نظریہِ پاکستان
فرخ نور صاحب کی پاکستانی بلاگ پر یہ پہلی تحریر ہے، فرخ نور کا تعلق لاہور سے ہے اور یہ آج سے پاکستانی بلاگ پر لکھا کریں گے، ان کی تحریر پڑھنے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف لفظوں کو چن کر ان کا استعمال کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ ان کی تحریر پڑھیئے اور اپنی آراء سے آگاہ کیجیئے، کیونکہ کسی بھی لکھاری کے لئے قارئین کی آراء ہی اس کا سب سے قیمیتی اثاثہ ہوتا ہے۔
نظریہِ پاکستان
نظریہ کسی قوم کی بنیاد ہوتا ہے۔ پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ موجودہ دور میں ایک فضول بحث چل پڑی ہےکہ دوقومی نظریہ ایک ضرورت تھی، سیاسی نعرہ تھا۔ ایسا کہنےوالےلوگ نہ تو دور اندیش ہیں اور نہ ہی عاقبت اندیش۔ وہ علمی حوالے سےکچھ نہیں جانتے۔ بس وہ لوگ قابل رحم ہیں۔ دو قومی نظریہ ہماری تاریخ ہی نہیں بلکہ ہمارے شاندار مستقبل کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔
آج کےمغرب مزاج دانشور نظریہِ پاکستان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ”اس میں دوسروں کے لئے برداشت نہیں ہماری تاریخ کا آغاز ٧١٢ء سےہو یا ٥٠٠٠ء ہزار برس قبل سے، ہم نےطرز تعمیر میں ترقی نہیں کی، موسیقی و مصوری میں کوئی جدت رونما نہیں ہوئی۔ نظریہ پاکستان کےخلاف کوئی بات کہی نہیں جاسکتی، ورنہ یہ جرم تصور کیا جاتا ہے“ (١)۔ یہ تمام وُہ سوالات ہےجنکی کوئی بنیاد نہیں۔
مغرب میں بھی ایک نظریہ ہے۔ Democracy جو عرب شاہی ریاستوں کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اُن پر مسلسل جمہوریت کا زور دیا جاتا ہے۔ آزادی رائے بھی اُنکے ہاں ایک نظریہ ہے۔ جس میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور اِسکےخلاف بات کرنےوالا پابند سلاسل ہی ہوتا ہے۔ مغرب اپنےنظریات ہم پر زبردستی ٹھونس رہا ہے۔ مگر ہم نےاپنا نظریہ، وطن عزیز کی حدود سےباہر مسلط نہیں کیا۔ ہمارا نظریہ ایسا نہیں جو کسی پر مسلط ہو سکے۔ یہ قبولیت کا عمل ہے۔ اِ س میں شدت تو نہیں مگر no compromise بھی ہے۔
نظریہِ پاکستان: ”ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔ جو کبھی یکجا نہیں ہوسکتی۔ لہذٰا برصغیر کےمسلمانوں کےلئے ایسا خطہ ہو جہاں پر وُہ آزادی سے اِسلام کی تعلیمات کےمطابق زندگی بسر کرسکیں۔ جہاں پر دیگر اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔“
اس مکمل نظریہ میں کوئی بھی لفظ ایسا نہیں جو شدت رکھتا ہو۔ اسلام عقیدہ ہے اور عقیدہ پر کوئی compromise نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس نظریہ میں جارحانہ رویہ ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ دفاع کا نتیجہ تھا اور آج دفاع کی ہی علامت ہیں۔ مسلط کرنےکی بات ہی نہیں بلکہ شخصی آزادی کا واضح اظہار ہے۔
جو افراد آج اس نظریہ کے بدلنےاور مسخ کرنےکی تگ و دو میں ہیں۔ وُہ نہیں جانتے کہ اِسکو تبدیل کرنے کے لئے اُنکو نہ جانےکیا کچھ کرنا پڑےگا۔ حتی کہ اِسکو مسخ کرنے کے لئے ایک صدی بھی کم ہیں۔ کیونکہ یہ کرلینا ناممکن ہے۔
ہماری بنیاد دو قومی نظریہ تھی اور پاکستان کا مطلب لاالہ الااللہ (اللہ کےسوا کوئی نہیں)۔ پاکستان اور اسلام کےمعنٰی ایک ہی ہوئے۔ ہر سچا مسلمان محب وطن پاکستانی بھی ہے (محب وطن ہونے کے لئے ہمیں کسی certificate کی ضرورت نہیں۔ جو اللہ اور اسکے رسول سےمحبت کرتا ہے وُہ پاکستان سے بھی محبت کرتا ہے۔ جو اللہ پر یقین رکھتا ہے وُہ پاکستان کے وجود پر یقین رکھتا ہے۔)۔گویا مسلمان اور محب وطن ایک ہی ہے۔ مراد پاکستان کا مطلب کیا ؟ پر حملہ، عقیدہِ اسلام پر حملہ ہے۔ جو کوئی بھی مسلمان گوارہ نہیں کرسکتا۔
پاکستان کا پرچم اسی بات کا عکاس ہے۔ سفید تارہ: روشنی اور علم کا اظہار ہے۔ جو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ تارہ کے پانچ کونے، پانچ ارکان اسلام: توحید، نماز، روزہ، زکواٰة اورحج ہیں۔ پانچ کونوں والا تارہ صبح کےستارہ کا اظہار کرتے ہوئے قرآن کو بیان کرتا ہے۔ سفید ہلال: قمری مہینہ اور اسلام کی علامت ہے۔ ٤٥ درجے پر ہلال کو خم دینے سے مراد نیا طلوع ہونے والا چاند، تعمیرِ ترقی اور ایک نئی قوم کا دُنیا پر ابھر جانےکا علمبردار ہے۔ سبزرنگ: مسلمانوں کی اکثریت اور سفید رنگ اقلیتوں کی علامت۔ سبز اور سفید کا امتزاج امن اور ترقی کرنےکی علامت ہے۔
یہاں سبز اور سفید رنگ واضحتاً دو قومی نظریہ اور ہلال و ستارہ لاالہ الااللہ کا واضح اظہار ہے۔ کتنا وسیع ترجمہ ہمارے پرچم کا ہے۔ جو دُنیا کےکسی اور پرچم کا نہیں۔ یہ بات یہاں تک محدود نہیں دو قومی نظریہ کا واضح عکاس بھارتی پرچم بھی ہے۔
چکرا: اِسکو عظیم بُدھی بادشاہ ( موریا خاندان کا تیسرا فرمانروا) وردھامنا اَشوک اعظم (٢٧٢ قبل مسیح تا٢٣٢ قبل مسیح) سےمنسلک کیا جاتا ہے جو ٩١ویں صدی میں موہنجوداڑو اور ہڑپا کی کھدائی سےملا تھا۔ یہ بدُھ مت کا مذہبی نشان ہے۔ یہ پہیّہ ہندوستانی مذاہب کے چکری زندگی (سات جنموں) کے نظریہ کا اظہار ہے۔ پھر اس چکرا کے بیچ ٢٦ لکڑی کےستون ہیں جن کے باعث پہیہ گھوم سکتا ہے۔ ٢٦ ہندوستانی ریاستوں اور صوبوں کی علامت ہے۔ نارنجی رنگ ہندومت اور اِس سےاَخذ مذاہب (بُدھ مت، جین مت، سِکھ مت) کا ترجمان ہے۔ سبز رنگ ہندوستانی مسلمان ایک قوم کےطور پر اور سفید رنگ اس بات کا علمبردار ہے کہ ہندوستان میں امن رہے اور دونوں مذاہب اسلام اور ہندو اتحاد کےساتھ رہیں۔
لہذٰا دو قومی نظریہ کو ختم کرنےسے پہلے ہندوستانی پرچم کو بدلا جائے۔ جو آج بھی ہندو اور مسلمانوں کو دو الگ قومیں ثابت کر رہا ہے۔
بات پرچم کی حد تک ہی نہیں پچھلے ٦٠ برس دو قومی نظریہ کا واشگاف اظہار ہے۔ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننے کا ہر مرحلہ دو قومی نظریہ کےباعث ہی ہوا۔ ١٩٤٧ء میں جو سرحد کی ایک لکیر کھینچی گئی تھی وُہ ایک لکیر نہیں تھی۔ بلکہ اِس ملک کی سرحدوں کی بنیادوں میں پاکستان سےمحبت کرنےوالوں کا خون موجود ہے۔ یہ حد خون سےکھینچی گئی تھی۔ یہ کسی جنگ کا خون نہیں تھا۔ امن اور سکون چاہنے والوں کا خون تھا۔ یہ بات پڑھنے والوں کے لئےمعمولی سی ہوگی کہ خون کی لکیر کیا معنی دیتی ہے۔ جب وقت آئےگا تب اِس خون کی بھی سمجھ آ جائےگی۔ بات اتنی ہی کافی ہے ”قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی“ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کا وسیع پیمانے پر قتل عام دو قومی نظریہ اور نظریہِ پاکستان کا عملی نمونہ تھا۔
محمدبن قاسم کا فتح سندھ نظریہِ پاکستان ہی تھا۔ محمود غزنوی کا ہندوستان پر ٧١ حملےکرنا دو قومی نظریہ ہی تھا۔
لفظ پاکستان کیا ہے؟ پاک وطن، سبز ہلالی پرچم پاک وطن۔ دارالحکومت: اسلام آباد، یہ بھی مستقبل کی ایک عظیم الشّان داستان ہے۔ ذرا پاکستان اور اسلام آباد کو دوقومی نظریہ اور لاالہ الااللہ کے تناظر میں دیکھے تو اللہ نے ہر چیز بڑی بامعنی اِس ملک کےلئےرکھ چھوڑی ہے۔ اسلام آباد لاالہ الااللہ کےمعنی شفاف الفاظ میں دے رہا ہے۔
پاکستان اور اسلام ایک دوسرے کے متضاد ہو ہے نہیں سکتے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تصور اقتدار اعلٰی (اس ملک کا حقیقی حکمران اللہ تعالٰی ہی ہے، اقتدار کےاختیارات امانتًا استعمال کیے جاتے ہیں) اسلامی تشخص کا ترجمان ہے۔ صدر اور وزیراعظم مسلمان ہونا، نظریہِ پاکستان ہی ہے۔ یہ ملک اللہ نے ہی بنایا اور اس کی تخلیق کے پیچھے ایک بہت بڑا راز ہے۔
آج ہمیں صرف اور صرف اپنا اخلاقی معیار بلند کرنےکی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمیں ایک مہذب ترین قوم کی حیثیت سے دُنیا پر حکمرانی کرنی ہے۔ مجھےاقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہی۔
لیا جائےگا کام تجھ سےدُنیا کی امامت کا
یہی وُہ اللہ کا راز ہے جسکو عیاں ہونا باقی ہے۔ مرکز بدلتے ہیں اور نیا مرکز ہمارا منتظر ہے۔ بس ہمیں اِس قابل بننا ہے۔
ایک ہجرت اللہ کےحکم سے حضرت موسٰی کےدور میں ہوئی، ایک ہجرت مکہ سےمدینہ میں ہوئی اور ایک ایسی ہی ہجرت ١٩٤٧ء میں ہوئی۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپکو دہراتی ہے۔ (History repeats itself) تاریخ گواہ ہے جب کٹھن حالات کے باعث اللہ کےدین کی خاطر ہجرت کی گئی تو وُہ نئی پناہ گاہ دُنیا کا مرکز بن گئی ۔ محبت رواداری اورتہذیب دُنیا کو سکھلائی گئی۔ پیغام ِ اسلام تیزی سےدُنیا میں پھیلا۔
Vexilology (پراچم کا علم) کےمطابق صرف چار ممالک کے جھنڈے متوازی لٹکائے جاتے ہیں۔ عمودی لٹکایا جانا ممنوع ہے مگر دیگر تمام ممالک کےعَلم عمودی لٹکائے جا سکتے ہیں۔ سعودی عرب کلمہ طیبہ کی بنیاد پر، برازیل اپنےقومی نصب العین ORDEM & PROGRESSO ، سری لنکا اپنےسیلون حکمرانوں کے آزاد دور (١٨١٥ء) میں شیر اور تلوار کی علامت کے باعث اور پاکستان کسی تحریر کے باعث نہیں، ایک مقدس نظریہ کے باعث ہے۔ دراصل ان تمام کےmotto بالکل وسط میں ہیں۔ یہ بات یہاں تک ہی نہیں۔ نظریہ پاکستان ہمارے فنِ تعمیر ات میں بھی نمایاں ہے۔ مینار پاکستان کی Archeology کو سمجھیئے تو وہاں بھی ہلال اور تارہ وہی ترجمانی کر رہے ہیں۔ جو الحمراء اور ایوان اقبال کےکانفرنس ہال عکاسی کر رہے ہیں۔ سامعین کی نشستوں کی ترتیب ہلال کی مانند ہے۔ سٹیج کہیں صرف تارہ تو کہیں پانچ کونوں والےتارہ کی واضح علامت ہے۔ موسیقی و مصوری میں ہم سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اِن شعبوں میں ہم نےکوئی نئی جدت پیدا نہیں کیں۔ نعت گوئی اور قوالی ہمارے ہاں کی ہی جدت ہے، جو نظریہ اسلام بھی ہے۔ غزل بھی اس زمرہ کا ایک حصہ شمار ہو جاتی ہے۔ مصوری میں فن خطاطی ایک نئی جدت ہے۔ فریر ہال صادقین کی خطاطی، اسلم کمال کلام اقبال کی مصورانہ تشریح کےسلسلہ میں (میرے خیال سے ابھی بقید حیات ہیں۔)، حافظ محمد سدیدی مرحوم کی خطاطی کا کمال قطب الدّین ایبک کا مزار، مینار پاکستان، مسجد شہدائ، جامع مسجد منصورہ لاہور، حافظ محمد دہلوی کے ہمارے آغازی نوٹوں اور سکوں پر خطاطی اور خانہ کعبہ کے غلاف پر خطاطی ہمارے اس شعبہ میں ترقی یافتہ ہونےکی علمبرداری ہے۔ اسکے علاوہ بھی حنیف رامے مرحوم، خورشید عالم گوہر آج کےنامور ترین خطاط ہیں۔ ہماری مساجد، تقریبی ہال، عجائب گھر اِن نادر نمونوں سے بھرپور ہیں۔ جن کا ذرہ ذرہ پاکستان کے ہی معنی دے رہا ہے۔
اعتراض کرنے والےاعتراض کرتے ہیں وُہ فن کی خوبی سے نا آشنا ہوتا ہے۔ میں پاکستان کے کس کس موضوع کو بیان کروں ۔ ٢٧ رمضان المبارک خود ایک کہانی کا پیش خیمہ ہے جو زوال سےعروج کی جانب کے سفر کا اظہار ہے، دُعا کا نتیجہ بھی ہے۔ اس ملک کا ذرہ ذرہ پکار رہا ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ مجھےتو اقبال کی ایک نظم یاد آ پڑی ہے۔
خودی کا سِرِّ نہاں لاالہ الااللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لاالہ الااللہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
صنم کدہ ہے جہاں، لاالہ الااللہ
کِیا ہے تو نےمتاعِ غرور کا سَودا
فریب سُود و زیاں، لاالہ الااللہ
یہ مال و دولتِ دُنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گُماں،لاالہ الااللہ
خِرَد ہوئی ہے زماں و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لاالہ الااللہ
یہ نغمہ فصلِ گُل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لاالہ الااللہ
اگر چہ بُت ہے جماعت کی آستیوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں،لاالہ الااللہ
(ضرب کلیم از علامہ محمد اقبال)
6 comments:
واقعی فرخ صاحب نے خوب تحقیق کرکے حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ امید ہے ان کی اس طرح کی پرمغز تحریریںپڑھنے کو ملتی رہیںگی۔
8/24/2007 10:02:00 PMالسلام علیکم!
8/25/2007 07:08:00 PMفرخ نور صاحب، پاکستانی بھائی کے بلاگ پر اور قارئین کے حلقہ پر خوش آمدید. مجھے خوشی ہے کہ زیادہ لوگ اب اردو بلاگنگ کیطرف متوجہ ہو رہے ہیں اور آپ جیسی پُرمغز مصنفین یقینآ اردو بلاگنگ کی دنیا میں قابل قدر اضافہ ہے.
ایک چھوٹی سے بات کہ بلاگ پر لکھی گئی تحریر میں رنگ زیادہ استعمال نہ کریں.
تعریف کا بہت شکریہ افضل صاحب
8/25/2007 10:22:00 PMآپ کے یہ قمتی الفاظ فرخ صاحب تک پہنچا دئیے گئے ہیں ۔۔۔ شکریہ
ساجد بھائی آپ کا بھی بیحد شکریہ
یہ رنگ میں نے اپنی طرٍف سے بھرے ہیں تاکہ کچھ کشش پیدا کی جا سکے، بہرحال آئندہ کی پوسٹ فرخ بھائی خود ہی کریں گے پھر جیسے انہیں مناسب لگے۔
میری تحریر کو پسند کرنے کا شکریہ جو بات مختلف رنگوں کی ہے؛ اُنکے پیچھے بھی ایک بات ہیں۔ جب نیلا رنگ استعمال ہو تو وُہ دراصل میرا جملہ نہیں ہوتا؛ اسکے ساتھ عموما حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ جملہ میرے بڑوں کا ہوتا ہے تو وہ نام ظاہر نہیں کرتا مگر نیلا رنگ ضرور دیتا ہوں۔ سرخ رنگ سے مراد ہے کہ کوئی خاص بات اور اگر سرخ رنگ کے ساتھ ڈبل انڈر لائین ہو تو وہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے تو بہت کچھ سمجھ آجائے گا۔ امید ہے میرا رنگوں کا یہ استعمال آپ کے لیئے مستقبل میں معاون ہو گا۔ (فرخ)
8/26/2007 06:07:00 PM[...] تحریریں نظریہِ پاکستان درویش [...]
9/08/2009 07:46:00 PM9 نومبر پر 113واں اقبال ڈے مبارک کو سب کو
11/10/2009 02:28:00 AMآپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔