میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟
طاقتور لوگوں نے ہمیشہ ہی غریبوں کو مارا ہے۔ یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب مساوات کے اصول کو نہ سمجھا جائے۔ کسی نے کنفیوشس سے پوچھا کہ ‘ کون سے چیزیں حکومت کے لئے ضروری ہیں؟‘ اس نے جواب دیا کہ ‘ لوگوں کے پاس کھانے کے لئے معقول خوراک ہو، توازن پیدا کرنے والے ادارے ہوں اور قوم میں اعتماد ہو‘ اس پر دوبارہ سوال کیا گیا کہ ‘اگر ان تین چیزوں میں سے ایک کو چھوڑنا پڑے تو آپ کون سے چیز چھوڑیں گے؟‘ اس نے جواب دیا ‘توازن پیدا کرنے والے ادارے‘ پھر سوال کیا گیا کہ ‘اگر باقی دو میں سے کسی ایک کو چھوڑنا پڑے تو؟‘ جواب آیا ‘خوراک‘ سوال کرنے والے نے مزید وضاحت چاہی تو کنفیوشس نے کہا کہ ‘قوموں کے افراد مرتے رہتے ہیں، مگر کوئی قوم اعتماد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی‘۔ مگر آج قومیں اعتماد کے بغیر قائم ہیں۔ اتنے برسوں میں کتنے اداروں نے قوم کا اعتماد کھویا ہے۔ جو ریاست اپنے لوگوں پر اعتماد نہیں کرتی وہ ختم ہو جاتی ہے۔ جب انا پرست لوگ ملک و قوم کی قیمت پر اپنے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان میں کوئی کمی رہ جاتی ہے۔ میں کس چیز کا ذکر کر رہا ہوں؟۔ میں کیا لکھ رہا ہوں؟۔ میں کیا لکھنا چاہتا ہوں؟۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں، کس سے کہنا چاہتا ہوں اور کیوں کہنا چاہتا ہوں۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھا جائے اور ان کا معیار زندگی بلند کیا جائے۔ شاید خوشحالی بینک اسی مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ ایس ایم ای اور مائیکرو فنانس بینکوں کے قیام کے بھی یہی مقاصد تھے۔ کیا ان بینکوں نے اپنے فرائض ادا کئے؟ پرانی صنعتیں کیوں اونے پونے بھاؤ بیچی جا رہی ہیں؟ نئی صنعتیں کیوں نہ قائم ہو سکیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ غریبوں کی قیمت کیا ہے؟۔ فرض کریں ہم کسی شخص کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے اسے ہنر سکھا دیتے ہیں۔ یہ بھی فرض کریں کہ ہم غریبوں کو مختلف طریقوں سے منظم کرتے ہیں۔ فرض کریں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقیات مختلف ہے۔ ہم نام اور عہدے شامل کئے بغیر ہر چیز فرض کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد غریب کی ترقی کے لئے کام کرتے ہیں۔ کیا بڑے لوگ قانون پر عمل کرتے ہیں؟ کیا نچلے طبقے کے لوگ مناسب طریقے سے کام کرتے ہیں؟ کیا کک مارنے اور کک کھانے والے لوگ ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ کیا ہمارے رہمنا کبھی مخلص ہو سکیں گے؟ تعمیروترقی، اخلاق و ہم آہنگی اور عزت کا راستہ اپنائیں گے یا پھر طاقتوروں کی خواہش پوری کرنے کے لئے احکامات جاری کرتے رہیں گے؟ کبھی یہاں عظمت بحال ہو گی اور کیا کوئی عزت والا کام کیا جائے گا؟ سارتر سے جب مثبت اور منفی کام کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے نہایت سادگی سے جواب دیا ‘مثبت منفی یا اچھا برا کوئی کام نہیں ہوتا، بلکہ ایک کام عزت دار ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس میں عزت اور وقار شامل نہ ہو‘۔ ریاضی کے حساب کتاب کے مطابق ہم آئندہ سال بھی اسی طرح غریب رہیں گے۔ کیا ماہرین معاشیات کی پالیسیاں ملک کے لئے قابل عمل ہیں؟ یا پھر یہ چیزیں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو صرف اپنی خواہشات کو ہی پورا کرنا جانتے ہیں۔ یہ تصور بہت بڑا اور وسیع ہے۔ یہ تصور دانشوروں کی سوچ سے متصادم ہے۔ راشن سسٹم سے خوشی حاصل نہیں ہو سکتی۔ عزت اور وقار کی سرحدوں کو کسی دوسرے طریقے سے چھوا جا سکتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ریاضی کی منطق ہی غلط ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم اپنا فخر کھو دیا ہے اور ابھی تک اس کا متبادل حاصل نہیں کر پائے۔ جس میں مساوات ہو ہمیں ایسے صاف اور سیدھے خطوط کی ضرورت ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟ کیا غریب کی مشکلات میں اللہ تعالٰی نے اضافہ کیا ہے؟ اس حوالے سے بہت سی باتیں ہیں۔ غریب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی قسمت ہی ایسی ہے، جبکہ امیر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی دانائی سے اس منزل تک پہنچا ہے۔ اس عمل سے غربا کی فہرست میں کتنے لوگ شامل کئے جا سکتے ہیں؟ کوئی متبادل راستہ ہے؟ بتائیے۔
1 comments:
[...] میں کیا کہنا چاہتا ہوں؟ ۔۔۔ لکھنے کے بعد میں مسلسل سوچتا رہا ہوں کہ آخر میں کہنا کیا چاہتا ہوں؟، کس سے، کیوں اور کس لئے کہنا چاہتا ہوں؟ سوچتا ہوں کہ لکھنا تو ایک بہانہ ہے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا، مگر پھر ایک سوال میرے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ کیا تمام دوسرے بلاگرز بھی صرف اس لئے لکھتے ہیں؟ صرف دل کی بھڑاس کے لئے یا اس کے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہوتے ہیں؟ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مجھے بلاگ شروع کئے ہوئے، مگر میں آج تک ایک بات نہیں سمجھ پایا کہ ہم لوگ اپنی تحریروں میں کس قوم، کن عوام اور کون سے لوگوں کی باتیں کرتے رہتے ہیں؟ کن کی محرمیوں، ذلتوں اور حقوق پر کڑھتے رہتے ہیں؟ انہی لوگوں میں رہتے ہوئے، ان کی نفسیات جانتے ہوئے انجان بن جانتے ہیں۔ ہم لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ عوام نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یہ تو ایک بے سمت ہجوم ہے، ایک بھیڑ ہے جس میں ہم لوگ بلاوجہ چلا چلا کر گلا پھاڑ رہے ہیں۔ ہم دیوانے بھی کن لوگوں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں؟ کسے پکار رہے ہیں؟ کسے جگانے اور جھنجھوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟ یہ لیڈر ان کو لوٹ رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں، دال، چینی سستی کر کے یوٹیلٹی سٹورز کے باہر لمبی لائنیں لگوا کر ان کو بے عزت کر رہے ہیں تو ٹھیک کر رہے ہیں۔ جن لیڈروں کے ہاتھوں یہ پٹ رہے ہیں، لٹ رہے ہیں، مر رہے ہوتے ہیں،اجڑ رہے ہوتے ہیں انہی لیڈروں کے جلسوں کو بھی بھر رہے ہوتے ہیں۔ بےنظیر ہو یا نوازشریف، قاضی حسین احمد ہو یا فضل الرحٰمن، پرویزمشرف یا شوکت عزیز یہی عوام ان کے جلسوں میں جھنڈے اٹھائے حلق پھاڑ پھاڑ نعرے لگا رہے ہوتے ہیں کہ ان کا ہر جلسہ ‘ہاؤس فل‘ جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے لکھا جا رہا ہے کہ اپنی بربادی کا رونا رونے والے عوام اپنا اصلی چہرہ بھی دیکھ سکیں۔ کون ہے جو کرپٹ نہیں؟ جس کا جتنا بس چلتا ہے، اتنا ہی دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔ پنکچر لگانے والا سواری کے مالک کو غافل پا کر ٹیوب میں دوچار اور سوراخ کر دیتا ہے۔ دکاندار کم تولتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے۔ واقف کار کی کھال زیادہ اتارتا ہے کیونکہ وہ اس پر اعتبار کرتا ہے۔ کوئی سرکاری دفتر ایسا ہے جہاں سرعام رشوت نہ چلتی ہو، چپڑاسی سے لیکر افسر تک سبھی نے اپنے ریٹ مقرر کئے ہوئے ہیں۔ عوام عوام کو نوچ کھانے کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کی آنکھوں سے بھوک اور منہ سے رال ٹپکتی نظر آتی ہے، چیلوں کی طرح ایک دوسرے کی کھال نوچتے ہیں۔ خواص ہی نہیں ۔۔۔ عوام عوام کے دشمن ہیں، اپنی ذات کے بدذات کو ووٹ دیں گے چاہے وہ بےغیرت اور بدمعاش ہی کیوں نہ ہو۔ چند کلو چینی،دال، گھی اور چند تھیلے آٹے کے لئے تو یہ ضمیر بیچ دیتے ہیں۔ اردو بلاگرو! اللہ نے آپ کو بہت جاندار قلم دیا ہے، اپنی جان ہلکان نہ کریں، اسے کسی اور کام لگائیں، کچھ اور لکھیں جس سے نام بھی زیادہ، دام بھی زیادہ۔ [...]
10/11/2007 06:56:00 PMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔