ہم نے جینے کے خواب دیکھے تھے
اِک زمانہ ہوا کہ زنداں کی !
مثل آہن فصیل ٹوٹی تھی !
شب جو چھائی تھی چار سو اپنے
اس کا دل چیر کر ہمارے لئے
ایک روشن لکیر پھوٹی تھی
روشنی بھر گئی دل و جان میں
روشنی بارور امیدوں کی
روشنی زندہ تر نویدوں کی
کوئی احساس سے نہ کھیلے گا
ظلم ہو گا نہ ظالم و مظلوم
کوئی ضرب ستم نہ جھیلے گا
بعد مدت کے ہم نے سمجھا تھا
دل کا احساس کٹ گئی مشکل
امتحانوں کا دور ختم ہوا
ہر نظر میں خمارِ آزادی
وقت مجبوریوں کا بیت گیا
حبس زندان کا دم تو ٹوٹ چکا
اب ہوائیں ہماری ہیں
کٹ گئے ہیں ہاتھ، ظالم ہاتھ
جو ہمارے پروں کو باندھتے تھے
اب فضائیں ہماری اپنی ہیں
اب کوئی دل شکن نہیں ہم میں
اب مقدر کا فیض عام ہوا
دیس ہر درد کی دوا ہو گا
درد بے چارگی تمام ہوا
اسی امید کے سہارے پر
زندگی نے عذاب دیکھے تھے
راحتِ جاں کے خواب دیکھے تھے
خواب بھی دو طرح کے ہوتے ہیں
کچھ وہ جن کو تعبیر ڈھونڈتی ہے
کچھ وہ جو تعبیر کو ترستے ہیں
ہم نے جینے کے خواب دیکھے تھے
لیکن آسیب موت کے ساتھ رہا
خونِ انساں کا بھاؤ گرتا گیا
گھر میں، چوراستوں میں حرفِ ستم
آدمی کے لہو سے لکھا گیا !
نوکِ خنجر سے دل کے کاغذ پر
ہاں مقدر لکھا گیا خوں سے
بارگاہوں میں بم چلائے گئے
مسجدں میں وضو ہوا خوں سے
ہم نے جینے کے خواب دیکھے تھے
امن کی خوشبوئیں تلاشتے تھے
کیا خبر تھی کہ اپنے دیس میں بھی
عدل کے نام پر ستم ہو گا
کب یہ سوچا تھا اس گرانی میں
نرخ انسانیت ہی کم ہو گا
اب پلٹ کے نگاہ جاتی ہے
ایسے لگتا ہے دست غربت میں
ہم نے جتنے بھی خواب دیکھے تھے
خواب کیا تھے سراب تھے
سید منظور حسین گیلانی
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔