14 November, 2007

امریکہ، اسٹیبلشمنٹ، عوام اور دخترِ قائد عوام

قارئین!
غلطی ہو گئی جس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ میں نے عنوان میں امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور قائد عوام بھٹو کی صاحبزادی کے ساتھ فارغ اور فالتو قسم کے عوام کو خوامخواہ بریکٹ کر دیا حالانکہ چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک۔
 کہاں امریکہ جیسی عالمی سپر پاور جس نے پورے عالم کو آگے لگایا ہوا ہے۔
 کہاں ہماری اسٹیبلشمنٹ جس نے عوام کو ٹرک کی بتی پیچھے لگایا ہوا ہے۔
اور کہاں عوام کے ایک مخصوص حصہ کی دیوی، اہل مغرب کی فیورٹ داسی خود ساختہ ”دختر مشرق“ جس نے 8 سالہ محنت شاقہ کے بعد مغرب بالخصوص امریکہ کو قائل کر لیا کہ ان کے سارے مسائل کا حل اس کے پاس ہے یعنی عوام تو اس داستان کا حصہ ہی نہیں اور میں نے انہیں بلاوجہ اس کالم کے عنوان میں گھسیٹ لیا۔ یہ وہی معصوم اور مظلوم عوام ہیں جو اکثر اوقات خود اپنے خلاف ہی صف آراء ہو جاتے ہیں اور جن کی بے وقعتی کا ماتم کرتے ہوئے تنویر جلانی مرحوم نے لکھا تھا۔
گلی گلی میں ہوا میری ہار کا اعلان
یہ کون جانے کہ میں تو بساط پر ہی نہ تھا
ملکی تاریخ کے اس موڑ پر بھی عوام کہیں نہیں اور اگر ہیں تو بظاہر صرف استعمال ہونے کے لئے ۔۔۔۔ اصل تکون امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور محترمہ پر مشتمل ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ باقی عوامی قوتیں اور خود عوام کوئی سرپرائز دے دیں جس کے امکانات بہت کم سہی لیکن انہیں سو فیصد رول آؤٹ نہیں کیا جا سکتا۔
امریکہ اپنے ”اصل اور ہم رنگ اتحادیوں“ سمیت یہ چاہتا ہے کہ ان کی لاڈلی ”دختر مغرب“ مشرق کے ایک حساس اور اہم اسلامی ملک کی گردن پر سوار ہو کر انتہا پسندی کے خاتمہ سمیت ان کے ”باقی ایجنڈے“ پر عملدرآمد کرائے جبکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا یہ المناک تضاد اپنی جگہ کہ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو انکار بھی نہیں کر سکتی، جزوی طور پر ان کے ایجنڈے سے بھی اتفاق رکھتی ہے (صرف جزوی طور پر) لیکن دوسری بے نظیر پر نہ پوری طرح اعتبار کر سکتی ہے نہ با اختیار کر سکتی ہے اور نہ اس قسم کا اقتدار دے سکتی ہے جس کا ”این او سی“ دختر مشرق نے برادران مغرب سے شدید اور طویل مشقت کے بعد حاصل کیا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عوام دوست ہو نہ ہو لیکن بہرحال پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے جو یہ رسک قطعاً افورڈ نہیں کر سکتی کہ ”چند انچ دیتے دیتے ”کئی گز“ گنوا بیٹھے۔ اس وقت ایک نہیں ۔۔۔۔ ایک سے زیادہ سانپوں کے منہ میں چھپکلیاں پھنسی ہوئی ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں؟ کہاں رکیں؟ کس حد تک جائیں؟ اس وقت حلیفوں اور حریفوں کے درمیان دوستی اور دشمنی، غداری اور وفا داری، محبت اور نفرت، ضرورت اور خود کفالت کا اک ایسا عجیب و غریب کھیل جاری ہے کہ فریقین اور کھلاڑیوں کو خود بھی معلوم نہیں کہ اگلے لمحے انہیں کیا کرنا ہو گا۔
بے نظیر بھٹو کیلئے یہ مرحلہ NOW OR NEVER یعنی ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“ سے بھی آگے کا ہے۔ ان کی فرسٹریشن اور ڈیپریشن اس سطح تک آ پہنچی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں اس عدلیہ کی واپسی کا مطالبہ کرنا پڑا جو نام نہاد ”قومی مفاہمتی آرڈیننس“ کو بھی سرخ آنکھوں سے گھور رہی تھی ۔۔۔ اس سے زیادہ بے چینی بے قراری کیا ہو سکتی ہے کہ پرسوں ”نواز بھائی“ کے ساتھ ”میثاق جمہوریت“ ”سائن ہو رہا تھا “کل تک پرویز مشرف صاحب کے ساتھ کام کرنے کے عزائم کا اظہار تھا اور آج لانگ مارچ کے اعلان ہو رہے ہیں۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے داتا دربار حاضری تک جیسے جیسے محترمہ کی فرسٹریشن بڑھ رہی ہے اور پینترے تبدیل ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ اسٹیببلشمنٹ بہت سی باتوں پر نظر ثانی کے لئے مجبور ہو رہی ہو گی۔
”میثاق جمہوریت“  کے بعد نواز بھائی فارغ
امریکی آشیر باد اور معافی آرڈیننس کے بعد روشن خیال، ہم خیال صدر فارغ
اور لانگ مارچ کے بعد عوام کا ”اپریل فول“ شروع یعنی عوام بھی فارغ لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
اسٹیبلشمنٹ اگر ضد چھوڑ کر ایمرجنسی اٹھا لے اور تھوڑی ہمت کا مظاہرہ کرے تو بی بی کو کندھوں پڑ بٹھانا اس کی مجبوری نہیں بن سکتا۔ پوری دنیا عدلیہ اور میڈیا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بجائے ”مغرب“ کو سمجھایا جائے کہ محترمہ کی موجودگی انتہا پسندی کے خاتمہ کی بجائے اس میں شدت اور اضافہ کا باعث بنے گی ۔۔۔۔ سو میرٹ پر محترمہ کو جو حصہ ملتا ہے، حاضر ہے، اس سے زیادہ نہ ممکن ہے نہ مناسب۔ اپوزیشن بھی بالغ ہو ہی جائے تو بہتر ہے کہ کبھی ”نواز ہٹاؤ ون پوائنٹ ایجنڈا“ لے کر پرویز مشرف کا رستہ ہموار کیا اور اب پرویز مشرف کی مخالفت میں اندھے ہو کر کچھ اور کر بیٹھے تو شاید پچھتانے کی مہلت بھی نہ ملے۔
کھیل تو امریکہ، اسٹیبلشمنٹ اور بنت عوام کے درمیان ہے لیکن اپوزیشن اور عوام اپنی ذمہ داری محسوس کریں تو شاید ”امریکی جمہوریت“ کی بجائے ”پاکستانی جمہوریت“ ان کا مقدر بن سکتی ہے جس میں ”ایجنڈا“ بھی پاکستانی ہو گا اور اس پر عملدرآمد کرنے والے بھی!
پاکستان کے لئے امریکن ایجنڈے میں انتہا پسندی کے خاتمہ کی حد تک تو ٹھیک ۔۔۔۔ اس سے آگے بیان کرتے ہوئے تو قلم کے پر بھی جلنے لگتے ہیں۔


بشکریہ ۔ حسن نثار، روزنامہ جنگ

1 comments:

میرا پاکستان نے لکھا ہے

حبیب جالب نے تو کہا تھا
پاکستان کا ہر بلاول مقروض ہے اور پاؤں ننگے ہیں‌بینظیروں کے
لیکن ہم اس میں یہ تبدیلی کریں گے
پاکستان کا ہر بلاول ہے غدار
ضمیر مردہ ہیں‌بینظیروں کے

میرا پاکستان's last blog post..ڈیلی ٹیلیگراف کے نامہ نگاروں کی بدزبانی

11/15/2007 12:24:00 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب