مفادات کی جنگ
پاکستانی سیاستدان بھی عجیب قسم کے مفادات سے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، اب یہی دیکھ لیں کہ
محترمہ بے نظیر بھٹو جو کل تک صدر پرویز مشرف کو آمر، ڈکٹیٹر جیسے خطاب سے نوازتی تھیں، جو اب تک جمہوریت کا رونا رو رہی تھیں۔
اور صدر پرویز مشرف کے بقول کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں لٹیرے ہیں اور اب وہ پاکستان نہیں آئیں گے۔
آج ملک کے بہترین مفاد میں ابوظہبی میں خلفیہ زاہد کے محل ’قصرِمشرف‘ میں بیٹھ کر سارے گلے شکوے دور کر رہے ہیں۔ ان نئے بننے والے تعلقات نے مسلم لیگی صفوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ چوہدری برادران بے چین ہیں۔ بی بی کے زخم خوردہ کراچی کنگ اس ملاقات کو خوش آئیند قرار دے رہے ہیں۔
لیکن ۔۔۔ مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ہمارے سیاستدانوں کی انائیں اور ضمیر آخر کس چیز کے بنے ہوئے ہیں؟ وہ کونسی انائیں ہیں جن کے ہوتے ہوئے بے ہودہ گالیاں ان کی صحت پر دیسی گھی کا اثر کرتی ہیں، وہ کون سے زریں اور بہترین اصول ہیں جن کو سامنے رکھ کر یہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور الزامات لگاتے ہیں۔
لیکن جب کسی بہترین مفاد کی خاطر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سینکڑوں بازو ان کی گردنوں میں حائل ہونے کےلئے بے تاب ہوتے ہیں اور اس سارے تماشے کے باوجود ان کے ذہن میں کوئی خلش پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے دماغوں پر کوئی خراش آتی ہے۔
3 comments:
جن کے ہوتے ہوئے بے ہودہ گالیاں ان کی صحت پر دیسی گھی کا اثر کرتی ہیں"
7/28/2007 07:59:00 AMاسلام علیکم
7/28/2007 03:43:00 PMاحمد بھائی پہلے تو پاکستانی بلاگ پر آپ کو خوش آمدید۔ دوسرا مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
آپ نے کبھی محاورہ نہیں سنا ۔ چور کا ساتھی چور نہیں تو گرہ کٹ ؟
7/28/2007 09:31:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔