03 October, 2007

طاقتور حکمرانوں کی جبری رخصت

نوابزادہ لیاقت علی خان
وزیراعظم لیاقت علی خان قائداعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے طاقتور ترین لیڈر کے طور پر ابھرے۔ ان کے دور میں گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین تھے جو طبعََا کمزور تھے اس لئے لیاقت علی خان طاقت کے مرکز بن گئے۔ وہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے اور وزیراعظم بھی۔ ان کے دور میں صوبائی انتخاب ہوئے جن میں حزب اختلاف کو بہت کم سٹیں ملیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو نااہل کرنے کے لئے پروڈا کا قانون بنایا گیا۔ لیاقت علی خان کا احترام بھی بہت تھا لیکن اقتدار کی مرکزیت کے نقصانات اپنی جگہ تھے۔ لیاقت علی خان کا زمانہ شرافت کا دور تھا، اس لئے حالات میں زیادہ بگاڑ نہ ہوا۔ لیاقت علی خان طاقتور ترین حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں، انہیں لیاقت باغ کے جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔


 


ایوب خان
لیاقت علی خان کے بعد آنے والے حکمرانوں غلام محمد اور سکندر مرزا کی اقتدار کی مدت کم تھی۔ لیاقت علی خان کے بعد ایوب خان مارشل لاء کی صورت میں طاقتور ترین حکمران بنے۔ انہوں نے ملک میں پارلیمانی نظام کا خاتمہ کر کے صدارتی نظام نافذ کر دیا، بنیادی جمہوریتوں کا نظام نافذ کیا اور صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو ہرا دیا۔ صدر ایوب کے دور میں ان کی ذات میں طاقت کا ارتکاز اس قدر تھا کہ انہیں ‘‘لائل پور کا گھنٹہ گھر‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ ہر بازار اسی میں کھلتا تھا۔ ایوب خان کے زمانے میں ایبڈو کا قانون بنا۔ جس میں ہزاروں سیاسی کارکنوں اور سہروردی، دولتانہ اور ممدوٹ جیسے رہنماؤں کو ایبڈو کر دیا گیا۔ اکثر سیاسی رہنما سیاست سے لا تعلق ہو گئے۔
صدر ایوب اپنے پرتشدد اختتام سے اس لئے بچ گئے کہ انہوں نے خود ہی گول میز کانفرنس بلا کر اپنے کئے گئے اقدامات کی نفی کر دی اور صدارت کی جگہ پارلیمانی نظام کے نفاظ پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ اس طرح صدر ایوب جیسا طاقتور حکمران بھی بالآخر صدر یحیٰی کے مارشل لاء کی صورت میں رخصت ہوا۔


 


ذوالفقار علی بھٹو
ذوالفقار علی بھٹونے پاکستان کا ایک بازو مشرقی پاکستان الگ ہونے کے بعد اقتدار سنبھالا۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا آئین دیا اور ملک ملک بھر میں ہر شعبے میں اصلاحات کیں لیکن انہوں نے پے در پے آئینی ترامیم کر کے عدلیہ کی آزادی محدود کر دی، پھر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ان کا رویہ ہر لحاظ سے غیر جمہوری تھا۔ ملک میں ایک طاقتور پارٹی کے قیام کے باوجود بھٹو اپنے چند انتہا پسندانہ واقعات کی وجہ سے غلط سمت میں بڑھتے رہے۔ 1977ء کے انتخاب میں وہ آسانی کے ساتھ سادہ اکثریت سے جیت سکتے تھے لیکن چند شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے دھاندلی کر کے سارے انتخابی عمل کو مشکوک کر دیا۔ اس دھاندلی کے نتیجے میں احتجاجی تحریک نے جنم لیا جس کے دوران مارشل لاء نافذ ہو گیا اور پھر بالآخر نواب محمد احمد خان قتل کیس میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔


 


ضیاءالحق
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاءالحق بلا شرکت غیرے گیارہ سال تک پاکستان کے حکمران رہے۔ انہوں نے بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا۔ سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارےگئے، اخبارات پر سنسر شپ نافذ رہی، سیاسی مخالفین جیلوں میں بند رہے، عدلیہ کی آزادی محدود رہی۔
جنرل ضیاءالحق نے 1985ء میں غیر جماعتی انتخاب کروائے اور محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا کر مسلم لیگ کو تشکیل دیا گیا۔ بعدازاں جنرل ضیاءالحق نے جونیجو حکومت اور اسمبلیاں توڑ کر پھر سے نئے انتخاب کروانے کا اعلان کر دیا۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں افغانستان میں افغان مجاہدین کی مدد کی گئی اور امریکہ کی آشیرباد اور عملی مدد سے روس کو بالآخر افغانستان سے نکلنا پرا لیکن اس جنگ کے اثرات اب بھی افغانستان پر خانہ جنگی کی صورت منڈلا رہے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق 1988ء میں طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔


 


میاں نواز شریف
جنرل ضیاءالحق کے کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کے نظام میں جونیجو، بے نظیر، نوازشریف، بے نظیر کے بعد جب نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو وہ طاقتور ترین حکمران تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے زمانے میں صدر کو اسمبلی توڑنے کے اختیار کو آٹھویں ترمیم ختم کر کے بے اثر کر دیا۔ صدر کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہو گئے، ارکان پارلیمنٹ کے اختیارات محدود ہو گئے، سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے گئے، بے نظیر بھٹو کو کرپشن کے ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی۔
نواز شریف جب دوسری بار اقتدار میں آئے تو انہیں بھاری مینڈیٹ ملا، تاہم انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ بنائے رکھا۔ جبکہ اپنی پارٹی کے کسی رکن کا احتساب نہ کیا۔ نواز شریف کے دور میں جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے قیام کی ضرورت پر ایک تقریر کی تو انہیں استعفٰی دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ بعدازاں جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر جنرل ضیاء الدین کو چیف آف آرمی چیف بنانے کی کوشش کی گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو پاکستان میں نہ اترنے کا حکم دیا گیا جس پر بالآخر فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔


 


پرویز مشرف
جب 12 اکتوبر 1999ء  میں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو ہٹا کر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل خواجہ ضیا الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کرنا چاہا، اس وقت جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر ایک سرکاری دورے پر گیے ہوئے تھے اور ملک واپس آنے کے لیے ایک کمرشل طیارے پر سوار تھے۔ تب فوج کے اعلی افسران نے ان کی برطرفی کو مسترد کر دیا اور جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کے اقتدار کا تختہ الٹ کر ان کو معزول کر دیا اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور تین سالوں میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا۔
20 مئی 2000ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کو حکم دیا کہ وہ اکتوبر 2002ء تک جنرل الیکشن کروائیں۔ اپنے اقتدار کو طول دینے اور محفوظ کرنے کی غرض سے انہوں نے 30 اپریل 2002ء میں ایک صدارتی ریفرینڈم کروایا۔ جس کے مطابق 98 فیصد عوام نے انہیں آئندہ 5 سالوں کے لیے صدر منتخب کر لیا۔ البتہ اس ریفرینڈم کو سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے مسترد کر دیا اور اسکا بائیکاٹ کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کے راستے میں آنے والے بہت سے عہدیداروں کو بھی ہٹایا جن میں سپریم کورٹ کےجج حضرات اور بلوچستان پوسٹ کے ایڈیٹر بھی شامل ہیں۔
اکتوبر 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ق نے قومی اسمبلی کی اکثر سیٹیں جیت لیں۔ یاد رہے کہ یہ جماعت اور جنرل پرویز مشرف ایک دوسرے کے زبردست ہامی ہیں۔ دسمبر 2003ء میں جنرل پرویز مشرف نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ دسمبر 2004 تک وردی اتار دیں گے۔ لیکن وہ اپنے اس وعدے پر پورا نہیں اترے جن کا انہوں نے پوری قوم کے سامنے وعدہ کیا تھا۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنی حامی اکثریت سے قومی اسمبلی میں سترھویں ترمیم منظور کر والی جس کی روح سے انہیں با وردی پاکستان کے صدر ہونے کا قانونی جواز مل گیا۔ اور یوں صدر جنرل پرویز مشرف ملک کے طاقتور ترین حکمران بن گئے۔ ان کا دور حکمرانی تاحال جاری ہے۔ 6 اکتوبر کو صدارتی الیکشن ہونے جا رہے ہیں اور صدر مشرف وردی سمیت ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر وعدہ کیا ہے کہ وہ صدارتی الیکشن کے بعد وردی اتار دیں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کہانی آگے کیا رخ اختیار کرتی ہے، اس کے انجام کے لئے مجھے اور آپ سب کو انتظار کرنا ہو گا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب