دو ٹھگوں کی کہانی
کسی زمانے میں برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز میں ایک خیالی تصویر چھپی تھی جس میں ایک طرف روس کے سابق صدر اور اُس وقت کے صدارتی امیدوار بورس یلسن اور دوسری طرف کمیونسٹ امیدوار گناڈی زگانوف تھے دونوں میں ایک بدحال روسی خاتون کے سر پر پستول تان رکھے تھے۔ اس تصویر کا عنوان تھا ‘دو ٹھگوں کی کہانی‘ مجھے یہ کہانی صرف روس کی ہی نہیں بہت سارے دوسرے ملکوں کی بھی لگتی ہے، یہی کہانی بنگلہ دیش کی ہے، یہی کہانی اپنے پاکستان کی بھی ہے۔
اس تصویر اور اور اس وقت کے روسی انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک تجزیہ نگار نے لکھا تھا کہ ‘یلسن کو اس لئے جیت جانا چاہیے کہ وہ ١٩٩١ء میں سویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اقتدار میں ہیں اور ان کے دوستوں، مشیروں اور تاجر برادری میں موجود حامیوں نے پہلے ہی وہ سب کچھ لوٹ لیا ہے جو اقتدار میں آ کر لوٹا جا سکتا ہے۔ وہ توانائی، کانوں اور صنتعی شعبے کو اپنے مفاد کے مطابق ‘پرائیوٹائز‘ کر چکے ہیں، وہ سوئٹزرلینڈ میں بینک اکاؤنٹ کھول چکے ہیں اور نائٹس برج میں مکان خرید چکے ہیں۔ اگر یلسن دوبارہ منتخب ہو جائیں تو مزید کچھ نہیں لوٹیں گے۔ دوسری صورت میں اگر زگانوف اور اوسط درجے کے سیاسی کھڑپینچوں پر مشتمل ان کے حامیوں کی فوج کریملن میں داخل ہو گئی تو وہ ‘خالی پیٹ‘ ہو گی۔ انہیں دوبارہ ‘پرائیوٹائز‘ کرنے قواعد کو ازسرنو منتخب کرنے اور بیوروکریسی کی تنظیم نو کرنے کے عمل سے گزرنا پڑے گا تاکہ وہ بھی سوئٹزرلینڈ بینکوں میں اکاؤنٹ کھول سکیں اور نائٹس برج میں اپنا گھر بنا سکیں۔ ایسا ہو تو روسی ریاست کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔
بالکل یہی صورت حال اس وقت پاکستان میں بھی مجھے نظر آ رہی ہے، ایک طرف موجودہ حکومت جو ‘پرائیوٹائز‘ کے عمل سے جیسے تیسے گزر کر آسودہ ہو چکی ہے اور دوسری طرف میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔ جنہیں ‘بےروزگاری‘ کاٹتے ہو تقریبا سات سال سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے۔
اس تصویر اور اور اس وقت کے روسی انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک تجزیہ نگار نے لکھا تھا کہ ‘یلسن کو اس لئے جیت جانا چاہیے کہ وہ ١٩٩١ء میں سویت یونین کے خاتمے کے بعد سے اقتدار میں ہیں اور ان کے دوستوں، مشیروں اور تاجر برادری میں موجود حامیوں نے پہلے ہی وہ سب کچھ لوٹ لیا ہے جو اقتدار میں آ کر لوٹا جا سکتا ہے۔ وہ توانائی، کانوں اور صنتعی شعبے کو اپنے مفاد کے مطابق ‘پرائیوٹائز‘ کر چکے ہیں، وہ سوئٹزرلینڈ میں بینک اکاؤنٹ کھول چکے ہیں اور نائٹس برج میں مکان خرید چکے ہیں۔ اگر یلسن دوبارہ منتخب ہو جائیں تو مزید کچھ نہیں لوٹیں گے۔ دوسری صورت میں اگر زگانوف اور اوسط درجے کے سیاسی کھڑپینچوں پر مشتمل ان کے حامیوں کی فوج کریملن میں داخل ہو گئی تو وہ ‘خالی پیٹ‘ ہو گی۔ انہیں دوبارہ ‘پرائیوٹائز‘ کرنے قواعد کو ازسرنو منتخب کرنے اور بیوروکریسی کی تنظیم نو کرنے کے عمل سے گزرنا پڑے گا تاکہ وہ بھی سوئٹزرلینڈ بینکوں میں اکاؤنٹ کھول سکیں اور نائٹس برج میں اپنا گھر بنا سکیں۔ ایسا ہو تو روسی ریاست کو بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔
بالکل یہی صورت حال اس وقت پاکستان میں بھی مجھے نظر آ رہی ہے، ایک طرف موجودہ حکومت جو ‘پرائیوٹائز‘ کے عمل سے جیسے تیسے گزر کر آسودہ ہو چکی ہے اور دوسری طرف میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔ جنہیں ‘بےروزگاری‘ کاٹتے ہو تقریبا سات سال سے اوپر کا عرصہ ہو چکا ہے۔
بتائیے آپ کس کو ووٹ دیں گے؟
رہا کسی چوتھے کا سوال تو وہ نہ آپ کو پسند ہے اور نہ مجھے چاہے وہ مولانا فضل الرحمٰن، قاضی حسین احمد یا عمران خان ہی کیوں نہ ہو۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔