06 November, 2007

پیشہ ور قاتلو

پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں


میں نے اب تک تمھارے قصیدے لکھے
اورآج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
اپنے شعروں کی حرمت سے ہوں منفعل
اپنے فن کے تقاضوں سے شرمندہ ہوں
اپنےدل گیر پیاروں سےشرمندہ ہوں


جب کبھی مری اس دلزدہ خاک پر
سایہ غیر یا دست دشمن پڑا
جب بھی قاتل مقابل صف آرا ہوئے
سرحدوں پر میری جب کبھی رن پڑا
میراخونِ جگر تھا کہ حرفِ ہنر
نذر میں نے کیا مجھ سے جو بن پڑا

آنسوؤں سے تمھیں الوداعیں کہیں
رزم گاہوں نے جب بھی پکارا تمھیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹتے
ہار نے بھی نہ جی سے اتارا تمھیں


تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی
ہم نے پھر بھی کیا ہےگوارا تمھیں


سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جن کا خوں منہ پہ ملنے کو تم آئے تھے


مامتاؤں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے


ان کی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
ان کی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے


اس کا انجام جو کچھ ہوا سو ہوا
شب گئی خواب تم سے پریشاں گئے


کس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے


تیغ در دست و کف در دھاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے

جیسے برطانوی راج میں گورکھے
وحشتوں کے چلن عام ان کے بھی تھے

جیسے سفاک گورے تھے ویت نام میں
حق پرستوں پہ الزام ان کے بھی تھے

تم بھی آج ان سے کچھ مختلف تو نہیں
رائفلیں وردیاں نام ان کے بھی تھے

پھر بھی میں نے تمھیں بے خطا ہی کہا
خلقت شہر کی دل دہی کے لیئے

گو میرے شعر زخموں کے مرہم نہ تھے
پھر بھی ایک سعی چارہ گری کیلئے
اپنے بے آس لوگوں کے جی کیلئے

یاد ہوں گے تمھیں پھر وہ ایام بھی
تم اسیری سے جب لوٹ کر آئے تھے

ہم دریدہ جگر راستوں میں کھڑے
اپنے دل اپنی آنکھوں میں بھر لائے تھے

اپنی تحقیر کی تلخیاں بھول کر
تم پہ توقیر کے پھول برسائے تھے

جن کے جبڑوں کو اپنوں کا خوں لگ گیا
ظلم کی سب حدیں پاٹنے آگئے

مرگ بنگال کے بعد بولان میں
شہریوں کے گلے کاٹنے آگئے

اج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو

اتنی غارتگری کس کی ایما پہ ہے
کس کے آگے ہو تم سر نگوں غازیو

کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو

کیا خبر تھی کہ اے شپرک زادگاں
تم ملامت بنو گے شب تار کی

کل بھی غا صب کے تم تخت پردار تھے
آج بھی پاسداری ہے دربار کی

ایک آمر کی دستار کے واسطے

سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
تم نے دیکھے ہیں جمہور کے قافلے

ان کے ہاتھوں میں پرچم بغاوت کے ہیں
پپڑیوں پر جمی پپڑیاں خون کی

کہ رہی ہیں یہ منظر قیامت کے ہیں
کل تمھارے لیئے پیار سینوں میں تھا

اب جو شعلے اٹھے ہیں وہ نفرت کے ہیں
آج شاعر پہ بھی قرض مٹی کا ہے

اب قلم میں لہو ہے سیاہی نہیں


خون اترا تمھارا تو ثابت ہوا
پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں

اب سبھی بے ضمیروں کے سر چاہیئے
اب فقط مسئلہ تاج شاہی نہیں


احمد فراز

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔


بلاگر حلقہ احباب