زندگی کیا ہے؟
زندگی کیا ہےعموماً یہ سوال ہم اپنےآپ سےکرتے ہیں اور پھر اِسکےکسی خاص تسلی بخش جواب کی تلاش میں بظاہر اُلجھ سے ہی جاتے ہیں۔ کوئی اِسکو سفر، کوئی عمل تو کوئی کچھ اور ناموں سےنوازتا ہے۔ زندگی عمل کا ہی نام ہے، جب مسلسل عمل میں ٹھہراؤ آ جائے تو انقلاب برپا ہو کر ایک نئی زندگی کےعمل آغاز ہوتا ہے اور اگر مسلسل عمل میں رکاوٹ آ جائے تو بیزاری رونما ہو جاتی ہے، جو اختتام بھی ہوسکتی ہے۔
زندگی کےتین مراحل ہیں: دُنیاوی زندگی کی حیاتی، قبر کی زندگی کا دور اور آخروی زندگی، قبر اور آخروی زندگی ہماری دُنیاوی زندگی کےاعمال پر depend کرتی ہے۔ تبھی اس زندگی کو حیات کہتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ہمارے اپنے اپنے نظریات اور ایک اللہ کا فرمان ”اعمال کے مطابق فیصلہ ہوگا“۔ اعمال کیا ہیں؟” دوسروں کےساتھ برتا گیا رویہّ، اعمال یہ بھی ہے اللہ کےاحکام کےساتھ اختیار کیا گیا عمل“۔
دُنیاوی زندگی میں ہم اللہ کی تلاش بھی کرتے ہیں اور اللہ کہتا ہے کہ میں شہ رگ سے بھی قریب ہوں تو پھر اللہ کو قربت میں ہی تلاش کرنےکی کوشش کریں۔ اللہ کی تلاش انسانیت کی فلاح کےنتیجےمیں ہے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرے اللہ سے تلاش کی منزل مل جائےگی۔ ہم روزمرہ میں” جس سےمحبت کرتے ہیں تو اُسکی محبت سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اللہ اپنی مخلوق سےمحبت کرتا ہے۔ تو پھر ہمیں بھی اللہ کی مخلوق سے محبت کرنی چاہیے“۔ ہماری یہ محبت ہمیں اللہ سے قریب کر دے گی۔ دُنیا کے نزدیک ہماری زندگی گھاٹا ہوگی، نقصان تصور ہوگی۔ جب اُس ذات کی جانب سے ہمیں فیض، رازِ حقیقت نصیب ہو پاتا ہے۔ تو پھر ہمارا وجود عِلم (انجام معلوم) ہونےکے باوجود اللہ کی راہ میں سرِخم تسلیم ہوتا ہے۔ اذیتیں، مصائب برداشت کرلینا، آزمائشوں کےکٹھن راہ سےگزرنا اِس محبت کا ایک حصہ ہوتا ہے۔
اکثر سوال اُٹھاتے ہیں، اُلجھتے ہیں مگر جواب نہ تو اکثر ہمیں واضحتاً سلجھائی دیتا ہےاور نہ ہی سجھائی۔ اللہ والےسب کچھ جانتے ہوئے بھی تکالیف کا شکار کیوں ہوتے ہیں۔ واقعہ کربلا میں کیوں پیاروں کےساتھ ایسا ہوا، امام ابو حنیفہ کو قید میں کیوں ڈالا گیا۔ کچھ باتیں اللہ کی مشیت ہوتی ہیں۔ اُن پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اللہ والےجانتے ہوئے اللہ کے فیصلے کو خاموشی سے بخوشی تسلیم کر تے ہیں۔ وُہ راہ خاموش ضرور ہوتی ہے مگر وُہ خود ایک زندگی ہوتی ہے۔ ہماری زندگیوں کےلئے اِک رہنمائی پیش کرتی ہیں۔
انبیاءعلیہ السلام کی زندگی اسطرح کی خاموشی کا حصّہ رہی ہے۔ حضرت موسٰی، حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت یعقوب، حضرت یوسف بظاہر تو تکالیف کا شکار اور آزمائشوں کا حصّہ رہےمگر یہ سب ہمارے سامنے ہیں کہ یہ مشیت الٰہی تھا۔ مجدد الف ثانی کا اکبر کےدور میں قید میں ڈال دیا جانا اور پھر قید سےنکال دیا جانا اللہ کی خاص منشاء تھی۔ حضرت یحیی، حضرت عیسٰی بھی اللہ کی خاص مشیت کا حصّہ بنی، واقعہ کربلا بھی یہی ہے۔ (ذرا غور کیجئیے، کتنا کچھ اِس بات میں پنہاں ہے) ابھی اِس منشاء کا ظاہر ہونا باقی ہے۔ اِن کا ایک پہلو اُجاگر کیا گیا ہے۔ باقی بے شمار اعلیٰ پہلو اجاگر ہو کر نمایاں ہونا باقی ہیں۔
مکّہ کی تکالیف اللہ کی حکمت سے تھیں، جو مدینہ کی زندگی کا باعث بنی۔ بس یہ اللہ کےمعاملات ہیں۔ جو عیاں ہونا باقی ہیں۔ بس ہماری حدود تک ہمیں فہم عطاء کر دیا جاتا ہے۔
جب ہمیں اللہ کی قربت حاصل ہو جاتی ہے تو ہمیں اللہ کےسواء کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہر رنگ میں اللہ کا رنگ ہی محسوس ہوتا ہے۔ تب ہمارے لئے کوئی بات نفع یا گھاٹا نہیں ہوتی۔ بس ایک ہی شے پیشِ نظر ہوتی ہے “ اللہ کی محبت“ اور اللہ نے اپنی محبت کا طریقہ بتا دیا۔” اللہ سےمحبت اللہ کےرسول سےمحبت، اللہ اور اُسکے رسول کی خوشنودی اللہ کی مخلوق سےمحبت “۔ یہی ہماری زندگی کے تمام مسائل کا حل ہے۔ ”محبت سےمراد اللہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا بھی ہے۔ یہی ہماری زندگی اور یہی ہماری زندگی کا حاصل“۔
جسکو اللہ سےقربت حاصل ہوجائے، وُہ اُس قربت کو لوگوں سے چھپاتا ہے۔ ایک ملامتی فقیر نے اپنی موج میں آکر بیان کیا، ”نبی کے لئے نبوت کا اظہار لازم ہےاور ولی کے لئے ولائیت چھپانا ملزوم“(١)۔
حوالہ جات: (١) فرمائش مرتبہ اعجاز الحق صفحہ٥٥
(فرخ نور)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔