14 August, 2007

میرا، آپ کا اور ہم سب کا پاکستان

آج ٦٠ واں یوم آزادی ہے۔

میرے سامنے ٹیبل پر رکھے ٢٠٠٧ء کے کیلنڈر پر ١٤ اگست پر سرخ دائرہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہی دن ہے جب دنیا کے نقشے پر اب سے ساٹھ سال پہلے سب سے بڑی اسلامی ریاست “پاکستان“ کی صورت میں نمودار ہوئی۔ یہ آزادی، یہ منزل، یہ دھرتی، یہ مملکت اور یہ ریاست عظیم قربانیوں کے نتیجے میں ہمارا مقدر بنی۔ انگریز بہادر یا ہندو بنیئے نے پلیٹ میں سجا کر ہمیں پاکستان نہیں دیا تھا بلکہ جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں خونریز جنگ کے بعد یہ نعمت عظمٰی ہمارے حصے میں آئی ہے۔ اسی لئے ہم اپنا یوم آزادی انتہائی جوش و خروش کیساتھ مناتے ہیں۔ یہ وطن شہدائے تحریک پاکستان کا ثمر ہے۔ اسی لئے یوم آزادی مناتے وقت ہم انہیں محبت و عقیدت کا خراج پیش کرنا نہیں بھولتے۔ آج ٦٠واں یوم آزادی مناتے وقت بھی یوم اسی جذبے سے سرشار ہے کہ وہ اس مملکت خداداد پاکستان کو اقبال کے دیرنیہ  خواب کی حقیقی تعبیر بنا کر دم لے گی اور قائداعظم نے جو تصورات دیئے ہیں، ان کے رنگ بھرنے کے لئے کوئی وقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا۔

آزادی کے بعد کا سفر پوری قوم کے سامنے ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قوموں کی زندگی میں نصف صدی یا ٦٠ سال کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ غلط تصور نجانے کہاں سے آیا کیونکہ قوموں کا ایک ایک لمحہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کسی ایک ساعت کی معمولی سے غلطی کا خمیازہ پوری قوم ہی کو نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اسی طرح  کسی بھی لمحے کا تاریخ ساز فیصلہ صدیوں کے سفر پر حاوی ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کئی نسلیں گزر چکی ہیں، جس نسل نے یہ وطن بنایا تھا شاید ہی اس کا کوئی نمائندہ زندہ ہو، دوسری نسل کو بنا بنایا پاکستان ملا تھا یا اس نے اپنے بچپن میں تحریک پاکستان کے چند مناظر دیکھے ہوں گے۔ یہ نسل بھی بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ چکی ہے، جن ہاتھوں میں ابھی کاروبار حیات ہے، یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد کی نسل بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے۔ گویا پاکستان سے محبت کا ورثہ نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو کہیں دکھائی نہیں دیتی، اس کا رنگ فضاؤں میں کہیں بھی اپنا وجود نہیں رکھتا، اس کی خوشبو اپنی موجودگی کا کبھی احساس نہیں دلاتی، قومی ترانوں، درودیوار کی سجاوٹوں، یوم آزادی پر برقی قمقموں، قومی جھنڈیوں اور خوبصورت ملبوسات میں میں گھروں سے نکلنے والوں کو دیکھ کر جشن سامانی کا احساس ضرور ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں وہ جذبہ بھی ہے جو ١٤ اگست ١٩٤٧ء کو جنوبی ایشیاء کی تاریخ اور جغرافیہ کو بدلنے کا سبب بنا ۔۔۔؟

زندہ قومیں آزادی کا دن یقینا بھرپور انداز میں مناتی ہیں لیکن کیا زندہ قومیں ایک دن جوش و خروش سے منا کر ٣٦٤ دن اپنے وطن عزیز کو تباہ و برباد کرنے پر لگی رہتی ہیں؟ یقینا ایسا نہیں ہو سکتا؟ پھر سوال یہ ہے کہ ہم آخر ١٤ اگست کو یوم آزادی شایان شان انداز میں منانے کے بعد اس ملک کو توڑنے پھوڑنے، خراب کرنے اور اپنی اقدار کی مٹی پلید کرنے پر کیوں لگے ہوئے ہیں؟ یہ خوبصورت وطن ہمارا اجتماعی گھر ہے تو ہم اسے سجانے کے لئے یوم آزادی کے منتظر کیوں رہتے ہیں؟ اس کے گلی کوچوں، بازاروں، سڑکوں، چوراہوں، قصبوں، اور شہروں کو امریکی باشندوں نے گندگی کا ڈھیر نہیں بنایا اور نہ ہی ہم اس صورت حال کا ذمہ دار بھارت، اسرائیل یا اتحادی افواج کو قرار دے سکتے ہیں۔ ان خرابیوں کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔

ریاست تین ستونوں پر قائم رہتی ہے۔ کیا ہمارے ہاں یہ تین ستون مضبوط اور مستحکم ہیں؟

عدلیہ کے ساتھ کیا ہوا؟، حکومت اور عدلیہ میں کس طرح جنگ چھڑی رہی اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سب آپ کے سامنے ہے۔

مقننہ ریاست کا دوسرا اہم ستون ہوتا ہے، کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہے اور پارلیمنٹ کام کر رہی ہے تو کیا قانون سازی بھی ہو رہی ہے؟ یا صرف فرد واحد کے منہ سے نکلے الفاظ ہی قانون بن جایا کرتے ہیں؟

انتظامیہ عوام کی خادم بننے کے بجائے حاکم بنی ہوئی ہے۔

میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیس، بگٹی کے قتل، کراچی میں لا اینڈ آرڈر اور ریاستی دہشت گردی یا لال مسجد یا اس جیسا کوئی اور واقعہ نہیں دہرانا چاہتا، میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ریاست کا کوئی بھی ستون ایسا ہے جسے توانا سمجھا جا سکے؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر کیا اس ریاست کے تابناک مستقبل کے حوالے سے ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار رہنا چاہیے؟ یہ سوال ہمیں خود سے دریافت کرنا ہو گا اور اس کے جواب کی روشنی ہی میں ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے اور جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ہی میں انہوں نے دہری غلامی سے نجات دلا کر ہمیں آزدی کی نعمت سے سرفراز کیا۔ یہ اور بات ہے کہ پاک دھرتی میں شجر جمہوریت جڑیں نہیں پکڑ سکا اور پاکستان کو ایک جدید فلاحی اسلامی ریاست بنانے کا خواب اب بھی ادھورا ہے۔ ہمارے ساتھ آزادی حاصل کرنے والے ممالک کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں، جاپان اور چین نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی، آج ان کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہوتا، ہم اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے۔ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ہم نے اس اہم واقعہ سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور آج پھر سے ہم اسی سفر پر رواں دواں ہیں۔

ہم آزاد ہیں۔ آزادی کا دن منا رہے ہیں لیکن گھمبیر مسائل آج بھی ہمارا مقدر ہیں۔ غربت، جہالت، بیماری، بیروزگاری، پسماندگی اور کون سا مسئلہ ہے جو ہمیں درپیش نہیں۔ ہم نے ان مسائل کے حل کے لئے آج تک کیا کیا؟ حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم پاکستان کو مثالی ریاست بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس میں ہماری ترقی دنیا کے لئے قابل رشک ہے۔

پاکستان محض مشرف، شوکت عزیز، شجاعت، فضل الرحمٰن، قاضی حسین احمد، عمران خان، بے نظیر یا نواز شریف کا نہیں، یہ پاکستان پیارا پاکستان میرا، آپ کا اور ہم سب کا ہے۔ اس لئے آئیے آج یوم آزادی کے اس مبارک دن ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم آئندہ  زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لیں گے بلکہ اپنا سب کچھ قربان کر کے وطن کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ اگر اس عہد پر عمل درآمد ہوا تو یقین کیجیئے کہ قائد اعظم کے پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا خواب جلد شرمندہِ تعبیر ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ انشاءاللہ
نوٹ۔ میری طرف سے تمام قارئین اور اردو کمیونٹی کو یوم آزادی مبارک کی خوشیاں مبارک ہوں۔

2 comments:

طارق راحیل نے لکھا ہے

بہت خوب

پڑھ کر اچھا لگا جناب
.-= طارق راحیل´s last blog ..ماہ رمضان اور ہم 1::: ماہ رمضان کے فائدے ( فضیلتں)1 =-.

8/15/2009 08:19:00 PM
طارق راحیل نے لکھا ہے

بہت خوب

پڑھ کر اچھا لگا جناب

8/15/2009 08:22:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب