03 September, 2007

مصنوعی لبادے

کرتے ہیں زیبائش کبھی نمائش اور کبھی ستائش کے لئے ہم
اکثر آرزؤں کی یہ گرمائش بن جاتی ہے ہمارے لئے آزمائش نہ کہ آسائش
یہی ہے ہماری زندگی کی مصنوعی رہائش جہاں ہو پاتی نہیں ہماری افزائش
ہماری ہر فرمائش کسی نہ کسی آرزو کی اِک آرائش
کرتے ہیں جنکے لیئے بےشمار پیمائش، آخر پیدا کر لیتے ہیں اُنکے لیئے اِک گنجائش
آلائش کیلیئے پھر بھی ہمیں درپیش ہے ہر حال اِک فہمائش

مصنوعی پن کی بات معمولی سی نہیں ہے اور نہ ہی مختصر۔ زندگی کے بہت سے پہلو مصنوعیت سے بھرپور ہوتے چلےجا رہے ہیں۔ ہماری آزادیاں، تربیت، رہنما، عقائد، احترام، اصول، رشتے، قدریں، نام پہچان، گھر، معاملات نہ جانے کیا کیا مصنوعیت کی وجہ سے اپنی اصل بنیادیں کھو رہے ہیں۔
مہمان کی بات صرف یہاں تک نہیں کہ اُسکو ایک اچھے برتن میں پانی پیش کیا جائے۔ مہمان کےمعنٰی رحمت ہے۔ تو پھر رحمت کو رحمت ہی سمجھنا چاہیے۔ جب ہمارے ہاں کوئی مہمان آتا تھا تو ہماری روایات تھیں کہ اسکو اپنے سے بہترکھانا مہیا کیا جاتا تھا۔ شاندار بسترا اور اپنا بہترین لباس پیش کیا جاتا۔ مہمان نوازی یہ نہیں کہ کسی کو Servent Quater میں رہنے دیا جائےاور کسی کو شاندار کمرہ میں رہائش دی جائے۔ جب کوئی مہمان ہے تو پھر اُسکے تمام درجات ایک مہمان والے ہی ہوتے ہیں۔ مہمان دراصل خاص ہوتا ہے۔ ایک مہمان ایسا بھی ہوتا ہے۔ جو خاص الخاص ہوتا ہے۔ اُس خاص مہمان کی آمد کے باعث دیگر مہمان تشریف لاتے ہیں۔ تو وہ خاص مہمان پہلے مہمان اور پھر میزبان  بھی ہے۔ یہاں درجہ کا احترام ضروری ہے۔ یہ ایک اور بات ہے مگرخاص مہمان، میزبان کے نزدیک تمام مہمان مرتبہ کےاعتبار سےمہمان ہی ہے اور ہر ایک اپنی جگہ خاص۔
ولی اللہ، مرشد کی تعلیم ہمیں قدرتی پن سے آشنا کرواتی ہے۔ مگر آج مریدین تعلیم پرعمل پیرا ہونے پر کم توجہ دیتے ہیں اور زیادہ توجہ اُنکے نام کو promote کرکے خود القابات حاصل کرنے پر رکھتے ہیں، توجہ خانقاہی اور راہبانیت کی رکھتےہیں، یہ مصنوعی پن ہے کہ دُنیا سےکٹ جائے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اُنکی تعلیمات کا خود عملی نمونہ بنے۔
ہمارے رشتے بھی مصنوعی ہوکر رہ گئے ہیں۔ بچے تایا، تائی، چچا، چچی، ماموں، ممانی، خالہ، خالو، پھوپھو، پھوپھا، دادا، دادی، نانا، نانی جیسےقریبی اور قابل احترام رشتوں کی شناخت نہیں جانتے تو اُن کا احترام اور مقام کیا جان پائیں گے۔ وُہ کیا جان پائیں گے کہ بہنوئی کا کیا مقام ہے، اُس سے بات کرنے کا کیاسلیقہ ہے۔ احترام مصنوعی پن نہیں بلکہ رشتے، ذات اور تعلق کے مقام کا درست تعین کرتا ہے۔ اہمیت اور قدر کا احساس دلاتا ہے۔ بچوں کو اِس بات (رشتوں) کا علم نہ ہونا۔ والدین کی نااہلی ہے جواز یہ نہیں کہ اُنکے ہاں اِنکا وجود نہیں یا تعلقات کی نوعیت کے باعث ایسا ہوا۔ بلکہ یہ تربیت کا لازمی جزو ہے۔ اگر اختلاف والدین کا ہے تو بچوں کو یہ تربیت دلائی جائے کہ وُہ رشتوں کی پہچان سیکھے۔ باپ کے چچا کا احترام دادا کی حیثیت سے ہی کرے۔ عید کارڈ آپس میں بانٹنا ایک اچھا ذریعہ تھا۔ جس سےرشتوں کی پہچان تو کم از کم چھوٹے بچوں کو ہو جایا کرتی تھی۔
آج ہم عالیشان گھر بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری مرضی کےخلاف کوئی مہمان کی حیثیت سےگھر نہ آئے۔ گھروں کو ہم ایک چھوٹی سی دُنیا نہیں دیکھنا چاہتےجہاں خوشی اور غم ہوں۔ ہم سکون کےمعنٰی صرف اور صرف سناٹا کے ہی لیتے ہیں۔ گھر کا سکون ہے کیا؟ گھر یہ نہیں کہ ایک مکان جہاں میاں، بیوی اور بچےرہائش پذیر ہوں۔ وُہ تنہائیاں ہیں۔ جہاں خاندان آباد ہو جہاں غم اپنوں میں گم ہو جائےاور خوشیاں آپس میں بانٹ کر مزید بڑھ جائے۔ اپنی ذات کےوجود کے لئےنہیں جیئے، بلکہ دوسروں کے لئے جیئے۔ یہ ہماری بنیادی کوتاہی ہے ایک قوم کےطور پر بھی۔ تبھی آج ہم دنیا میں تنہا ہوتے چلےجا رہے ہیں۔ ہم یہ تنہائیاں چاہتے کیوں ہیں یہ بھی ایک سوا ل ہے ”دراصل ہم اپنی چوری ،کرپشن کو دنیا سےچھپانا چاہتے ہیں جو ہم اپنوں کی پیٹھ میں چُھرا گھونپ کر حاصل کرتےہیں۔ دُنیا کےسامنے ہم پاکباز اپنے آپکو پیش کرتےہیں جبکہ خود کو اندر ہی اندر سےدوسروں کا مجرم مجھتےہیں“۔
ہم مسلسل تعلیمی نظام و نصاب کو ہدف ِتنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ٹھنڈے دودھ کو پھونکےمارتے ہوئےدراصل حقیقت سےنظر چراتے ہیں۔ مصنوعی پن جاہل طبقہ کی پیداوار ہے۔ ایک غربت سے امارت حاصل کرنےوالا طبقہ اور دوسرا تعلیم یافتہ مگر بددماغ طبقہ اِن دونوں زرفشانی طبقوں میں ایک منفی قدر مشترک ہے بیجا غرور اور اَنا کی۔ جسکا مقصد دوسروں پر اپنا ایک تاثر قائم کر چھوڑنا۔ یہی تعلیم یافتہ طبقہ پڑھا لکھا اَن پڑھ جسکی توجہ صرف اور صرف اپنی نمائش تک ہی۔دُرفشانی نہیں۔
ہر قوم کےکچھ نظریات و عقائد ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ہمارا بھی ایک بہت ہی جاندار دو قومی نظریہ ہے۔ جس کو آج بھرپور بےمنطق اور جاہلانہ مباحثہ سےمتنازعہ کر کے ایک بے بنیاد نظریہ پیدا کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تو حد ہو چکی ہے مصنوعی لبادے اُوڑھنے کی کہ پہلے وطن عزیز کےنظریہ کا لباس اُتار دیا جائےاور پھر کونسا لبادہ اُوڑھا جائے، اُسکی تلاش کی جائے۔
غریب شخص ہر طرح کی زیادتی برداشت کرتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ صرف ایک کلمہ طیبّہ کےسہارے۔ مگر ظالموں نےوہاں بھی نہیں بخشا۔ تلفظ کی بحثوں میں پڑھ چکے ہیں۔ تلفظ کی درستگی ضرور ہونی چاہیئے۔ مگر اہل ایمان کو ایمان کےحوالے سےمایوس نہیں کرنا چاہیے۔ مگر آج ہم ایک دوسرے کو اُمید دِلانےکی بجائےصرف اور صرف مایوس کرنےکی درس و تدریس پر عمل پیرا ہیں۔
اُستاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔ مگر چند اُساتذہ آج کےاُستاد کےمقام کو بھول چکےہیں۔ بس آج وہ بچوں میں مقبول رول ماڈل نہیں بننا چاہتے، بلکہ رنگ باز بن کر اپنے آپکو مقبول ثابت کر رہے ہیں۔ وُہ اُستاد کے افضل مقام کو بھول رہے ہیں۔ ساتھ ہی چند شاگرد اُستاد کی عزت کو بھی بھول رہے ہیں۔ تعلیم دینے والےکی بات کو توجہ سےسننا بھی ایک عبادت ہے۔ اللہ فیض احترام والےکوعطاء کرتا ہے۔
آج ہم جس آزادی کی بات کر رہے ہیں۔ دراصل وہ آزادی نہیں ایک اَندھا کنواں ہے۔ ہم کرپشن کی آزادی چاہتےہیں جبکہ آزادی کرپشن کی روک تھام ہے۔ بچےکی آزادی تربیت ہے، بےراہ روی نہیں۔
ہمارے سیات دانوں کےنعرے بھی مصنوعی ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کےاقدام کی بڑی بات کرتے ہیں۔ درحقیقت عوام کی خدمت کے نام پر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ اپنی ہی عوام پر روز بروز ٹیکسوں کے بوجھ ڈالتے جاتے ہیں اور خود آرائشوں میں رہتے ہیں۔ اس کو انسانی خدمت کے جذبے سے سرشاری کہتے ہیں؟ ایک ضرب المثل ہے۔ ”شلیتےمیں میخ نہ رکھیئے، لشکر میں شیخ نہ رکھیئے“ مراد تھالی میں میخ سوراخ کردیتی ہے جبکہ دوران جنگ شیخ بزدلی دکھا دیتا ہے۔ بس یہی کہاوت ہمارے سیاست دان کی ہے۔ اُنکی تھالیوں میں بھی مصنوعی نعرے ہی ہیں جو بس اُنکی ذات میں خول کرتے ہی چلے جاتے ہیں اور لشکر میں لوٹے ہی لوٹے چلے آتے ہیں۔
والدین کو آج کل اپنے بچوں کی جسمانی صحت کی فکر لاحق رہتی ہے۔ کئی بیماریوں کا وجود پذیر ہونا کیوں ہے؟ مصنوعی خوراک، مصنوعی آب و ہوا، پولٹری فارم کی وُہ مرغی جسکی طبعی عمر کی حد ہی صرف تین ماہ سےزائد نہیں، ہماری خوراک بنتی ہیں۔ سبزیاں کیمیکل کا نتیجہ ہی۔ پیداوار کی زیادتی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ مگر آج کی بھینس کا خالص دودھ بھی خالص نہیں لگتا۔ کیونکہ اُسکی خوراک جو مصنوعی ہو کہ رہ گئی ہے تو ملاوٹ والےدودھ کا کیا بنےگا؟ چند ڈبہ کےدودھ میں یوریا، بال الصّفا جیسی مضر اشیاءکا استعمال ہمارا کیا بنائےگا؟
ہمارے مزاج اور تعلقات بھی مصنوعی ہیں۔ کسی کے ہاں چلےجانا تو بس وہی مصنوعی باتیں ہی موضوعِ گفتگو رہ جاتی ہیں۔ مصنوعی انداز، ناز و نخرہ، برتنوں کی سجاوٹ۔ جبکہ تعلق دِل کی کشش سے ہوتا ہے۔ مگر دوسری جانب ملاقاتی بھی اکثر مصنوعی ہوتا ہے۔
ہم گھر میں پودے اپنی ذات کے لیئے نہیں رکھتے دوسروں کو دِکھانےکے لئے رکھتے ہیں۔ ہم پودے سےمحبت نہیں کرتی۔ بس ایک ضرورت سمجھ لیتےہیں، status کی۔ پودا بھی ایک جاندار ہے اور اسکی خدمت بھی کرنی چاہیے، دیکھ  بھال بھی کرنی چاہیے، جیسے ہم گھر میں پالتو جانور پا لتے ہیں۔ اسی طرح خریدنےوالے پودے کی پرورش کرنا بھی ہمارا ذمہ ہے۔
مصنوعی تصویر بنوا لینا بھی ایک خود فریبی ہے۔ تصاویر کاٹ کاٹ کر ایک بنا لینا ایک خود فریبی۔ بڑی شخصیت کےساتھ تعلق کی بے بنیاد بانگ لگا لینے کی جھاگ اندر ہی اندر سے بیٹھ جاتی ہے۔ یہ بات اسی طرح ہےکہ اپنا حسب نسب نوابوں، بادشاہوں سےمنسلک کرنا اور حقیقتاً ایسا نہ ہونا راصل اپنی اصل بنیاد پر ندامت کرنا۔ دانشمندی ہے کیا؟ دراصل یہ ایک احساس کمتری کا خوف ہوتا ہے۔یہ مصنوعی لبادے آخر کیوں ہم اپناتے ہیں یہ تو حقیقت سےنظر چُرانےوالی بات ہوئی۔


 


خبر نہیں کیا نام ہے اِس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی

عمل سےفارغ ہوا مسلماں بنائے تقدیر کا بہانہ (١)



رشتے بھی مصنوعی انداز میں کرنےلگ گئے ہیں۔ جب رشتہ کےسلسلہ میں ہم بچی پہ نگاہ ڈالتے ہیں تو اعتراض کر بیٹھتے ہیں، دوپٹہ کیوں لیا، دوپٹہ کیوں نہیں لیا؟ ہم اُس میں عیب نکالتے ہیں؟ بھول جاتے ہیں کہ کل اللہ ہمیں اس کیفیت سےگزارے تو کیا ہوگا؟ دوسری جانب وہ بچی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر اُلجھ سی جاتی ہے کہ وُہ دوپٹہ لےکر جائے یا دوپٹہ کے بغیر مزید میزیں سجا سجا کر تھک جاتے ہیں اور لوگوں کی باتیں سن سن کراُکتا جاتےہیں ۔ آخرخامی کہاں ہی؟ دونوں جوانب۔ رشتہ لینے والوں کو رشتہ کی قدر کا پتہ نہیں۔ بچی والوں کو فیصلہ کا علم نہیں۔ جو جس حال میں ہی۔ وُہ اُس حال میں ہی رہے۔ مصنوعی انداز نہ اپنائے جس کو منظور ہے اُسکو قبول بھی ہو ورنہ بعد میں مسائل ہی ہیں۔ اِنکے پیچھےاصل معیار ہمارا دولت کاہے، جو ناقص پیمانہ ہے۔
محبت کو ضد کی صورت میں حاصل کرلینا بھی ایک مصنوعی بات ہے۔ محبت دوسروں کی خوشی کی خاطر جینا اور مرتبہ و مقام کےاعتبار سےاحترام کرنا۔
ہم آپس میں تعلق بہن، بھائی کر رکھتے ہیں۔ مگر کوئی ہمیں بھائی یا sister کہہ یا لکھ دے تو ہم سر پٹا جاتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کہا اُس نے۔ دراصل ہماری نگاہیں اور نیتیں مصنوعی پردوں کے باعث خراب ہو جاتی ہیں۔ مگر بےشمار افراد ایسے بھی ہیں جو اِس پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
آج کے نئے بیشتر نامور نام، نامور ہو ہی نہیں سکتے۔ وُہ ناموریت ایسے ہی ہیں جیسے shooting کے دوران کیمرہ کےسامنے اپنا چہرہ کر لینا۔ تبھی آج کئی قابل لوگ خاموشی اختیار کرکےگمنامی کی منزلیں طےکر رہے ہیں۔
آج تو نوجوان اور دوشیزہ کا اظہار محبت بھی مصنوعی ہوگیا ہے۔ اُنکی توجہ ذات سےنہیں بلکہ ذات سےمنسلک دیگر کئی پہلوئوں پر ہیں۔
ہمارے لباس کا فیشن کیا آج ہماری ثقافت، مذہب اور موسمی حالات سےمطابقت کرتا ہے۔ ہمارا مصنوعی پن یہ ہے کہ ہم دوسروں کے پیچھےچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی حال ہمارے طرز تعمیر کا ہے۔
زندگی کے دِنوں کا قدرت کے دِنوں کےمقابلے پر تعین کر دیا ہے۔
شادی کےموقع پر خواتین اپنے چہروں کو سفید نقاب میں اُوڑھ دیتی ہیں۔ حسن سفید رنگت میں نہیں۔ خوبصورت نقش و نگار میں ہے۔ اگر محفل میں گہرے رنگ والا زیادہ نمایاں ہو تو شفاف رنگت کہاں گئی۔ خوبصورتی چہرہ کی کشش سے ہوتی ہے رنگت سے نہیں۔
ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ اِس خیال سےکہ کل وُہ ہمارے کام آئےگا۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں ”نیکی کر دریا میں ڈال“ ہماری نیکی بھی دکھاوا ہے۔ دراصل مقصد اپنی تعریف کروانا ہے۔
دوستی جیسےخوبصورت رشتہ کو ہم نےمفاد کی نظر میں اُوجھل کر دیا ہے۔ جبکہ دوستی ایک ایسا تعلق ہے جو ہماری شخصیت کو متوازن بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مصنوعی پن اور قدرتی پن کا فرق یوں ہی بیان ہوسکتا ہے:
شمالی علاقہ جات کےکسی پہاڑ کو دیکھیئے، کیمرہ کی آنکھ کا focus اور انسانی آنکھ کا دیکھنا ایک واضح فرق ہے۔ کیمرہ کی بات ادھوری اور نگاہ کی بات مکمل صورت ہوتی ہے۔ کیمرہ تصویر کو ہی لیتا ہے، ماحول کو نہیں جبکہ ماحول کی کیفیات محسوس کی جاتی ہیں۔ close کر لینا ناممکن ہے۔ یہی تو تاثیر کی بات ہے۔ آنکھ کی وسعت نظری بہترین اور زیادہ ہے۔ کیمرہ سےصرف وقت کو محفوظ کرلینا مصنوعیت ہیں۔ آنکھ سےدیکھنا، محسوس کرنا قدرتیت ہے۔آنکھ سے ہم پہاڑ کی باریکیوں کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر کیمرہ سےایک تو پورا منظر فوکس نہیں کرسکتےاور نہ ہی ہر feature کو اُس میں سمو سکتے ہیں۔
افسوس ہا افسوس! آج ہم اتنا مصنوعی پن اختیار کر چکے ہیں کہ قابل بیان نہیں۔ زندگی کا ہر پہلو اِس سےمنفی سمت میں متاثر ہوا ہے۔ ان تمام الجھنوں کا حل عملی طریقہ کار ہے۔
اتنی گفتگو سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ دُنیا یا ہمارے ہاں قدرتی پن کی قلت یا ناپیدگی ہے۔ دراصل ہمارے قدرتی عمل کو حوصلہ شکن کیا گیا جبکہ مصنوعی معاملات کو حوصلہ افزائی بخشی گئی۔ اکتوبر ٢٠٠٥ء کا زلزلہ، ستمبر١٩٦٥ء کی جنگ، اگست ١٩٤٧ء (٢) یہ تمام عوام کےقدرتی جذبات کے واضح عکاس ہیں۔ اکتوبر ٢٠٠٥ء میں جسطرح ہم نےاِنسانی جذبہء کا مظاہرہ کیا ۔ وُہ ہمیں مستقبل کی ایک مہذب، قابل اور احساس کرنےوالی قوم کا potential talent بتاتی ہے۔ بس ہمیں ایک مناسب تربیت کی ضرورت ہے۔ جو ہمیں دُنیا کی سب سےبہترین مہذب قوم بنا سکتی ہے۔ واقعہ زلزلہ اِس تربیت کا ایک مناسب موقع تھا۔ مگر سرکار نےعوام کےجذبات کو مجروح کر کے دبا ہی دیا۔ خدمت، انسانیت کی بھلائی، محبت، رواداری، احساس، مسلمان بھائی جیسےالفاظ کی تاثیر کو حاصل کرنے ہی نہ دیا۔ Practically یہ تعلیم کا موقع تھا جو صرف سیاسی جماعتوں اور سرکار کی projectionمیں ماند پڑگیا۔ یہ کیوں ضروری تھا کہ جب تک سرکاری سیاسی قائدین، کیمرہ میں موجود نہ ہوں تب تک متاثرین میں سیاسی جماعتوں کی امداد بانٹی نہ جائے۔ اتنے کڑے وقت میں بھی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد برقرار رکھی گئی۔ یہاں ہر وُہ شخص قابل تعریف اور سلام کا مستحق ہے۔ جس نے اپنے محدود ترین وسائل میں بھی انسانیت کے جذبے سے سرشار ہو کر بےلوث مدد کی۔ دُنیا کو دکھانے کے لئے آٹے کے تھیلے تقسیم نہ کئے بلکہ دل میں اللہ کا خوف تھا۔
جدید فلسفہ کیا ہے؟ برٹرینڈرڈ رسل کا اصل focus کیا تھا؟ الفاظ کی تاثیر کو حاصل کرنا۔ آج کا فلسفہ حقیقت کی تلاش ہے، یونانی فلسفہ تخیلات پر مشتمل تھا، اِسلامی فلسفہ روحانیت کےوجود سےلبریز ہے۔ اِسی بنا پر اِسلامی فلسفہ کی بنیادوں کو رد نہیں کیا جاسکا۔ یہ ایک کُھلا تضاد ہے کہ حقیقت کی تلاش بھی ہے اور جھوٹ کوبنیاد بناتے چلےجا رہے ہیں۔ مصنوعی ہونا  بھی تو ایک جھوٹ ہے سچ قانون قدرت ہے۔
اسلام قانون قدرت کےمطابق ہے۔ اس کا احاطہ بڑا وسیع ہے۔ مگر آج ہمیں سب کچھ کمیونزم، مارکسزم، سوشلزم اور کمرشلزم میں نظر آتا ہی۔یہ مصنوعی نظام کبھی بھی ہماری زندگی کےمسائل کا، دُنیا کےمستقبل کا اَحاطہ نہیں کر پائےگا۔ اِنکی کامیابی کی مدتیں دہائیاں تو ہو سکتی ہے مگر صدی نہیں۔
یہ بات اسی طرح ہےکہ ١٠ سے ١٥ برس قبل ڈاکٹرز ماں کےدودھ سے بچاؤ کا عمل اختیار کیے ہوئےتھے۔ ٹیلی ویژن پر ماں کےدودھ کےنقائص بیان کرنے پر مباحثہ جاری کیئےگئے۔ جب وُہ نسل جوان ہو گئی تو آج ایک نئی بات کا آغاز ہوگیا ماں کےدودھ سے بہترین غذا کوئی نہیں۔ ڈبہ کےدودھ کو بند کیا جائے۔ اب یہاں تو سائنس بھی ناکام ہوئی۔ قصوروار کون؟ اسلام نےتو ماں کےدودھ کی تعلیم دی۔ مگر ہم نےایک نسل پر ناکام تجربہ کیا ذمہ دار کون؟ وُہ افراد جو موجودہ صدی کو سائنس کی صدی کہا کرتے تھے یا کمپنیز کی مارکیٹینگ کرنےوالے۔
مصنف بھی مصنوعی ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جس کو بات کی سمجھ نہیں وُہ بھی کتاب تحریر کر دیتا ہے۔ کسی کی تحریر کو اپنےنام سےمصنوعی کر رہے ہیں۔ آخر یہ سب کرنےکا مقصد کیا ہے۔ علم کی تشہیر ہو تو ایک بات اگر علم کو موضوع بنا کر اپنی ذات کو projection دینا اصل مقصد بنا لےتو یہ اپنی ذات کی خوشامد پرستی کرنا ہے۔
آج کےنعت پڑھنے والےاور قوال کلام کو ایک عقیدت سے پڑھتے ہیں۔ مگر مختصر سے چند افراد اِسکو بھی کمرشل کر رہے ہیں۔ مگر دُکھ کی بات تو یہ ہےکہ چند سامعین بھی اِس معاملہ میں کمرشل ہو گئے ہیں۔ یہ بات ایسے ہی ہے جیسےکسی شاعر کو سمجھے بغیر واہ واہ کہہ دینا۔ چاہے وُہ بات حقیقتًا بڑی ہی اعلیٰ ہو۔ یہ بات اسی طرح ہے کسی کےصوفیانہ کلام کو سُن کر وجد طاری ہو جانا ایک حقیقت ہے مگر کچھ ناعاقبت اندیش لوگ وجد کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں حقیقت میں طاری نہیں ہوتی۔ دھمال ڈالتے ہیں مگر جب دھمال پر کوئی توجہ نہیں دیتا تو کچھ دیر کےبعد فوراً ہی رُک جاتے ہیں۔ حقیقی دھمال کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
دیدار کےدعوٰے ہم بڑے کرتے ہیں مگر اُسکی اہمیت سےواقف نہیں دیدار والا دیدار کی تشہیر نہیں کرتا، نمائش نہیں کرتا۔ اُسکی بات اور کلام میں ایک وصف کی بات ہوتی ہے۔ جو اوروں میں نہیں ہوتی۔ عالم کبھی بھی اپنا علم نہیں جھاڑتا۔ تازہ دم علم سیکھنےوالا ہی علم کو دوسروں پر تھونپتا ہے، جھاڑتا ہےاور لوگوں کو ڈراتا ہے۔ سمجھ دار کی بات ہمیشہ مثبت اور حوصلہ افزاء ہوتی ہے۔ منفی اور حوصلہ شکن نہیں۔ مصنوعی لوگ مایوسی کے اندھیروں میں ڈال دیتےہیں۔
نائیک بھی ایک مصنوعی لبادہ ہے میری یہ بات یقینا قابل اعتراض تصور ہو گی۔ مگر یہ مصنوعی پن وہی ہے۔ جو فلم ”خدا کے لئے“ تصور کیا جارہا ہے۔ عام افراد کے لئے اِسلام کا نچوڑ ہے۔ درحقیقت اسلامی نظریات کا کچومر کیا گیا ہے۔
شاتم رسول کے لئے عظیم الشّان ریلیاں اور تقریریں کیں جاتی ہیں۔ گستاخ رسول کے واصل جہنم کی بات کی جاتی ہے۔ مگر عملی قدم وہی اُٹھاتا ہے۔ جو عشق رسول سےلبریز ہو۔
مجھ سے یہ موضوع اختتام کی حد کو نہیں چھو رہا تھا۔ کیونکہ میں نےجہاں نگاہ دوڑائی، مجھ کو مصنوعی عمل ہی نظر آیا۔ شائد یہ کلامی گفتگو زیادہ مناسب ہو، موضوعات بےشمار اور احاطہ مشکل۔ بس ہمیں nature کو adopt کرنا ہے یہ کس طرح کرنا ہے یہ ایک سوال ہے۔
زندگی کی تیز رفتاری نے ہماری زندگیوں کو برباد کر دیا ہے۔ ذہنی الجھنوں، گھریلو مسائل، مزاجاً چڑچڑا، ضدی، غصیلا سا بنا دیا ہے۔ محبت کی بجائےنفرتیں پھیلنےلگی ہیں۔ ہم زندگی کی دوڑ میں اپنوں کو کھوتےجا رہے ہیں۔ دوسروں کی خاطر ہم کیوں جینا نہیں چاہتے۔ ہم خود غرض نہیں ہیں۔ حالات نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم بےحس جائیں۔ ہم کسی غریب کی مدد کرنا چاہتے ہیں مگر چند ایسے بھی ہیں جو مدد کو مہینہ سمجھ لیتے ہیں۔ ہم زخمی کو ہسپتال لیجانا چاہتے ہیں۔ مگر خود تھانوں کےچکروں سےڈرتے ہیں۔ ہماری جینز میں قدرتی پن موجود ہے۔ ایک بچہ گاڑی کا شیشہ صاف کرتا ہے۔ اُس معصوم بچےکو چند سکّے ادا کر کے ہم بہت کچھ بانٹ دیتے ہیں۔ معاشرے میں حقیقی محبت، حلال رزق کی حوصلہ افزائی، محنتی اور جفاکش کےعزم کو بلند کرتے ہیں۔ غیرت مند بناتے ہیں۔ اور خود%D

1 comments:

جہانزیب نے لکھا ہے

بہت اچھی تحریر ہے،

9/04/2007 01:42:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب