07 November, 2007

خواب عذاب ہیں

خواب سودا گری کرتے ہیں
ہر اک تعبیر کی قیمت وصول کرتے ہیں
صحرائے بے آب میں
آبلہ پا سفر پہ مجبور کرتے ہیں
تھوڑی خوشیاں دے کر
بہت سا رنجور کرتے ہیں
کسی تعبیر کی صورت
ساعتوں میں ڈھل جاتے ہیں
کبھی صدیوں کی مسافتیں نذر کرتے ہیں
روشنی کا سراب دے کر
تاریکیاں ہمسفر کرتے ہیں
خواب عذاب ہیں
نا تمام خواہشوں کی کتاب ہیں
کہیں خار تو کہیں گلاب ہیں
دل ِ بے خبر کو آشنائے درد کرتے ہیں
کچھ اس ادا سے دلبری کرتے ہیں
زخم دے کر چارہ گری کرتے ہیں
خواب سودا گری کرتے ہیں ۔۔۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب