خواب عذاب ہیں
خواب سودا گری کرتے ہیں
ہر اک تعبیر کی قیمت وصول کرتے ہیں
صحرائے بے آب میں
آبلہ پا سفر پہ مجبور کرتے ہیں
تھوڑی خوشیاں دے کر
بہت سا رنجور کرتے ہیں
کسی تعبیر کی صورت
ساعتوں میں ڈھل جاتے ہیں
کبھی صدیوں کی مسافتیں نذر کرتے ہیں
روشنی کا سراب دے کر
تاریکیاں ہمسفر کرتے ہیں
خواب عذاب ہیں
نا تمام خواہشوں کی کتاب ہیں
کہیں خار تو کہیں گلاب ہیں
دل ِ بے خبر کو آشنائے درد کرتے ہیں
کچھ اس ادا سے دلبری کرتے ہیں
زخم دے کر چارہ گری کرتے ہیں
خواب سودا گری کرتے ہیں ۔۔۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔