سزا اور جزا
روایت ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے دربار میں ایک شخص پیش ہوا اور اپنا کمال دکھایا۔ اس نے صحن میں ایک سوئی گاڑی، دور جا کر دوسری سوئی پھینکی تو یہ سوئی اس کھڑی سوئی کے ناکے میں پہنچ گئی۔ لوگ عش عش کرنے لگے۔ ہارون الرشید نے حکم دیا کہ اسے ایک دینار انعام دیا جائے اور دس درے مارے جائیں۔ لوگوں نے اس اس جزا اور سزا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا ‘اس کی ذہانت اور مشاقی ضرور قابل داد ہے لیکن اس نے اپنا ذہن ایسے فضول کام میں لڑایا، لہذا یہ سزا کا مستحق بھی ہے‘
ہمارے سیاستدانوں کا بھی یہی حال ہے وہ حتی المقدار اپنا فن دکھلا رہے ہیں لیکن ترجیحات مقرر کرنے میں غلطی کھا رہے ہیں۔ جب تک ترجیحات کی صحیح سمت مقرر نہیں کی جائے گی تب تک لال مسجد جیسے بکھیڑے کھڑے ہوتے رہیں گے، مداری اپنا کمال دکھاتے رہیں گے، لوگ کھڑی سوئی کے ناکے میں پہنچی سوئی دیکھ کر عش عش کرتے رہیں گے۔
مشرف کے اس جدید دور میں کوئی ہارون الرشید نہیں جو سزا اور جزا کا فیصلہ سنائے۔
1 comments:
[...] سوچنا ہو گا کہ کانٹا کہاں ہے کیونکہ کہیں نہ کہیں ایسی خرابی ہے کہ قدم آگے نہیں بڑھ رہے۔ کوئی جھول ہے کہ مصرع وزن میں [...]
3/25/2008 11:14:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔