صدقہ فطر (فطرانہ)
آج کل ہر طرف سے ایک ہی سوال پوچھا جا رہا کہ صدقہ فطر (فطرانہ) کتنا ہے، کب اور کس کس کو ادا کرنا چاہیے، اور کسے دینا چاہیے۔ آپ کی سہولت کے لئے ان سب سوالوں کے جواب یہاں دیئے جا رہے ہیں۔
صدقہ فطر فرض ہے۔ صدقہ فطر نمازِ عید سے قبل ادا کرنا چاہیے ورنہ عام صدقہ شمار ہو گا۔
‘‘حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزے دار کو بیہودگی اور فحش باتوں سے پاک کرنے کے لئے نیز محتاجوں کے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے فرض کیا ہے جس نے نماز عید سے پہلے ادا کیا اس صدقہ فطر ادا ہو گیا اور جس نے نماز عید کے بعد ادا کیا اس کا صدقہ فطر عام صدقہ شمار ہو گا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ)
صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے، بڑے سب پر فرض ہے۔
‘‘حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوا آزاد یا غلام، مرد یا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو کی فرض کی تھی‘‘۔ (صحیح بخاری)
‘‘ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی گلیوں میں ایک منادی کرنے کے لئے بھیجا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا دومد (نصف صاع) گیہوں میں سے اور اس کے سوا دوسری کھانے کی چیزوں میں سے صاع‘‘۔ (جامع ترمذی)
وضاعت ۔ صدقہ فطر کی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔ اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک دینے والے روزوں کو پاک کر دے گا، اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔
صدقہ کی مقدار ایک صاع ہے جو پونے تین سیر یا ڈھائی کلو گرام کے برابر ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، غلام مرد، عورت، آزاد چھوٹے، بڑے ہر مسلمان پر فرض کیا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
گیہوں، چاول، جو، کھجور، منقہ یا پنیر میں سے جو چیز زیر استعمال ہو، وہی دینی چاہیے۔
‘‘حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقی فطر ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع منقہ یا ایک صاع پنیر دیا کرتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے‘ لیکن عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کیا جا سکتا ہے۔
‘‘حضرت نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ گھر کے چھوٹے بڑے تمام کی طرف سے صدقہ فطر دیتے تھے حتٰی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے دیتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کو دیتے تھے جو قبول کرتے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے دیتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری)
2 comments:
جزاک اللہ
10/12/2007 06:14:00 AMعید مبارک جناب
جزاک اللہ خیرٌ
9/13/2008 04:57:00 PMافتخار اجمل بھوپال's last blog post..تن آسانی دُشمن ہے خودداری و غیرت کی
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔