29 June, 2007

میرا اصل وطن مجھے واپس کر دو

جدہ، سعودیہ عرب میں مقیم میرے ایک عزیز محمد ریاض کو وطن سے بچھڑے ہوئے ٢٠ سال ہو گئے ہیں۔ اگرچہ انہیں وہاں ہر سہولت حاصل ہے اور وہ اطمینان سے اپنے روز و شب گزار رہے ہیں مگر ان کا دھیان آج بھی وطن کے گلی کوچوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ اس پاکستانی نے پاکستانی بلاگ کے نام ایک میل میں جس حبِ وطنی، درد مندی اور خلوص کا اظہار کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے وطن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور یہاں کے حالات پر کتنے سوگوار ہیں۔ محمد ریاض صاحب کی عمر کا ایک حصہ سعودیہ عرب میں گزرا ہے اور بظاہر ان کے ناطے اپنی مٹی سے منقطع ہو چکے ہیں لیکن وہ اس مٹی کی خوشبو سونگھنے کے لئے کتنے بے چین ہیں اس کا احساس ان کی تحریر پڑھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے اور کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ وطن واپس آ جاؤں اس دیس میں جہاں میرا بچپن اور لڑکپن ہنستے کھیلتے، اچھلتے کودتے اور معصوم شرارتیں کرتے گزرا ہے اور جن شہروں۔ قصبات اور دیہات کے لوگ ایک ہو کر رہتے تھے۔ دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے اور عمروں تک ساتھ نبھاتے تھے۔ میں وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھوں۔ وہ گلیاں، وہ بازار اور وہ باغات جہاں میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلا کرتا تھا اور پھر ہم سب مل کر کسی درخت کے نیچے امتحانوں کی تیاری کرتے تھے۔ جب کبھی محلے کا کوئی بزرگ ادھر سے گزرتا تھا تو احترام سے کھڑے ہو جاتے تھے اور ان کی ڈانٹ سر جھکا کر سنتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسی گھر میں کوئی مرگ ہو جاتی تو پورا محلہ سوگ میں ڈوب جاتا کئی روز تک چولہے نہیں جلتے تھے اور کسی گھر سے گانے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ کیا خوبصورت تھے وہ دن جب پہلوانی اور پہلوانوں کا بہت چرچا تھا۔ جگہ جگہ اکھاڑے قائم تھے اور بڑے بڑے پہلوان چمکیلے جمسوں کے ساتھ شام ڈھلے تک کسرت کیا کرتے تھے۔ ہم ان شہ زور پہلوانوں کے داؤ پیچ دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ لڑکوں اور نوجوانوں کا کوئی دوسرا مشغلہ اور شوق نہیں تھا۔ وہ منظر مجھے آج بھی یاد ہے کہ وطن عزیز سے جدائی کے موقع پر چھوٹے بڑے، اپنے پرائے دوست احباب سب کی آنکھیں پرنم تھیں اور وہ ہمیں الوداع کہنے کے لئے ریلوے سٹیشن پر جمع تھے اور ہماری کامیابی اور خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ بیس سال بعد جب کبھی دل میں واپسی کا خیال آتا ہے تو اندر سے ایک آواز اٹھتی ہے ‘تم وطن چلے بھی جاؤ مگر وہاں کون تمہیں پہچانے گا؟ کون تمہیں دیکھے گا؟ اور کون تمھاری سنے گا؟ کوچہ بازار، چہرے مہرے سب کچھ بدلے بدلے، اجڑے اجڑے نظر آئیں گے۔ باغات کے ان ٹھنڈے ٹھار گوشوں پر ڈرگ مافیا اور جرائم پیشہ افراد نے قبضہ کر رکھا ہے، جہاں ہم امتحانوں کی تیاری کیا کرتے تھے ان گلی کوچوں میں موت کے سائے پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں ہم آنکھ مچولی کھیلا کرتے تھے وہاں اب لوگ چھوٹے بڑے کی تمیز بھول چکے ہیں۔ ہمسائے ایک ہی دیوار کے سائے میں اجنبیوں کی طرح رہتے ہیں اور اپنے اپنوں کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ اکھاڑے اجڑ چکے ہیں، فن پہلوانی دم توڑ چکا ہے۔ درس گاہیں بارود خانے بن گئی ہیں۔ عبادت گاہوں کا احترام ختم ہو گیا ہے۔ انسان کی قدروقیمت باقی نہیں رہی۔ آنکھ سے حیا ختم ہو گئی ہے۔ فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور لسانی اختلاف نے معاشرے میں زہر گھول دیا ہے۔ میں جاؤن تو کہاں جاؤں؟ ملوں تو کس سے ملوں؟ کہوں تو کس سے کہوں؟ سنا ہے اب کوئی محرم رہا ہے اور نہ کوئی محرم راز نظر آتا ہے؟ اس معاشرے کا حسن نظامت، پاکیزگی، محبت، چاہت، احترام اور دلنوازی و دلداری سب کچھ ختم ہو گئی ہے۔ جسے میں پیچھے چھوڑ آیا تھا مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میرے تمام رشتوں کی جڑیں اسی مٹی سے پیوند ہیں اور یہ جڑیں کٹ نہیں سکتیں۔ میں ضرور واپس آؤں گا مگر اس سے پہلے اپنے ہم وطنوں، دانشوروں، سیاست دانوں اور حاکموں سے میری استدعا ہے میرا اصل وطن مجھے واپس کر دو۔

6 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

دراصل جب آپ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں یا گھر چھوڑ جاتے ہیں تو پھر سب کچھ بکھر جاتا ہے اور اسے بعد میں سمیٹنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوبصورت کہا ہے
گھروں سے دوریاں اتنی اچھی نہیں‌ہوتیں
جو پرندے چھوڑ جائیں وہ گھونسلے ٹوٹ جاتے ہیں

6/29/2007 01:19:00 PM
اجمل نے لکھا ہے

چمن چھٹا تو چمن کی یاد آئی ۔ ملک سے باہر جانے والے کچھ لوگ تو وطن سے رابطہ رکھتے ہیں ۔ کچھ کو اس وقت وطن کی یاد آتی ہے جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں اور کچھ بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں " ہُوں ۔ پاکستان ۔ وہاں کیا رکھا ہے"

6/29/2007 04:50:00 PM
ساجداقبال نے لکھا ہے

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ دیار غیر میں اسقدر عرصہ کیسے گزار لیتے ہیں. 2005ء میں روزگار کی تلاش میں متحدہ عرب امارات جانا ہوا. 3ماہ کا وزٹ‌ ویزہ تھا، لیکن ان تین ماہ میں، میں بہت تنگ آگیا وہاں. کام بھی جی لگا کر تلاش نہیں کیا نتیجہ آج یہاں پاکستان میں کام کرتا ہوں. تنخواہ بیشک کم ہے لیکن جب وہاں کی بے کیف زندگی یاد آتی ہے تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتاہوں. واقعی اپنا وطن اپنا ہوتا ہے.

6/29/2007 05:58:00 PM
bhomiyo نے لکھا ہے

aapane hindi transliteration ke liye link rakkhi hai voh janakar khushi hui. Lekin vo link ka text Urdu main hai to Hindi Padhane vaalo ko pataa nahi chal saktha. Agar Aaap ye link Roman Script Ya Hindi Script Me rakhe to Log padhake us par Click kar sakte hai.

-Piyush

6/29/2007 11:40:00 PM
ابو حلیمہ نے لکھا ہے

السلام علیکم،
افضل صاحب ، بالکل حق بات کہی۔
ساجد بھای ، ہمیں بھی شاید ایک دو مہینے بعد واپس چلے جانا چاہیے تھا، اب تو وہی مثال صادق آ رہی ہے، دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ۔ پانچ سال قبل میں پاکستان گیا، اس نیت سے کہ وہیں رہ جاوں گا، واپس نہیں آوں گا۔ پر وہی تجربہ رہا جو اوپر لکھا جا چکا ہے۔ نہ وہ در و دیوار ہیں جہاں کھیلتے بچپن گزرا، نہ وہ پیڑ جن پر چڑھ کر شہتوت کھانے، نہ آموں کے وہ باغ ، نہ وہ ٹیوب ویل پر نہانے والے۔ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ صبح صبح فجر کی نماز کے بعد بازار میں دودھ دہی کی دکان پر مجمع، نہ وہ کھوتے والے کی تازہ سبزی بیچنے کی آوازیں۔ کھوں دی تازہ سبزی آ۔ نہ ماشٹر اسلم کی سلای مشیں کی آواز، نہ بچوں کا گول گپے کھانے کے لیے ضد کرنا۔ آج کے بچے بھی اب بیکری کے کریم رول نہیں کھاتے، ان کو بھی مارس چاکلیٹ چاہیے، ابھی قلم اٹھانا صحیح طرح نہیں سیکھا انہوں نے، لیکن سارا دن انٹرنیٹ کیفے میں وی سی ڈی پر فلمیں دیکھناان کا شغل ہے۔ مانا، عاشر، دانا ، تیقا، کوی بھی تو اب وہاں نہیں ہے۔
استاد جو تھے وہ روزگار کی تلاش میں کہیں سے کہیں جا چکے، کچھ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ دوست یار بھی کوی اسٹریلیا بیٹھا ہے تو کوی انگلستان۔ واپس جا کر تو ایسا لگا جیسا تنہا ہو گیا ہوں۔ دو چار مہینے میں ہی دل اچاٹ اچاٹ سا ہو گیا اور واپس آ گیا۔ اب بھی رات کو سونے سے پہلے، کئ بار سوچتا ہوں اپنے بچپن کی، اپنے محلے کی، اپنے ملک کی۔

6/30/2007 01:18:00 AM
خاور نے لکھا ہے

اس آگ کا سینک اندر تک جاتا ہے ـ هم پردیسی بڑے بیچارے هیں ـ یه تحریر احساس رکهنے والے ہر جلاوطن پاکستانی کے دل کی آواز ہے ـ

6/30/2007 09:46:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب