چلو چلو سٹیڈیم چلو
آج صدر جنرل پرویز مشرف ڈیرہ غازی خان ایک جلسے سے خطاب فرمائیں گے، پورا شہر خوش آمدید کے بینروں سے بھرا ہو ہے، ہر طرف چلو چلو سٹیڈیم چلو کے نعرے لکھے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں خطاب کے بعد صدر صاحب راجن پور میں فرید بیس پر معززین سے ملاقات کریں گے اور ساتھ ہی انڈس ہائے وے کا افتتاح بھی کریں گے۔
ہمارے صدر صاحب نے جو خطابوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے اور کچھ ہو نا ہو حکومتی خزانے پر بہت برا اثر پڑے گا۔ اب یہی دیکھ لیں صدر کے جلسے میں تیار کے گئے ائرکنڈیشنز پنڈال پر تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے لاگت آئی ہے، شرکاء میں پارسل کھانے کی تقسیم اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
جسلہ گاہ انتظامات مکمل طور پر پاک فوج نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ کل شام اور آج صبح اسلام آباد ہیلی کاپٹر پر عملہ آیا اور جلسہ گاہ کے انتظامات کا جائزہ لیکر واپس چلا گیا۔ جلسہ گاہ کے اطراف کی رہائشی آبادیوں ماڈل ٹاؤن، رکن آباد کالونی، بھٹہ کالونی اور پروفیسرز کالونی میں سیکڑوں پولیس اہلکار مسلسل گشت کر رہے ہیں۔ آنے جانے والے تمام افراد کو مکمل طور پر چیک کیا جا رہا ہے۔ جبکہ آج علی الصبح فیصل چوک آؤٹ ایجنسی سے گدائی چوک تک، نیو کالج روڈ چوک سے پل ڈاٹ تک اور جام پور روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری اور ضلع ناظم سردار مقصود احمد خان لغاری میں ‘ان بن‘ کی وجہ سے جلسہ گاہ جلسہ گاہ کے پنڈال کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں دائیں طرف سردار فاروق احمد خان لغاری گروپ اور بائیں طرف ضلع ناظم گروپ اپنے خیر مقدمی بینروں سمیت موجود ہوں گے۔ سٹیج پر پانچ کرسیاں فرنٹ پر اور باقی کرسیاں پیچھے کی طرف لگائی گئی ہیں جو ایم این اے اور ایم پی ایز کے لئے مختص ہوں گی۔ سٹیج پر صدر کے لئے گرین لائن اور ہاٹ لائن فون بھی نصب کر دیئے ہیں۔ ضلع ناظم سردار مقصود احمد خان لغاری صدر مشرف کو مقامی بلوچی ثقافت کے حوالے سے پگڑی پہنائیں گے۔
جلسے میں عوم کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے لئے ہر ناظم کو دس گاڑیاں دی گئی ہے، ہمارے ایک جاننے والے ناظم صاحب نے کہا ہے کہ دس گاڑیاں تو مل گئی ہیں پر اس میں بیھٹنے والے لوگ کہاں سے لاؤں، کوئی بھی جلسہ گاہ جانے کو تیار نہیں، میں نے اپنے علاقے کے لوگوں سے جب اس بارے میں کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘گوڈا توں ساکوں مرواون چاہدیں (جناب آپ ہمیں مروانا چاہتے ہیں کیا؟)۔
صدر کا خطاب اپنی جگہ، مگر اس کی وجہ سے عوام جو مسلسل پانچ چھ روز سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی۔ شہر کی پوری ٹرانسپورٹ سرکاری قبضے میں ہونے کی وجہ سے مسافر بیچارے ١٠ روپے والے سفر پر ١٠٠ روپے کرایہ دینے پر مجبور ہیں، ان کی دعائیں اور بددعائیں کس کے سر ہوں گی جسلہ گاہ میں آج اگر اس کا بھی حساب ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔ ؟
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔