06 October, 2007

جوئیں پڑ جائیں تو ۔۔۔!!

تعلیم اور جہالت کے درمیان فرق آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ فرق یقینا سمندروں جتنا ہی ہو گا مگر اس کی ابتدا ایک نقطے سے ہی شروع ہوتی ہے۔ اس کے ایک طرف روشنی اور دوسری طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے۔
یہی حالت اور فرق انسانی عادات اور احساسات میں ہوتا ہے۔ مثلا حساس پن ایک شخص کی جبلت میں شامل ہوتا ہے، اگر ایک عورت انتہائی حساس ہو اور ساتھ میں تعلیم یافتہ بھی تو حساسیت کے اس پر ہمیشہ مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کو تکلیف دینے سے ڈرتی ہے۔ وہ دوسروں کو پریشان کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ وہ اپنے دکھ چھپا لیتی ہے۔ وہ حالات سے سمجھوتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ وہ انتہائی اقدام سے ہمیشہ گریزاں رہتی  ہے۔ وہ مسائل پر قابو پانے کے لئے اپنی دماغی استعداد، اور صالاحیتوں کا بھر پور استمعال کرتی ہے۔ وہ ممکنات کو اپنے حق میں موڑنے کی پوری کوشش کرتی ہے۔ تمام کوششوں اور اس کی صلاحیتوں کے استمعال کے باوجود ایک پڑھی لکھی عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ نباہ نہیں ہو پاتا تو وہ انتہائی اقدام اٹھانے کی بجائے مل بیٹھ کر درمیانی راستہ نکالنے کو ترجیح دیتی ہے۔ صلح کے سارے دروازے بند بھی تو جائیں تو وہ زیادہ سے زیادہ اپنے شوہر سے علحیدگی اختیار کر لیتی ہے لیکن طلاق نہیں مانگتی اس کی نسبت ایک ان پڑھ عورت پر حساسیت کا اثر ہمیشہ منفی ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو تکلیف دے کر خوش ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کو پریشان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔ وہ اپنے غم چھپانے کی بجائے ذرا ذرا سی تکلیف کا ڈھنڈورہ پیٹتی ہے۔ حالات سے سمجھوتہ کرنا اس کی سرشت میں شامل ہی نہیں ہوتا۔ وہ ذرا سی بات پر آگ بگولہ ہو جاتی ہے۔ معمولی سی شکایت کا تدراک وہ بات بات پر انتہائی اقدام اٹھانے کی دھمکی دیتی ہے۔ خود جل مرنے، بچوں سمیت نہر میں کود جانے، ترین تلے سر دے دینے یا زہر پھانک لینے کی دھمکیاں اس کی عادت بن جاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ روٹھ کر میکے جا بیٹھتی ہے۔ کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی بجائے وہ اپنا آخری فیصلہ سنا دیتی ہے۔ اور اپنے شوہر سے فوری طلاق کا مطالبہ کر دیتی ہے۔
معاشروں کا حال بھی حساس عورت جیسا ہوتا ہے۔ اگر معاشرے مہذب اور تعلیم یافتہ ہوں تو وہاں آخری حدود کو نہیں چھوا جاتا۔ حالات کتنے ہی سنگین، مشکل اور کٹھن کیوں نہ ہوں معاملات کو نمٹانے اور مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی درمیانی راستہ نکالا جاتا ہے۔ انتہا پسندی کی بجائے میانہ روی اختیار کی جاتی ہے۔ ڈائریکٹ ایکشن کی بجائے ذیلی راستوں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔ اور معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اپنے دکھ کو چھپا کر حالات سے سمجھوتہ کرنے کے لئے خود کو تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان پڑھ معاشروں میں حالات سے سمجھوتہ کرنے کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ درمیانی راستے کی بجائے ڈائریکٹ ایکشن کیا جاتا ہے۔ ادویات سے علاج کرنے کی بجائے براہ راست میجر سرجری کر دی جاتی ہے۔ باتوں اور مذاکرات سے پیچیدگیاں دور کرنے کی بجائے آنسو گیس اور لاٹھی چارج  سے الجھنیں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بات بات پر نیا طوفان کھڑا کر لیا جاتا ہے۔ ایک ان پڑھ عورت ہو تو حساسیت سے وہ نہ صرف خود کو برباد کر لیتی ہے بلکہ اپنے گھرانے کو بھی تباہی کے کنارے پہنچا دیتی ہے لیکن ایک ان پڑھ معاشرے میں حساسیت رچ بس جائے تو پورا معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔
اب اپنے سیاسی کلچر پر نظر دوڑایئے۔ کسی شخص سے ایک کانسٹیبل تھانے میں سیدھے منہ بات نہ کرے تو اس کی شکایت کا مناسب طریقہ اپنانے کی بجائے فوری ایس ایس پی کی برطرفی کا مطالبہ کردیتا ہے۔ کسی شخص کو شکایت کسی محکمے کے ایک کلرک سے ہوتی ہے لیکن وہ استعفٰی کا مطالبہ محکمے کے ڈائریکٹر سے کر دیتا ہے۔ نکاسی ایک جمعدار سے نہیں ہو رہی ہوتی لوگ ڈنڈے اٹھا کر پورے واسا کو گھیر لیتے ہیں۔

موجودہ صورتحال دیکھیئے، درمیانی راستہ نکالنے کی بجائے ہمیشہ انتہائی اقدام اٹھایا گیا ہے!!!  نوازشریف کے خوف سے  سپریم  کورٹ کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے، اسلام آباد کو سیل کرکے قانوں و انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
دن رات عدلیہ کی آزادی کا راگ الاپنے والے پسند کا فیصلہ نہ آنے کی صورت میں عدلیہ کا گھیراؤ کر لیا جاتا ہے، عدلیہ کو آزاد کہنے والے ایک لمحے میں اسے ‘‘غلام گردش‘‘ سے تشبیہ دینے لگتے ہیں۔
پر امن احتجاج کو امن عامہ کا مسلہ بنا کر لاٹھی چارج شروع کر دی جاتی ہے۔
مسائل کو حل کرنے کی بجائے میڈیا کو دوشی ٹھہرا کر نشریات بند کر دی جاتی ہیں، میڈیا تو وہی دکھا رہا ہوتا ہے جو ہو رہا ہوتا ہے، ‘‘ہونی‘‘  کو ٹھیک کرنے کی بجائے دوسرے انتہائی اقدام کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔
عجیب قوم ہیں، مشکل مگر سیدھا راستہ چننے کی بجائے ‘‘شارٹ کٹ‘‘ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں،  نظام کو ٹھیک کرنے کی بجائے اس کے خاتمے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ وردی کے مسلے پر کوئی درمیانی راہ نکالنے یا متحد ہو کر صدراتی مقابلہ کرنے کی بجائے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صدر ‘‘فی سبیل اللہ‘‘ وردی اتار دیں۔ عجیب ذہنیت ہے دانت کے درد پر پورا جبڑا نکلوانے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اتنی سے بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جوئیں پڑ جائیں تو سر سے بال ختم نہیں کرتے بلکہ سر سے جوئیں ختم کرتے ہیں۔

2 comments:

ME نے لکھا ہے

lekin 17ween tarmeem tu awaam kay muntakhib namaindoon nay hee pass kar kay general ko taqweeyat dee. ab rona kahay ka?

10/06/2007 06:15:00 PM
اجمل نے لکھا ہے

جاہل اور اَن پڑھ میں فرق ہے اور پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ میں بھی ۔
ہمارے دین کے مطابق عِلم وہ ہے جس سے انسان کو بلکہ انسانیت کو فائدہ پہنچے ۔
ہمارے ملک کا اصل مسئلہ منافقت ہے جسے انگریزی میں ہِپوکریسی کہتے ہیں اور اس کا سبب دین سے دُوری ہے

10/06/2007 08:41:00 PM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب