیا کہ جن سے یہ قوم پہلے نا بلد تھی۔ وسط ایشیا کے لوگوں کو روس کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئیے پناہ دی تو وہ آج پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہاں سعودیہ میں منشیات سمگل کرنے کی سزا موت ہے۔ جب بھی کوئی پاکستانی منشیات کا دھندہ کرتا پکڑا جاتا ہے تو میں یہ دیکھ کر سر پکڑ کر رہ جاتا ہوں کہ وہ اصل میں افغانی یا ازبک ہے اور اس کے پاس پاسپورٹ پاکستان کا ہے۔ جب سعودی ٹی وی پر خبرنامے کے دوران یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ آج فلاں شہر میں منشیات سمگل کرنے پر ایک پاکستانی فلاں ولد فلاں کا سر قلم کر دیا گیا تو مت پوچھئیے کہ دل پر کیا گزرتی ہے۔
ایک چکر اسلام آباد کا تو لگائیے اور شمار کیجئیے کہ “مہاجرین“ کے پاس جتنی شاندار اور بڑی کاریں ہیں اس کا عشر عشیر بھی کیا پاکستانیوں کے پاس ہے؟ بات موضوع سے دور ہٹ رہی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں جذباتیت ترک کر کے حقیقت میں رہنا سیکھنا ہو گا۔ ورنہ ہر کوئی ہم لوگوں کو اسلام اور بھائی چارے کی بنیاد پر الو بنا کر اپنا الو سیدھا کرتا رہے گا۔ ہمیں اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئیے کہ ہماری بقا صرف اپنی قوم اور وطن کے ساتھ مخلص رہنے میں ہے۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو وہ ہمارا بھائی ہے لیکن جب کوئی برادران یوسف کا کردار ادا کرے تو ہمیں اس کو مسترد کر دینا چاہئیے۔ اگر کسی صاحب کو سعودیہ یا خلیج کے کسی ملک میں رہنے کا موقع ملا ہو تو وہ آپ کو مزید بہتر طریقے سے بتا سکتے ہیں کہ قانونی طور پر قیام پذیر ہونے کے با وجود یہاں غیر ملکیوں کی کتنی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ کیا یہ لوگ نہین جانتے کہ ہم سب مسلمان ہیں؟
رہی بات گاندھی فیملی کی تو عرض ہے کہ بنگلہ دیش انہوں نے نہیں بنایا بلکہ ہمارے اس وقت کے نا اہل حکمرانوں نے بنایا۔ اور کچھ بنگالی قوم کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ اس کو ایک مقام پر کبھی قرار نصیب نہیں ہوتا۔ شیخ مجیب کا قتل بمعہ اہل و عیال اس کی زندہ مثال ہے بنگلہ دیش بنا کر بھی آج تک وہ اپنے قومی ہیرو کا فیصلہ نہیں کر سکے۔
راہول گاندھی ابھی بچہ ہے اس کو اس کی ماں نے شاید یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان توڑنے میں بھی اسی خاندان کے “بزرگوں“ کا ہاتھ تھا۔ اگر وہ مسلمانوں کو ان کے حقوق دیتے تو پاکستان بنانے کی نوبت نہ آتی۔ پر کیا کرتے وہ بیچارے آخر چانکیہ کی آتما کو شانتی پہنچانے کے لئیے یہ “شبھ“ کام کرنا ان کی مجبوری تھی۔ ورنہ تو اپنے پیارے قائد نے بھی حتیٰ المقدور کوشش کی تھی کہ کانگریس “بندے کی پتر“ بن جائے اور برصغیر ایک وحدت ہی رہے۔
صرف 60 سال کی عمر ہے اس پاکستان کی جو ہزاروں سال کے جہاندیدہ اور گھاگ ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ جی ہاں یہ وہی پاکستان ہے کہ آزادی کے وقت جس کی حکومت کے دفاتر درختوں کے نیچے سجتے تھے اور اوراق کو نتھی کرنے کے لئیے کیکر کے کانٹے استعمال ہوتےتھے۔
ایک مضبوط پاکستان اس وقت خود بھارت کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ ورنہ اس ایک پاکستان کو ختم کرنے کے ناپاک منصوبے بناتے بناتے اس کو مزید کم از کم 1 پا کستان ، 1 خالصتان، ناگا لینڈ، آسام ، اروناچل پردیش اور سکم تو دنیا کے نقشے پر سجانا ہی پڑیں گے۔ اور پھر جب عمارت گرتی ہے تو اس کے ملبے کے گرنے سے چھوٹی موٹی دیواریں بھی ڈھے ہی جاتی ہیں۔ اور یہ نیک کام کرنے کے لئیے انکل سام اس خطے میں پہلے ہی سے بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کسی کا دوست نہیں بھلے “رنگین تتلیوں“ والا بھارت ہو یا یس باس کہنے والا پاکستان۔ اس کو اپنا مفاد عزیز ہے اور اس کا مفاد اسی میں ہے کہ راہول جیسے بونگے اس خطے میں سیاست کی باگ ڈور سنبھالیں تا کہ اس کا کام آسان ہو۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب