قائدِ قانون
قائد قانون ہی قومِ عقیق کی عمق ہے۔ قانون حکمران ہو تو قوم کی شان ہوتی ہے، جب انسان ایمان کے ساتھ امان بھی رکھے تو یہ ازاں سے اذعان کا ہی اعلان ہے۔ جسکو اِذن ہوتا ہے وُہ ہر حال قانون شکنی سے اعراض کرتا ہے۔ اعتزال میں بھی اعتصام ِ علم”بالادستیءِ قانون“ تھامے رکھتا ہے۔ اسی کو اعتزاز کا اعزاز کہتے ہیں، جو معاشرے کو معاشروں میں معزز بناتا ہے۔ اسی افتخار کے اقبال کو تاریخ ضیافشاں کی ضوفشاں ٹھہراتی ہے۔
قانون ا قدار، اُصول، قاعدہ، ضابطہ اور پابندی ہیں۔ قانون کچھ بھی ہوسکتا ہے، جس میں کچھ حدود مقرر ہو اور انسانیت کی فلاح واضح ہو۔ ہر گھر کا ایک اُصول، رشتہ کی قدر، کھانے کے آداب، بات کرنے کا انداز، لباس پہننے کا سلیقہ، گفتگو کے قواعد، محافل میں شرکت کرنے کے کچھ ضوابط اور مذہبی احکامات کی کچھ پابندیاں لازم ہوتی ہیں۔ یہ وُہ تمام معاملات ہے جو ایک انفرادی انسان کی ذات کا جز ہونا ضروری ہے۔ تبھی وُہ ایک مہذب انسان کہلاتا ہے۔ لائیبریری میں بیٹھنے، بازار میں خرید و فروخت، سڑک پر چلنا کے کچھ قاعدے بھی طےشُد ہیں اور قانون بھی مقرر ہیں، جن میں ٹکراؤ بھی نہیں۔ اِسی طرح جب ہم ایک فرد سےگروہ، تنظیم اور قوم کی حد تک چلتے ہیں تو انسان کی مضبوطی سے لے کر معاشرہ کے استحکام اور پھر مملکت کی طاقت اور امّہ کا اتحاد صرف اور صرف اپنے اپنےدائرہ کے حدود کی مکمل پاسداری میں ہے۔ ہر درجہ کے کچھ اُصول اور قانون ہوتے ہیں۔ قانون احترام سے ہوتا ہے، احترام قانون سے نہیں۔
قانون ہمیں حدود سے تجاوز کرنے سے روکتا ہے۔ قانون کی پابندی ہی قانون کی بالادستی ہے جو پابند نہیں وُہ عہد شکن ہے جو باغی کہلاتا ہے اور باغی شیطان بھی ہوتا ہے۔ جب کبھی قانون کو توڑا جاتا ہے۔ ادارے، ملک اور قوم کمزور ہو کر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی قوم کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی اور بالادستی میں مضمر ہے۔ مگر آج یہ بات ہمیں شائد سمجھ نہ آئے کیونکہ ہمیں کسی کی عزت اور قدر کا احساس نہیں۔ قانون کی حکمرانی انسان کے اندر سے شروع ہوتی ہے۔ قانون توڑنے والا قانون نافذ نہیں کرسکتا؛ وُہ صرف قانون شکنی کرنا جانتا ہے۔ کیونکہ اُس کا مزاج ہی شکن افروز ہوتا ہے۔ عہد شکن، مزاج شکن، قانون شکن، روایت شکن، مذہب شکن مگر وُہ بت شکن نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ بت کدوں سے ہی شکن مزاجیاں بنتی ہیں؛ جو اُسکی شہ سُرخیاں رہتی ہے۔
اسلام نےقانون کی بالادستی کی بنیاد لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ سےسمجھا دی۔ لفظ ’پاکستان‘ کلمہ طیبہ ہی سے ہیں تو پاکستان کا قانون بھی یہی ہوا۔ ذرا سوچیئے! یہ ہمارا اللہ سے وعدہ ہے؟ دین اسلام کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپکو اللہ کی رضا کے تابع کرلینا۔ کیا آج ہم سب اپنے آپکو اللہ کی رضا کے تابع کر چکے ہیں؟ تو پھر قانون کی بالادستی بہت دور ہے۔ کیونکہ قانون کی بالادستی والدین کا احترام اور خدمت کرنے سے شروع ہوتی ہے، اپنےقول کو ہر حال نبھانا، وعدہ کی پاسداری کرنا بھی ہے۔آج ہمارا قانون اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتا دوسروں کی ذات کے لئے ہوتا ہے۔ قانون سزا دینے کے لئے بناتے ہیں معاشرہ کی اصلا ح کے لئے نہیں بناتے بلکہ اصطلاح اپنی جزاء کے لئے کرتے ہیں۔ جبکہ یہ قانون شکنی ہوتی ہے۔ عادل کا انصاف دیانتداری سے ترازو کےدونوں پلڑوؤں کو مساوی کر کے ہم وزن کر دینا ہی قانون کی بالادستی ہے۔ کیا آج ہماری خواہشات قانون کے آگے سرخم کرتی ہیں اگر کر دیں تو قانون کی حکمرانی معاشرہ میں ہوگی۔ جس سے ہمارےگھر، شہر، ملک اور دُنیا بلکہ ہر معاملہ شعبہءزندگی میں امن قائم ہو جائےگا۔ قانون کا احترام well mannered لوگ کیا کرتے ہیں، وُہ افراد اعلٰی ظرف، تہذیب یافتہ عالی خاندانوں کے چشموں چراغ اور مہذب قوم کے نمائندے کہلاتے ہیں۔ جو قانون کا احترام نہ کرسکیں وُہ well mannered نہیں ہوسکتا۔ جو well-mannered نہیں وُہ نہ تو respected ہو سکتا ہے اور نہ ہی Honoarable ۔
آج ہم قاعدہ کیوں نہیں بناتے کہ ایک کہانی ہے کہ ’چور اپنے اصول کی وجہ سے پکڑا گیا ورنہ چوری تو وُہ کر بیٹھا تھا۔ اصول نے مروا دیا۔ وُہ بے وقوف تھا۔‘حقیقتاً وُہ معاشرہ اور چور نادان نہ تھے نہایت ہی عاقل تھے۔ چوروں کے کچھ لوٹنے کے اُصول بھی ہوتے تھے۔ آج اصول نہیں تبھی اخبارات ڈاکو کے ڈاکے کے ساتھ قتل، ظلم اور زیادتی کی خبر ہیں۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو وہاں چور چوری مجبوری سےکرتا ہے، اور اپنی ضرورت سے بڑھ کر زیادتی نہیں کرتا۔ صرف اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، ہوس (دولت، مرتبہ، نگاہ) کی تسکین نہیں کرتا۔
اگر کسی قوم کو کامیاب بننا ہے تو ہرفرد کو اپنے اندر دوسروں کی عزت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اُصولوں پر ڈٹ جانا؛ چاہے موت واقع ہو جائے مگر ضمیر کا سودا نہ کرے۔ اس کا عملی نمونہ قائد اعظم رول ماڈل کے طور پر ایک مشعلچی کی صورت میں مشعل راہ ہے۔ جب ہم اپنے دل اور مزاج پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے تو قانون کی حکمرانی آہستہ آہستہ ہماری ذات، گھر، خاندان، شہر، معاشرے اور ملک میں نافذ ہو جائےگی۔ ہمیں خود مشعلچی نہیں بننا بلکہ اُس مشعل راہ کو اپنانا ہے جو قائداعظم نےعطاء کی۔بالادستیءِ قانون انسان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہر طرح کا تحفظ جو آپ سوچ سکتے ہیں۔ صحتمند قوم صحتمند سوچ سے ہی ہوتی ہے اور صحتمند سوچ قانون کی حکمرانی سے ہوتی ہے۔
اے اللہ ہر مسلمان کو اپنے والدین کا احترام کرنے کی توفیق عطاء فرما یہی احترام قانون کی اساس ہے اور ملک پاکستان پر اخلاق کی قدر سے قانون کی بالادستی عطاء فرما دے۔ اسی اغلاق کا اطلاق ہونا باقی ہے۔ یہی اعماق ہیں جنکو عملی طور پر اختیار کر کےسمجھنا اَشد ضروری ہے۔ (فرخ)
عقیق (قیمتی) ، عمق (گہرائی) ، ازاں (آغاز)، اذعان (فرمانبرداری سےاطاعت)، اِذن (اختیار سونپنا)، اعراض (بچنا)، اعتزال (دستبرداری)، اعتصام ِ علم (مضبوطی سےجھنڈا تھامےرکھنا)، اعتزاز (وُہ خوبی جسکا اثر بھی ہو) ، ضیافشاں (روشنی پھیلانا) ، ضوفشاں (روشنی پھیلنا)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔