تین پرویز
پیارے بچو آئیے آپ کو آج مثالی دوستی کے موضوع پر ایک دلچسپ اور سبق آموز کہانی سناتے ہیں۔
بہت سال پہلے دلی کے ایک محلے میں تین بچے ایک ہی دن پیدا ہوئے۔ایک کا نام رکھا گیا پرویز مشرف اور دوسرے کا نام اس کے والدین نے رکھا پرویز مشرف اور تیسرے بچے کا نام تھا پرویز مشرف۔ان تینوں پرویزوں اور ان کے والدین میں بڑی محبت اور حسنِ سلوک تھا۔وقت گزرتاگیا اور زمانے کا گرم و سرد انہیں کہیں سے کہیں لے گیا۔ان میں سے دو پرویز تو ملک اسلام آباد کی فوج میں بھرتی ہو گئے اور تیسرا پرویز ادھر ادھر ہوگیا۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ جن پرویزوں کو فوج میں کمیشن ملا ان میں سے ایک والدین کی دعاؤں اور محنت کے طفیل ترقی کرتے کرتے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر پہنچ گیا اور دوسرے پرویز نے بھی اعلیٰ ترین جرنیل کے طور پر ترقی پائی اور اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنیاد پر جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف کمیٹی کا چیئرمین بن گیا۔ایک دن جب چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کسی ملک کے دورے سے واپس آ رہا تھا تو حاکمِ وقت نے اسے دھوکے سے مروانے کی کوشش کی۔اس موقع پر جوائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین پرویز مشرف نے دیگر جرنیلوں کے ساتھ مل کر چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کا بے جگری سے ساتھ دیا اور دشمن حاکم کو مار بھگایا۔
پھر جیسا کہ کہانیوں میں ہوتا ہے اتفاق سے دونوں پرویزوں کو اپنا بچھڑا ہوا تیسرا جگری یار پرویز مشرف بھی مل گیا۔دونوں پرویز اس تیسرے یار کے ملنے پر جذبات سے اتنے مغلوب ہوگئے کہ اسے ملک اسلام آباد کا صدر بننے کی پیش کش کردی اور تیسرے پرویز نے یہ پیشکش بخوشی قبول کرلی۔تینوں نے پہلے سے براجمان بڈھے کھوسٹ صدر کو ڈنڈا ڈولی کرکے ٹیکسی میں بٹھایا اور ملک لاہور کی طرف روانہ کر دیا۔اور اس کی جگہ تیسرا پرویز کرسی صدارت پر متمکن ہوگیا۔اس کے بعد دونوں فوجی پرویزوں نے تیسرے پرویز کو پہلے تو صدارتی سلوٹ مارا اور پھر آنکھ ماری اور پھر تینوں تا دیر پیٹ پکڑ ے ہنستے رہے۔
ایک دن جب تینوں پرویز صدارتی محل میں بیٹھے تین پتی کھیل رہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک پرویز نے اعلان کیا کہ میں نوکری کرتے کرتے بور ہوچکا ہوں اس لیے اب سبکدوش ہوکر اپنے پوتوں نواسوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور مطالعے اور گولف کورس میں وقت گزارنا چاہتا ہوں۔اب تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔میرے مشوروں کی جب بھی ضرورت ہو میں حاضر لیکن مجھے روکنے کی ضد نہ کرنا۔چنانچہ صدر پرویز مشرف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے بڑے بھاری دل کے ساتھ اپنے جگری یار جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو الوداع کہا اور پھر رموزِ مملکت سلجھانے میں لگ گئے۔
ایک روز صدر پرویز مشرف نے چیف آف سٹاف پرویز سے پوچھا۔یار۔۔۔جس طرح ہیٹ سے خرگوش نکل سکتا ہے کیا اسی طرح ہیلمٹ سے کوئی سیاسی جماعت نہیں برآمد ہوسکتی۔چیف آف سٹاف نے کہا کہ نکل تو سکتی ہے لیکن آخر اس کی ضرورت کیا ہے۔صدر پرویز مشرف نے کہا کہ تو تو اکثر فوجی امور میں مصروف رہتا ہے اور میں بیٹھا بیٹھا بور ہوتا رہتا ہوں۔پارٹی ہوگی تو میری بھی کچھ مصروفیت ہوجائے گی اور ویسے بھی میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ بلڈی سویلینز آخر کتنے بلڈی ہوتے ہیں۔
چنانچہ چیف آف آرمی سٹاف نے اپنے کچھ ماتحتوں کے ہمراہ ایک پارٹی تشکیل کرکےصدر کے حوالے کردی تاکہ صدر کا دل لگا رہے۔صدرِ مملکت شغل شغل میں اس پارٹی کے سویلینز سے مشورے کر کے وقت گزاری کرتے لیکن آخری مشورہ ہمیشہ اپنے جگری چیف آف آرمی سٹاف کا ہی مانتے۔
اس مثالی ہم آہنگی کےنتیجے میں انہیں بہت فائدہ ہوا۔مثلاً دونوں نےمل کر جب ملکی امور، اپنے سویلین ماتحتوں اور سویلین پارٹی پر نگاہ رکھنے کے لئے نیشنل سیکورٹی کونسل نامی ایک ادارہ تشکیل دیا تو اس کا ایجنڈہ صدر پرویز مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کے ساتھ مشترکہ طور پر ہی بنایا۔اس کے سبب اس کونسل نے جتنے بھی فیصلے کئے بلا چون و چرا کئے۔کونسل کے دیگر ارکان کی مجال نہیں تھی کہ دونوں کی مشترکہ خواہش سےانحراف کرسکیں۔
تو بچو یہ ہوتی ہے اتحاد کی برکت!
دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ملک اسلام آباد کی حکومت میں ایک روانی اور استحکام آگیا۔جہاں صدر، چیف آف آرمی سٹاف اور وزیرِ اعظم نامی کوئی عہدیدار مل کر حکومتی پالیسیاں طے کرتے تھے۔
صدر مشرف کی حکومت سے پہلے اقتدار کی یہ تکون مستقل کھینچا تانی کا شکار رہتی تھی۔لیکن صدر مشرف اور جنرل مشرف نے اس تکون کو ایک استحکام بخشا جس کے سبب وزیرِ اعظم بھی سیدھا رہتا تھا اور ملک اسلام آباد کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ایک منتخب حکومت نے پانچ برس پورے کئے۔
صدر مشرف سے پہلے کے ادوار میں چیف آف آرمی سٹاف کو تین برس سے زیادہ اپنے عہدے پر رہنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔لیکن جنرل پرویز اور صدر پرویز کی یاری نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا اور جنرل پرویز مشرف نے جب بھی یاد دلایا کہ انکی چیف آف سٹاف کے عہدے کی مدت قریب الختم ہے۔صدر پرویز مشرف اپنا قلم اپنے دوست کی طرف یہ کہہ کر بڑھا دیتے۔۔۔۔یار تو خود ہی اپنی توسیع کی فائیل پر میری طرف سے دستخط کرلے۔۔۔۔۔
یہ صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی یاری کا ہی تو ثمر ہے کہ جب سپریم کورٹ نامی عدالت کے جج آپے سے باہر ہونے لگے اور انہوں نے دشمنوں کے ساتھ مل کر صدر پرویز مشرف کو چلتا کرنے کی ٹھانی تو یہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے اپنے بچپن کی دوستی کا حق یوں نبھایا کہ صدر مشرف کے علم میں لائے بغیر ایمرجنسی لگا دی ۔سرکش ججوں کےمنہ سی دیئےاور دیگر اول فول بکنے والوں کو خاک چٹوادی۔
صدر مشرف کو اگرچہ یہ بات کچھ زیادہ نہیں بھائی کہ جنرل پرویز مشرف نے ان سے پوچھے بغیر ایمرجنسی لگا دی۔لیکن پھر یہ سوچ کر جنرل مشرف کو کچھ نہیں کہا کہ جو کام میں امریکی دباؤ میں دو ماہ پہلےنہ کرسکا وہ کام میرے وفادار دوست چیف آف سٹاف نے پلک جھپکتے میں کر ڈالا۔اگر مجھ سے پوچھ کر کرتا تو شاید میں اجازت نہ دے پاتا۔شکر ہے بات بن بھی گئی اور رہ بھی گئی۔
اور بچو ! وفاداری و دوستی کی اس کہانی میں مزید چار چاند اس طرح لگے جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے اپنے دوست اور باس صدر پرویز مشرف کو یہ اختیار منتقل کردیا کہ صدر اپنی مرضی سے ایمرجنسی کے اعلان میں تبدیلی کر سکتے ہیں اور اسے ختم بھی کرسکتے ہیں۔
پیارے بچو یہ بات تو عجیب و غریب نہیں ہے کہ ایک باس اپنے ماتحت کو کوئی اختیار دے دے۔لیکن دنیا کی حکومتی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کوئی ماتحت اپنے باس کو کوئی اختیار منتقل کرڈالے یا باس کے ہوتے ہوئے باس کا اختیار استعمال کرلے۔ایسے معجزے ملک اسلام آباد المعروف سب سے پہلے پاکستان میں ہی ممکن ہیں۔
بچو اگر آپ کو صدر پرویز مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی مثالی دوستی کے بارے میں مزید مواد درکار ہے تو اس کے لیےصدر کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر پڑھنا بہت ضروری ہے۔اس کتاب میں صدر مشرف نے اپنے دوست جنرل مشرف کے کارنامے تفصیلاً اجاگر کرتے ہوئے زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
پیارے بچو ہماری دعا ہے کہ آپ سب بھی صدر مشرف اور جنرل پرویز مشرف کی طرح ہنسی خوشی مل جل کر کھائیں پئیں، کھیلیں کودیں اور دودھوں نہائیں پوتوں پھلیں۔
آمین۔ ثم آمین۔
بشکریہ ۔ وسعت اللہ خان، بی بی سی اردو سروس
1 comments:
میں در گیا تھا کہ می جو تین پرویزوں کی کہانی لکھنے کی سوچ رہا تھا وہ آپ نے لکھ دی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا ۔ پہلے ایک آدھ بار ہو چکا ہے ۔
11/17/2007 09:47:00 PMاجمل's last blog post..ضروری اطلاع
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔